مضمون کے اہم نکات:
تارک نماز کا حکم
بے نماز اور شرک :
تارک نماز مشرک ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ (روم: ۳۱)
’’اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو، اور نماز کو قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا جابرؓ سے مروی رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ :
«ترك الصلاة شرك.»
’’نماز ترک کرنا شرک ہے۔“
مصنف عبدالرزاق، رقم : ٥٠٠٩ كتاب الصلوة لمحمد بن نصر المروزي، رقم : ۸۸۹ اصول السنة ، للطبراني، رقم: ۱۵۱۳ – مسند أحمد: ۳۸۹/۳، رقم: ١٥١٨٣
اس معنی کی ایک اور حدیث سیدنا جابرؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں ؛ میں نے سنا نبی ﷺ فرما رہے تھے کہ :
«إن بين الرجل، وبين الشرك، والكفر ترك الصلاة.»
’’بے شک بندے اور شرک و کفر کے درمیان فرق قائم کرنے والی نماز ہے۔‘‘
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: ٢٤٧ سنن ترمذی، کتاب الإيمان، رقم: ٢٦١٩
اور سیدنا ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو بیان فرماتے ہوئے سنا :
«بين العبد وبين الكفر والإيمان الصلاة ، فإذا تركها فقد أشرك»
’’بندے، کفر اور ایمان میں فرق کرنے والی صرف نماز ہے، اسے ترک کرنے پر بندہ مشرک قرار پاتا ہے۔“
شرح اصول اعتقاد أهل السنه، رقم : ١٥٢١- صحيح الترغيب والترهيب ، للألباني : ٣٦٧/١، رقم: ٥٦٦.
سیدنا یزید الرقاشیؓ نبی اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
«ليس بين العبد والشرك إلا ترك الصلوة، فإذا تركها فقد أشرك»
’’مومن بندے اور مشرک کے درمیان صرف نماز کا فرق ہے، پس جو شخص اسے چھوڑ دیتا ہے، وہ شرک کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔“
ماحه بحواله صحيح الترغيب والترهيب : ٣٦٨/١، رقم : ٨٦٨
اور سید نا انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
«بين العبد وبين الكفر أو الشرك ترك الصلوة.»
’’بندے اور کفر یا شرک کے درمیان فرق ترک نماز سے ہے۔“
كتاب الصلوة از محمد بن نصر المروزی، رقم: ۸۹۹
بے نماز اور کفر :
قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ترک نماز کفر ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
«بين الكفر والإيمان ترك الصلاة.»
’’ایمان اور کفر کے درمیان فرق نماز کا ترک کرنا ہے۔“
سنن ترمذی، باب ما جاء في ترك الصلاة، رقم: ٢٦۱۸- سنن ابن ماجة، رقم: ۱۰۷۸
تمام صحابہ کرامؓ کے نزدیک بھی ترک نماز کفر ہے، چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:
«كان أصحاب محمد لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة.»
’’اصحاب محمد ﷺ ترک نماز کے علاوہ کسی دوسرے عمل کے ترک کرنے کو کفر نہیں گردانتے تھے۔‘‘
سنن ترمذی، باب ما جاء في ترك الصلاة، رقم: ٢٦٢٢- صحيح الترغيب والترهيب : ٢٢٧/١، رقم: ٥٦٤.
امیر المؤمنین سیدنا علیؓ بن ابی طالب فرماتے ہیں :
«من لم يصل فهو كافر.»
’’جو کوئی نماز ادا نہ کرے وہ کافر ہے۔‘‘
مصنف ابن ابی شیبه رقم: ۷۷۲۲، ۳۱۰۷۵
اور فقیہ الامہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
«من ترك الصلاة كفر.»
’’جس کسی نے نماز ترک کی، اس نے کفر کیا۔‘‘
معجم كبير للطبراني ، رقم: ۸۹۳۹ الشريعه ، للأخرى ، رقم : ١٣٣.
مفسر قرآن، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
«من ترك الصلاة فقد كفر.»
’’جس نے نماز ترک کردی تحقیق اس نے کفر کیا۔“
تمهيد لابن عبد البر : ٢٢٥/٤- کتاب الصلاة از محمد نصر، رقم: ۹۳۹
سیدنا جابر بن عبداللہؓ کا فرمان ہے کہ :
«من لم يصل فهو كافر.»
’’نماز ادا نہ کرنے والا کافر ہے۔“
تمهيد لابن عبدالبر : ٢٢٥/٤
سیدنا ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں:
«ترك الصلاة كفر ، لا يختلف فيه.»
’’نماز ترک کرنا کفر ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔‘‘
السنة ، للمروزي، رقم: ۹۷۸
سیدنا عبداللہ بن مبارکؒ (شاگرد امام ابوحنیفہؒ) فرماتے ہیں:
«من أخر صلاة حتى يقوت وقتها متعمدا من غير عشر فقد كفر.»
