نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ
➊ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز شروع کی تو تکبیر کے بعد : ثم وضع يده اليمني على اليسري ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیا۔“
[مسلم: 401 ، كتاب الصلاة: باب وضع يده اليمنى على اليسرى، أبو داود: 724 ، ابن ماجة: 867 ، أحمد: 316/4 ، دارمي: 286/1 ، نسائي: 123/2]
➋ حضرت قبیصہ بن حلب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں امامت کرواتے تھے ۔
فيا حذ شماله بيمينه
”اور آپ صلى الله عليه وسلم اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں کے ساتھ پکڑ لیتے تھے ۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 207 ، ترمذي: 252]
(جمہور صحابہ و تابعین) تکبیر تحریمہ کے بعد نمازی کا اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا مسنون ہے۔
(مالکؒ) ہاتھ چھوڑنے کے قائل ہیں (یاد رہے کہ یہ قول شاذ ہے ) ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 873/2 ، نيل الأوطار: 704/1]
ہاتھ باندھنے کے تین طریقے منقول ہیں
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر ، کلائی پر اور بازو پر رکھا۔ (یعنی کبھی ہاتھ کو ہاتھ پر رکھتے ، کبھی ہاتھ کو کلائی پراور کبھی بازو پر رکھ لیتے تھے۔ )
[صحيح: صحيح أبو داود: 667 ، كتاب الصلاة: باب رفع اليدين فى الصلاة ، أبو داود: 727 ، التعليق على المشكاة للألباني: 249/1]
ہاتھ باندھنے کی جگہ
اس میں اگرچہ علماء کا اختلاف تو ہے لیکن راجح و بر حق یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھے جائیں اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے پر رکھا۔“
[صحيح: صحيح ابن خزيمة: 243/1 ، 479]
➋ حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمني على زراعه اليسرى فى الصلاة
”لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں بازو پر رکھے ۔“
[بخارى: 740 ، كتاب الأذان: باب وضع اليمني على اليسرى ، مؤطا: 159/1 ، أحمد: 336/5]
واضح رہے کہ جب بائیں بازو (یعنی کہنی تک) پر دایاں ہاتھ رکھا جائے گا تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔
➌ امام طاؤسؒ بیان کرتے ہیں کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو فى الصلاة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے پھر انہیں اپنے سینے پر باندھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں ہوتے ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 687 ، كتاب الصلاة: باب وضع اليمنى على اليسرى فى الصلاة ، أبو داود: 759]
(البانیؒ) یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے لیکن سب علماء کے نزدیک یہاں حجت ہے کیونکہ دوسری سندوں سے موصول بھی وارد ہوتی ہے ۔
[الإرواء الغليل: 71/2]
(ابو حنیفہؒ) نماز میں مرد اپنے ہاتھوں کو ناف سے نیچے اور عورت سینے پر باندھے گی۔
(مالکؒ) ان سے تین روایات منقول ہیں:
① اپنے ہاتھوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے (یہی زیادہ مشہور ہے)۔
② ہاتھوں کو سینے سے نیچے اور ناف سے اوپر رکھا جائے۔
③ ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے میں اختیار ہے۔
(شافعیؒ) ان سے تین روایات منقول ہیں:
① اپنے ہاتھوں کو سینے سے نیچے اور ناف سے اوپر رکھا جائے ۔
② سینے پر رکھا جائے۔
③ ناف سے نیچے رکھا جائے۔
(احمدؒ) ان سے بھی تین روایات منقول ہیں:
① ہاتھوں کو ناف سے نیچے باندھا جائے۔
② سینے سے کچھ نیچے باندھا جائے۔
③ ان دونوں میں اختیار ہے۔
[شرح المهذب: 267/3 ، الحاوى للماوردي: 99/2 ، روضة الطالبين: 339/1 ، المبسوط: 23/1 ، سبل السلام: 237/1 ، نيل الأوطار: 706/1]
ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل حضرات کی دلیل یہ حدیث ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
من السنة وضع الأكف على الأكف تحت السرة
”ہاتھوں کو ہاتھوں پر ناف سے نیچے باندھنا سنت ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 157 ، كتاب الصلاة: باب وضع اليمني على اليسرى فى الصلاة ، أبو داود: 756 ، أحمد: 110/1 ، بيهقي: 31/2 ، امام نوويؒ فرماتے هيں كه اس حديث كي تضعيف پر (علماء نے) اتفاق كيا هے۔ الخلاصة: 359/1 ، اس كي سند ميں عبد الرحمن بن اسحاق كوفي راوي ضعيف هے ، امام ابو داودؒ نے كها هے كه ميں نے امام احمد بن حنبلؒ كو اس (راوي كا) ضعف بيان كرتے هوئے سنا هے اور امام بخاري نے كها هے كه اس راوي ميں نظر هے امام نوويؒ نے اس راوي كو بالا تفاق ضعيف قرار ديا هے۔ نيل الأوطار: 706/1 ، شرح مسلم للنووي: 105/3]
(راجحؒ) اس مسئلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (جو کہ صحيح ابن خزيمة میں ہے اور اس میں علي صدره کے لفظ ہیں)۔
[نيل الأوطار: 706/1 ، تحفة الأحوذي: 93/2 – 100 ، التعليق على المشكاة للألباني: 249/1]