’’جو شخص بغیر عذر جان بوجھ کر نماز کو لیٹ کرتا ہے حتی کہ اس کا وقت گذر جائے ، تو یقینی طور پر وہ کافر ہے۔“
الصلاة ، لابن القيم، ص: ٥٣
جناب صدقہ بن فضلؒ سے تارک نماز کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ، وہ کافر ہے۔
الصلاة ، لابن القيم، ص: ٥٣
تارک نماز بے دین ہے:
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ :
«ومن ترك الصلاة فلا دين له.»
’’جس نے نماز چھوڑ دی، اس کا کوئی دین، مذہب نہیں۔“
المعجم الكبير للطبراني رقم : ٨٩٤٢- صحيح الترغيب والترهيب للألباني.
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں:
«من ترك الصلاة لا دين له.»
’’تارک نماز کا کوئی دین نہیں۔“
التاريخ الكبير للبخاري : ٩٥/٧.
اور سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«لا دين لمن لا صلاة له.»
’’بے نماز کا کوئی دین، مذہب نہیں ہے۔“
المعجم الصغير للطبرانی، رقم: ٦٠
تارک نماز بے ایمان ہوتا ہے:
مجاہد بن جبیرؒ نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ لوگوں کے نزدیک اعمال میں سے کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی کیا چیز تھی ؟ تو انہوں نے جواباً فرمایا :«الصلاة» نماز.
الترغيب والترهيب للألباني
سیدنا ابو الدرداءؓ فرماتے ہیں:
«لا إيمان لمن لا صلاة له.»
’’بے نماز کا کوئی ایمان نہیں ہے۔“
اصول السنة للطبري ، رقم: ١٥٣٦- التمهيد لابن عبدالبر: ٢٢٥/٤- كتاب الصلاة ، محمد بن نصر ، رقم : ٩٥٤- صحيح الترغيب والترهيب، رقم : ٥٧٤.
تارک نماز کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں :
ابو ملیعؒ سے روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ نے برسر ممبر ارشاد فرمایا :
«لا إسلام لمن لم يصل.»
’’جو شخص نماز نہیں ادا کرتا، اس کا کوئی اسلام نہیں۔“
كتاب الصلاة، محمد بن نضر، رقم: ۹۳۰
سیدنا عمر بن خطابؓ سے ہی مروی ہے کہ :
«لا حق فى الإسلام لمن لا صلاة له.»
’’جس شخص کی نماز نہیں، اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔“
مصنف ابن ابی شیبه کتاب المغازی، رقم ۳۸۲۲۹ متن دار قطنی، رقم: ١٧٢٦.
یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے مانعین زکوۃ کے خلاف جہاد کیا تھا، انہوں نے قرآن مجید کی کئی ایک آیات کریمہ سے استدلال کیا تھا، مثلاً :
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٥﴾ (التوبه : ٥)
’’پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بہت بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿١١﴾ (التوبه:١١)
’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں۔ اور ہم اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ۔“
یعنی ان لوگوں سے قتال اس شرط کے ساتھ ہی حرام تھا کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اس کے عائد کردہ واجبات کو ادا کریں۔
صحیحین میں سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :
«أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة.»
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔‘‘
صحیح بخاری ، کتاب الايمان، رقم: ۲۵ صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم: ۲۲
معلوم ہوا کہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ذیل میں بیان کردہ حدیث پاک سے بھی یہ بات عیاں ہے کہ جو شخص نماز میں شریک نہیں ہوا، رسول اللہﷺ نے اس کو مسلمان نہیں سمجھا۔ چنانچہ بسر بن محجن سے روایت ہے، وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ایک مجلس میں تھے۔ چنانچہ نماز کے لیے اذان ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی اور واپس آئے جب کہ محجنؓ نے اسی جگہ پر تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کیوں نہیں کی؟ کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا : اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں، لیکن میں اپنے گھر میں نماز ادا کر چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو آگاہ کیا کہ جب تم مسجد میں آؤ اور تم فرض نماز ادا کر چکے ہو اور نماز کی اقامت کہی جائے تو تم لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرو اگرچہ تم نماز ادا کر چکے ہو۔
موطا مالك: ۱۳۲/۱، رقم : ٨ من باب صلاة الجماعة سنن النسائي، كتاب الإقامة، رقم: ٨٥٧ صحيح ابی داؤد، رقم: ٥٩١،٥٩٠
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات ظاہر و ہے کہ جس شخص نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ نماز میں شرکت نہیں کی، آپ نے اسے مسلمان نہیں گردانا۔
بے نماز اور نفاق :
نماز میں کسی طرح کی بھی سستی اور لاپرواہی منافقوں کے اوصاف میں شمار ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ (النساء : ١٤٢)
’’بے شک منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، اور وہ انہیں دھوکہ میں ڈالنے والا ہے، اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہل بن کر کھڑے ہوتے ہیں، اور اللہ کو برائے نام یاد کرتے ہیں۔“
ڈاکٹر لقمان سلفیؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
ان (منافقین) کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب نماز کے لیے آتے ہیں تو بوجھل جسم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے کسی نے انہیں اس کام پر مجبور کیا ہو، اس لیے کہ ان کی نیت نماز کی نہیں ہوتی، اور نہ اس پر ان کا ایمان ہوتا ہے، اور نہ ہی نماز کے ارکان و اعمال پر وہ غور و خوض کرتے ہیں۔ ان کا مقصد تو لوگوں کو دکھلانا ہوتا ہے تا کہ انہیں مسلمان سمجھا جائے، وہ اپنی نمازوں میں بہت کم اللہ کو یاد کرتے ہیں، نہ وہ خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، اور نہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ زبان سے کیا پڑھ رہے ہیں۔“
حافظ ابن مردویہؒ نے سیدنا ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ بُری بات ہے کہ آدمی نماز میں سست کھڑا ہو، بلکہ اسے خوش وخرم اور شاداب چہرے کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے، اس لیے کہ بندہ نماز میں اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، اور جب اسے پکارتا ہے تو اس کی پکار سنتا ہے۔
امام حاکمؒ کہتے ہیں :
’’یہ آیت دلیل ہے کہ نماز میں سستی کرنا منافق کی نشانی ہے۔‘‘
(تیسیر الرحمن ہیں: ۳۰۷)
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’منافقین پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے۔‘‘
صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب فضل صلاة العشاء في الجماعة، رقم: ٦٥٧- صحيح مسلم، كتاب المساجد، حديث رقم : ١٤٨٢
سیدنا رافع بن خدیجؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’کیا میں تمہیں منافق کی نماز کے بارے میں بتلاؤں؟ وہ عصر کی نماز لیٹ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج غروب ہونے کے انتہائی قریب ہو جاتا ہے تو اس وقت پڑھتا ہے۔‘‘
مستدرك حاكم ۱۹۰۱ – سنن دار قطنی ٢٥٣٠٢٥٢١- سلسلة الصحيحة، رقم: ١٧٤٥.
بے نماز متکبر ہے:
کل جس سر کو غرور تھا تاجوری کا
آج اس سر پہ عالم ہے نوحہ گری کا
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی یہ تعلیم دی کہ میرے بندو ! تم سب مجھے پکارو! میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، اس لیے کہ تم سب میرے بندے ہو، اور میں تمہارا رب ہوں، پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾ (المؤمن : ٦٠)
’’اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے، تم سب مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے، وہ عنقریب ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔“
مذکورہ بالا آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ بوجہ میری عبادت سے انکار کرتے ہیں، اور مجھے پکارتے نہیں، وہ نہایت ہی ذلیل و رسوا کر کے جہنم میں پھینک دیے جائیں گے، کیونکہ ایسا صرف متکبر اور کافر ہی کرسکتا ہے۔
جو شخص بے حسی کے عالم میں مرگیا اور استکبار کے ساتھ اکڑا، اور نماز نہیں پڑھی، ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم بتلانے کے بعد اللہ رب العزت نے فرمایا :
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿٣١﴾ وَلَٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٣٢﴾ (القيامة:٣٢،٣١)
’’پس اس نے نہ تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی، بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر مشرکین مکہ کو خطاب کیا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور قرآن پاک پر ایمان نہیں لاتے، اور اپنے گناہوں سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو جاتے۔ اور انہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ تکبر کرتے ہیں، اور رب العالمین کے لیے بجز و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے سجدہ ریز نہیں ہوتے :
فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ﴿٢١﴾ (الانشقاق:۲۰،۲۱)
’’انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے ہیں، اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے ہیں۔“
اللہ قادر اور قدیر نے قارون، فرعون اور ہامان کو بھی ان کے کفر و استکبار کے سبب ہلاک و تباہ کر دیا، ان کے پاس سیدنا موسیٰ علیہا السلام اللہ تعالی کی واضح اور کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، توحید کی دعوت پیش کی، اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اس کی عبادت کی طرف بلایا، لیکن انہوں نے استکبار کی راہ اختیار کی اور ایک معبود برحق اللہ تعالی کی عبادت و پرستش کا انکار کر دیا، تو وہ اللہ تعالی سے بچ کر کہاں جا سکتے تھے؟
وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ ﴿٣٩﴾ (العنكبوت : ٣٩)
’’اور ہم نے قارون، فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کر دیا تھا، اور موسیٰ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے لیکن انہوں نے زمین پر تکبر کی راہ اختیار کی، اور وہ ہم سے بچ کر نہیں نکل سکتے تھے۔“
اس کے برعکس مومنین کی علامت یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے رب کے لیے نماز پڑھتے ہیں، عبادت کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ﴿١٥﴾ (السجدة:١٥)
’’بے شک ہماری آیتوں پر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں، جنہیں جب ان آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر جاتے ہیں، اور وہ اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں، اور تکبر نہیں کرتے۔“
ڈاکٹر لقمان سلفیؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’للہ تعالیٰ نے مومنین مخلصین کا ذکر کیا ہے کہ ہماری آیتوں پر حقیقی معنوں میں وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں قرآن کریم کی تلاوت کر کے جب نصیحت کی جاتی ہے تو اپنے دل کی طہارت اور فطرت کی پاکیزگی کی وجہ سے ان نصیحتوں کو فورا قبول کر لیتے ہیں، اور قرآن کریم کا ان پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ نعمت اسلام پر شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ میں گر جاتے ہیں، اپنے رب کی پاکی اور اس کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں، اور اہل مکہ کی طرح اس کی عبادت سے قطعا منہ نہیں موڑتے ہیں، بلکہ زندگی بھر اطاعت و بندگی کے جذبے اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی عبادت کرتے رہتے ہیں۔‘‘
سورۃ الاعراف میں فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ﴿٢٠٦﴾ (الأعراف:٢٠٦)
’’بے شک (جو فرشتے) آپ کے رب کے پاس ہیں، وہ اس کی عبادت سے تکبر کی وجہ سے انکار نہیں کرتے ہیں، اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور اس کے لیے سجدہ کرتے رہتے ہیں۔“
’’فرشتے رات دن خشوع و خضوع کے ساتھ ذکر الہی میں مشغول رہتے ہیں، اور کبھی بھی نہیں تھکتے، اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہتے ہیں، اور اس سے مقصود مومنوں کو ترغیب دلانا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی طرح کثرت سے اللہ کو یاد کرتے رہیں تسبیح وتہلیل میں مشغول رہیں، نماز پڑھیں اور رکوع وسجود کرتے رہیں۔
اس آیت کی تلاوت کے بعد قاری اور غور سے سننے والے، دونوں کے لیے قبلہ رخ ہو کر سجدہ کرنا مشروع ہے، اور افضل یہ ہے کہ سجدہ کرنے والا باوضو ہو۔ قرآن کریم میں یہ پہلا سجدہ ہے۔“
(تیسیر الرحمن ص : ۵۱۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ:
«كان النبى يقرأ السجدة ونحن عنده فيسجد ونسجد معه فتزدحم حتى ما يجد أحدنا لجبهته موضعا يسجد عليه.»
’’نبی کریم ﷺ غیر حالت نماز میں کوئی سجدہ والی سورت پڑھتے تو سجدہ کرتے اور ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے، اور بوجہ از دھام لوگ اپنی پیشانی کے لیے جگہ نہیں پاتے تھے کہ جہاں وہ سجدہ کریں۔“
صحیح بخاری، ابواب جود القرآن ا، رقم ۱۰۷۹۔ صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم: ۱۲۹۵.
’’تمام فرشتے بھی اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، اس کی عبادت و نماز سے تکبر کرتے ہیں، اور نہ ہی اس سے تھکتے ہیں، شب و روز اس کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، جیسا کہ کوئی شخص ہر حال میں سانس لیتا رہتا ہے، اور ہر گھڑی اس کی پلک جھپکتی رہتی ہے، اور جب تک زندہ رہتا ہے کبھی بھی ان دونوں کاموں میں تھکن محسوس نہیں کرتا، بالکل اسی طرح فرشتے ہر حال میں تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، ایک لمحہ کے لیے بھی انقطاع نہیں ہوتا، اور یہ بات ان کے لیے ایسا امر طبیعی ہے کہ کبھی بھی اس سے تھکن نہیں محسوس کرتے۔“
(تیسیر الرحمن ص :۹۲۱ – ۹۲۲)
وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ﴿٢٠﴾ (الأنبياء:۱۹-۲۰)
’’اور آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے سب اسی کی ملکیت میں ہے، اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں، اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ جھکتے ہیں، وہ شب و روز تسبیح پڑھتے ہیں، سستی نہیں کرتے ہیں۔“
تارک نماز سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت اُٹھ جاتی ہے:
سیدنا ابو الدرداءؓ سے مروی ہے کہ مجھے میرے انتہائی مخلص دوست نبی کریم ﷺ نے وصیت فرمائی :
«لا تشرك بالله شيئا وإن قطعت وحرقت ، ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا ، فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الدمة ، ولا تشرب الخمر فإنها مفتاح كل شر.»
’’تم اللہ کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ ٹھہرانا، چاہے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا تجھے آگ میں جلا دیا جائے، اور فرض نماز کو بھی قصداً نہ چھوڑنا، کیونکہ جس نے فرض نماز کو جان بوجھ کر چھوڑا، اس سے اللہ تعالی کا ذمہ (حفاظت) اُٹھ گئی، اور شراب مت پینا کیونکہ یہ ہر برائی کا دروازہ کھولنے والی چیز ہے۔“
سنن ابن ماجه، کتاب الدعاء رقم : ٤٠٣٤ ارواء الغليل، رقم: ٢٠٨٦، التعليق الرغيب : ١٩٥/١ – مشكوة المصابيح ، رقم :١٥٨٠
تارک نماز اور حکومت کی خصوصیت :
صاحب اقتدار لوگوں کا یہ فریضہ منصبی ہے کہ وہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیں۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾ (الحج: ٤١)
’’جنھیں ہم جب سرزمین کا حاکم بناتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوۃ دیتے ہیں، اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“
لیکن اگر وہ فریضہ نماز کو ترک کر دیں تو ان سے لڑائی کو شریعت جائز قرار دیتی ہے۔ چنانچہ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ فرماتے ہیں : صحیح مسلم میں ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
«ستكون أمراه فتعرفون وتنكرون، فمن عرف برى ،، ومن أنكر سلم ، ولكن من رضي وتابع قالوا: أفلا نقاتلهم؟ قال : لا ما صلوا.»
’’عنقریب کچھ ایسے امراء ہوں گے کہ جن کو تم پہچانو گے بھی اور انکار بھی کرو گے، جس نے پہچان لیا وہ بری ہو گیا، اور جس نے انکار کر دیا وہ سلامت رہا، لیکن جو شخص ان سے راضی ہو گیا اور جس نے ان کی پیروی کی (وہ ہلاک ہو گیا) صحابہ کرامؓ میں نے عرض کیا : ”کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں (تم ان سے لڑائی نہ کرو)‘‘
كتاب الأمارة، باب وجوب انکار فى الأمراء فيما يخالف الشرع حديث رقم: ١٨٥٤
سیدنا عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
«خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم، ويصلون عليكم وتصلون عليهم ، وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم ، وتلعنونهم ويلعنونكم قالوا: يا رسول الله! أفلا تنا بدهم بالسيف؟ قال: لا ، ما أقاموا فيكم الصلاة.»
’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو، وہ تم سے محبت کریں، وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تم ان کے لیے دعا کرو۔ اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھو، وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : ’’کیا ہم تلوار کے ساتھ انہیں ختم نہ کر دیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’نہیں جب تک وہ نماز قائم رکھیں۔(ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ)‘‘
صحیح مسلم، كتاب الأمارة، باب خيار الأئمة وشرارهم، رقم: ١٨٥٥.
سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ ﷺ کی بیعت کی۔ ہم نے یہ بیعت کی کہ ہم پسندیدگی اور ناپسندیدگی میں، مشکل اور آسانی میں اور اپنے اوپر ترجیح دیئے جانے کی صورت میں بھی سمع و طاعت کا مظاہرہ کریں گے، اور اہل لوگوں سے حکومت نہیں چھینیں گے۔ اسی سلسلہ میں فرمایا :
«إلا أن تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان.»
’’ہاں ! الا یہ کہ تم حکمرانوں کی طرف سے صریح کفر کا ارتکاب دیکھو، اور تمہارے پاس اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان ہو۔“
صحيح بخاري، كتاب الفتن، باب سترون بعدي أمورا تنكرونها، رقم: ٠٧٠٧٦٠٧٠٥٦
کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ تارک نماز کافر نہیں ہے، یا یہ معلوم ہو کہ وہ مومن ہے، یا یہ معلوم ہو کہ وہ جنت میں داخل ہوگا، یا یہ معلوم ہو کہ وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ اس سلسلہ میں جو وارد ہے، وہ ایسی نصوص ہیں جو توحید اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کی فضیلت پر دلالت کرتی اور اس کا ثواب بیان کرتی ہیں، اور یہ نصوص یا تو کسی ایسے وصف کے ساتھ مقید ہیں، جس کے ساتھ ترک نماز ممکن نہیں یا یہ معین حالات کے بارے میں وارد ہیں، جن میں انسان ترک نماز کے لیے معذور ہوتا ہے یا یہ عام ہیں اور انہیں تارک نماز کے کفر کے دلائل پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ تارک نماز کے کفر کے دلائل خاص ہیں، اور خاص عام سے مقدم ہوتا ہے، جیسا کہ اصول حدیث اور اصول فقہ میں ایک معروف اصول ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے، کیا یہ جائز نہیں کہ تارک نماز کے کفر پر دلالت کرنے والی نصوص کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ ان سے مراد وہ شخص ہے جو نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے اس کو ترک کرے؟ ہم عرض کریں گے کہ نہیں یہ تاویل جائز نہیں، کیونکہ اس میں دو رکاوٹیں ہیں، اس وصف کا ابطال لازم آتا ہے، جسے شریعت نے معتبر قرار دیا اور جس کے مطابق حکم عائد کیا ہے۔ یعنی شریعت نے ترک نماز پر کفر کا حکم لگایا ہے اور یہاں یہ نہیں کہا کہ جو کوئی نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے وہ کافر ہے، اور پھر اقامت نماز کی بنیاد پر دینی اخوت کو قائم کیا ہے، اور یہ نہیں کہا کہ دینی بھائی وہ ہیں جو نماز کے وجوب کا اقرار کریں۔ اللہ تعالی نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور وجوب نماز کا اقرار کر لیں تو اور نہ ہی نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق وجوب نماز کے اقرار کی وجہ سے ہے کہ جو اس کے وجوب کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اگر اللہ تعالی اور اس کے رسول محمد ﷺ کی یہ مراد ہوتی تو اس سے روگردانی اس بیان کے خلاف ہوتی، جسے قرآن نے پیش کیا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (النحل : ٨٩)
’’اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے کہ ہر چیز کا مفصل بیان ہے۔“
اور جس کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا :
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل : ٤٤)
’’اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے تا کہ جو ارشادات لوگوں پر نازل ہوئے ہیں، وہ ان پر کھول کر بیان کر دو۔“
اس میں دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ اس سے ایک ایسے وصف کا اعتبار لازم آتا ہے، جسے شریعت نے مناط حکم قرار نہیں دیا۔ نماز پنجگانہ کے وجوب کا انکار موجب کفر ہے، اس شخص کے لیے جو جہالت کی وجہ سے معذور ہو خواہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے، مثلاً ایک شخص اگر پانچوں نمازوں کو تمام شروط، ارکان، واجبات اور مستحبات سمیت ادا کرے لیکن وہ کسی عذر کے بغیر ان نمازوں کے وجوب کا منکر ہوگا تو وہ کافر ہوگا، حالانکہ اس نے نماز کو ترک نہیں کیا، تو اس سے معلوم ہوا کہ نصوص کو اس بات پر محمول کرنا کہ ان سے مراد وہ شخص ہے جو وجوب نماز کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے صحیح نہیں ہے، جب کہ صحیح اور حق بات یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے اور وہ اپنے اس کفر کے باعث ملت سے خارج ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ابن ابی حاتم کی اس روایت میں اس کی صراحت ہے، جو سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ ؛
«أوصانا رسول الله ﷺ: لا تشركوا بالله شيئا، ولا تتركوا الصلاة عمدا، فمن تركها عمدا متعمدا، فقد خرج من الملة.»
’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ وصیت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، قصد وارادہ سے نماز ترک نہ کرو، کیونکہ جو شخص قصد وارادہ سے جان بوجھ کر نماز ترک کر دیتا ہے، تو وہ ملت سے خارج ہو جاتا ہے۔“
مجمع الزوائد، رقم : ٧١٤، وأخرجه ابن مانحة مختصراً، وحسنه الألباني، رقم: ٤٠٣٤.
نیز اگر ہم اسے ترک انکار پر محمول کریں تو پھر نصوص میں نماز کو بطور خاص ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ یہ حکم تو نماز، زکوۃ، حج اور ان تمام امور کے لیے عام ہے جو دین کے واجبات وفرائض میں شمار ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی ایک کا اس کے وجوب کے انکار کی وجہ سے ترک موجب کفر ہے، بشرطیکہ انکار کرنے والا جہالت کی وجہ سے معذور نہ ہو۔
جس طرح سمعی اثری دلیل کا تقاضا ہے کہ تارک نماز کو کافر قرار دیا جائے، اسی طرح عقلی نظری دلیل کا بھی تقاضا ہے، اور وہ اس طرح کہ جو شخص دین کے ستون نماز ہی کو ترک کر دے تو اس کے پاس پھر ایمان کیسے باقی رہا؟ نماز کے بارے میں اس قدر ترغیب آئی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر عاقل مومن اس کے ادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے، اور اس کے ترک کے بارے میں اس قدر وعید آئی ہے، جس کا ہر عاقل مومن سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے ترک سے اور اسے ضائع کرنے سے مکمل احتیاط برتے، کیونکہ اگر اسے ترک اور ضائع کر دیا گیا تو اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ پھر ایمان باقی نہ رہے!
جہاں تک اس مسئلہ میں حضرات صحابہ کرامؓ کے قول کا تعلق ہے تو جمہور صحابہ کرامؓ کی رائے یہ ہے، بلکہ کئی ایک علماء نے کہا ہے کہ اس پر تمام صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔ عبد اللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ ؛
«كان أصحاب النبى لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة.»
’’حضرات صحابہ کرامؓ اعمال میں سے ترک نماز کے سوا اور کسی عمل کو کفر نہیں سمجھتے تھے“
سنن ترمذی، كتاب الإيمان، باب ماجاء في ترك الصلاة، رقم : ۲۶۲۲0.
مشہور امام الحق بن راہویہؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ تارک نماز کافر ہے، اور نبی کریم ﷺ کے دور سے لے کر آج تک اہل علم کی یہی رائے ہے کہ جو شخص قصد و ارادہ سے بغیر کسی عذر کے نماز چھوڑ دے، حتی کہ اس کا وقت ختم ہو جائے تو وہ کافر ہے۔
امام ابن حزمؒ نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا عمر، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابوہریرہ اور دیگر صحابہ کرامؓ سے بھی ثابت ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ سے کسی نے اس مسئلہ میں ان کی مخالفت بھی نہیں کی۔
علامہ منذریؒ نے ’’الترغیب والترھیب‘‘ میں امام ابن حزمؒ کا یہ قول نقل کیا ہے، اور انہوں نے اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کچھ مزید نام بھی شمار کروائے ہیں۔ مثلاً سیدنا عبد اللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ اور ابوالدرداءؓ اور غیر صحابہ کرام میں سے امام احمد بن حنبل، الحق بن راہویہ، عبداللہ بن مبارک نخعی، حکم بن عتیبہ، ایوب سختیانی، ابوداؤد طیالسی، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حربؒ اور بہت سے دیگر علماء کا بھی یہی مذہب ہے۔
میں کہتا ہوں کہ امام احمد بن حنبلؒ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے، اور امام شافعیؒ کا ایک قول بھی یہی ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیرؒ نے آیت کریمہ ﴿فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خلف﴾ کی تفسیر میں ذکر فرمایا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے بھی ”کتاب الصلوۃ“ میں لکھا ہے کہ امام شافعیؒ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے، اور امام طحاویؒ نے امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس کا کیا جواب ہے، جس سے تارک نماز کو کافر نہ سمجھنے والوں نے استدلال کیا ہے؟ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ جن دلائل سے انہوں نے استدلال کیا ہے، ان کی اس موضوع پر اصلاً دلالت ہی نہیں ہے، کیونکہ یا تو یہ ایسے وصف سے مقید ہیں کہ اس کے ساتھ ترک نماز کی تکفیر کے دلائل کے ساتھ ان کی تخصیص کر دی جائے گی۔ تارک نماز کو کافر قرار نہ دینے والوں نے جن دلائل سے استدلال کیا ہے، وہ ان مذکورہ بالا چار حالتوں سے خالی نہیں ہیں۔
یہ مسئلہ بہت اہم اور عظیم مسئلہ ہے۔ انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرے اور نماز کی حفاظت کرے، تا کہ اس کا شمار بھی ان لوگوں میں سے ہو، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿٤﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ (المؤمنون:١-٦)
’’بلاشبہ ایمان والے کامیاب ہو گئے، جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں، اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں، اور جو زکوۃ ادا کرتے ہیں، اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر اپنی بیویوں سے یا کنیزوں سے جو ان کی مالک ہوتی ہیں کہ انہیں ملامت نہیں۔“
فتاوی اسلامیه : ٤٨٣٠٤٨٠/١ – طبع دار السلام، لاهور
تارک نماز کے اعمال برباد ہو جاتے ہیں:
سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«من ترك صلاة العصر ، فقد حبط عمله.»
’’جس شخص نے عصر کی نماز کو ترک کیا، اس کے اعمال ضائع ہو گئے۔“
صحیح بخاری، کتاب مواقيت الصلاة، رقم : ٥٥٣
تارک نماز کا اہل و مال ہلاک ہو گیا:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو جائے گویا کہ اُس کا مال اور اس کا اہل ہلاک ہو گیا۔
سنن دارمی، رقم: ١٢٦٦
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’اللہ تعالی کافروں کی قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے جس طرح انہوں نے ہمیں نماز وسطی سے روکے رکھا حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔‘‘‘
صحیح بخاری کتاب مواقیت ، رقم : ٥٥٢- صحيح مسلم، رقم: ١٤١٦۔ سنن دارمی، رقم : ٢٦٨
ترک نماز جہنم میں لے جاتا ہے:
اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن کریم میں یہ بیان فرمایا ہے کہ گنہگاروں کو جہنم میں لے جانے والا پہلا سبب نماز کا چھوڑنا ہے۔ ’’اصحاب الیمین‘‘ یعنی جنتی لوگ اہل جہنم سے دریافت کریں گے کہ تمہارے کون سے کرتوتوں نے تمہیں جہنم میں پہنچا دیا ہے؟ تو وہ جہنمی کہیں گے:
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ﴿٤٤﴾ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ﴿٤٥﴾ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿٤٦﴾ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ ﴿٤٧﴾ (المدثر:٤٣-٤٧)
’’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور فضول بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی بحث میں حصہ لیا کرتے تھے، اور ہم قیامت کے دن کی تکذیب کرتے تھے۔ یہاں تک کہ موت نے ہمیں آدبوچا۔“
ان مجرموں سے جب کہا جاتا تھا کہ تم لوگ دین حق کو قبول کر لو، اللہ کے لیے نماز پڑھو اور اس کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرو، تو ان کی گردنیں اکڑ جاتی تھیں، اس لیے اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اس دن ان جیسوں کے لیے ہلاکت و بربادی ہوگی۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ ﴿٤٨﴾ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ﴿٤٩﴾ (المرسلات : ٤٨-٤٩)
’’اور ان سے جب کہا جاتا تھا کہ تم لوگ رکوع کرو تو وہ رکوع نہیں کرتے تھے، اس دن جھٹلانے والوں کے لیے «ويل» ہوگی۔‘‘
❀ فائدہ
یاد رہے کہ «ويل» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔
سنن ترمذی، ابواب التفسير، رقم : ٣٣٧٧ – ٣٥٤٦- مستدرك حاكم، رقم: ۳۹۲۷.
اور سیدنا سمرہ بن جندبؓ حدیث روٗیا میں رسالت مآب ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
«أما الذى يتلع رأسه بالحجر فإنه يأخذ القرآن فيرفضه وينام عن الصلاة المكتوبة.»
’’جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جارہا تھا وہ حافظ قرآن تھا، مگر قرآن سے غافل ہو گیا تھا، اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔“
صحيح بخاري، كتاب التهجد، رقم : ١١٤٣.
تارک نماز آخرت میں شفاعت سے محروم رہے گا :
نماز کے تارکین، مجرمین آخرت میں شفاعت کاروں کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ وہ سفارش کے حقدار نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب کائنات نبی یا فرشتے کو ان کے لیے شفاعت کرنے کی اجازت ہی نہیں دے گا، لہذا کوئی ایسی سفارش نہیں پائی جائے گی جو ان کے کام آئے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :
فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ الْمُجْرِمِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ﴿٤٤﴾ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ﴿٤٥﴾ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿٤٦﴾ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ ﴿٤٧﴾ فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ ﴿٤٨﴾ (المدثر:٤٠-٤٨)
’’یہ لوگ جنتوں میں ہوں گے، مجرمین سے پوچھیں گے تمھیں کس چیز نے جہنم میں پہنچا دیا۔ وہ کہیں گے، ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ اور فضول بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی بحث مباحثہ کرتے تھے۔ اور ہم قیامت کے دن کی تکذیب کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہماری موت آگئی۔ پس اُس وقت شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے کام نہیں آئے گی۔“
تارک نماز روز قیامت قارون، فرعون، هامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا :
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک روز نماز کے متعلق گفتگو کی اور فرمایا :
«من حافظ عليها كانت له نورا وبرهانا ونجاة يوم القيامة، ومن لم يحافظ عليها ، لم يكن له نور ولا برهان ولا نجاة، وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف.»
’’جس نے نماز کی حفاظت کی، نماز روز قیامت اس کے لیے نور، برہان اور ذریعہ نجات ہوگی، اور جس کسی نے نماز کی حفاظت نہ کی تو روز قیامت نماز اس کے لیے نہ دلیل، نہ نور اور نہ ہی وسیلہ نجات ہوگی۔ اور وہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا۔‘‘
مسند أحمد، رقم ٦٥٧٦- سنن دارمی، رقم: ۳۰۱ ابن حبان، رقم : ١٤٦٧
علامه ابن القیم الجوزیہؒ نے الصلاة وحكم تاركها ، ص: ٣٧،٣٦ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد یوں رقم کیا ہے : ’’تارک نماز کا خاص طور پر ان چار آدمیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کا سبب یہ ہے کہ یہ چاروں کفر کے سردار ہیں۔ یہاں پر ایک عظیم نقطہ ہے کہ تارک نماز، مال، ملک، ریاست یا تجارت کی وجہ سے نماز ترک کرتا ہے، جو کوئی مال کے سبب نماز ترک کرے گا وہ قارون کے ساتھ ہوگا، اور جو کوئی ملک اور بادشاہت کی خاطر نماز چھوڑے گا وہ فرعون کے ساتھ ہوگا، اور جو شخص حکومتی ذمہ داریوں کے سبب نماز ترک کرے گا وہ ہامان کے ساتھ ہوگا۔ اور تجارتی عذر بہانے کر کے نماز ترک کرنے والا مشہور کافر اٗبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔“
نماز نہ پڑھنے کے نقصانات:
مذکوره دلائل و براہین کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ :
➊ نماز سے لا پرواہی تباہی و بربادی کا سبب ہے۔
➋ نماز چھوڑنا کفر ہے۔
➌ نماز چھوڑنا شرک ہے۔
➍ ترک نماز نفاق بھی ہے۔
➎ ترک نماز در اصل تکذیب دین ہے۔
➏ بے نماز کا فرعون، ہامان ، قارون اور اُبی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔
➐ تارک نماز کا کوئی دین، ایمان نہیں۔
➑ تارک نماز کا کوئی ایمان نہیں۔
➒ بے نماز فاسق و فاجر ہے۔
➓ بے نماز کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔
⓫ بے نماز شیطان کا بندہ ہے۔
⓬ نماز سے دوری، رحمت الہی سے دُوری ہے۔
⓭ ترک نماز بے سکونی کا باعث ہے۔
⓮ تارک نماز سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت اُٹھ جاتی ہے۔
⓯ ترک نماز تکبر کی علامت ہے۔
⓰ تارک نماز کے اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔
⓱ تارک نماز کا اہل و مال برباد ہو جاتا ہے۔
⓲ تارک نماز شفاعت سے محروم ہو گا۔
⓳ تارک نماز کا دل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے خالی ہوتا ہے۔
⑳ ترک نماز جہنم میں لے جاتا ہے۔