نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل اور ان کا تجزیہ
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کا موضوع اور اس کا تجزیہ

ذیل میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں پیش کردہ دلائل اور ان کا تفصیلی جائزہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسی ضمن میں محدثین کرام کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں تاکہ مسئلے کی حقیقت واضح ہوسکے۔

اہل الرائے کا دعویٰ

اہل الرائے کا کہنا ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف سے نیچے باندھے جائیں۔ ان کے پیش کردہ دلائل درج ذیل ہیں:

دلیل نمبر ۱

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں سنت یہ کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
(سنن ابی داؤد ۴۸۰/۱، ۴۸۱ ح ۷۵۸، ۷۵۶)

جائزہ

اس روایت کا تمام تر انحصار عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی  پر ہے۔ اب ذیل میں علمائے اسماء الرجال کے ہاں عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی کی حیثیت ملاحظہ ہو:

  1. ابوزرعہ الرازی نے کہا: لیس بالقوی
    (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
  2. ابو حاتم الرازی نے کہا: ھو ضعیف الحدیث، منکر الحدیث یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ
    (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
  3. ابن خزیمہ نے کہا: ضعیف الحدیث
    (کتاب التوحید ص ۲۲۰)
  4. ابن معین نے کہا: ضعیف، لیس بشیء
    (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵ وسندہ صحیح، تاریخ ابن معین ۱۵۵۹، ۳۰۷۰)
  5. احمد بن حنبل نے کہا: منکر الحدیث
    (کتاب الضعفاء للبخاری ۲۰۳، التاریخ الکبیر ۲۵۹/۵)
  6. بزار نے کہا: لیس حدیثہ حدیث حافظ
    (کشف الاستار: ۸۵۹)
  7. یعقوب بن سفیان نے کہا: ضعیف
    (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۹/۳)
  8. عقیلی نے کہا: ذکرہ فی کتاب الضعفاء
    (۳۲۲/۲)
  9. العجلی نے کہا: ضعیف جائز الحدیث یکتب حدیثہ
    (تاریخ العجلی : ۹۳۰)
  10. بخاری نے کہا: ضعیف الحدیث
    (العلل للترمذی ۲۲۷/۱)
    اور کہا: فیہ نظر
    (الکامل لابن عدی۱۶۱۳/۴ وسندہ صحیح)
  11. نسائی نے کہا: ضعیف
    (کتاب الضعفاء للنسائی: ۳۵۸)
    اور کہا: لیس بثقۃ
    (سنن النسائی ۹/۶ ح۳۱۰۱)
  12. ابن سعد نے کہا: ضعیف الحدیث
    (طبقات ابن سعد ۳۶۱/۶)
  13. ابن حبان نے کہا: کان ممن یقلب الاخبار والاسانید وینفرد بالمناکیر عن المشاھیر، لا یحل الاحتجاج بخیرہ
    (کتاب المجروحین ۵۴/۲)
  14. دارقطنی نے کہا: ضعیف
    (سنن دارقطنی ۱۲۱/۲ ح ۱۹۸۲)
  15. بیہقی نے کہا: متروک
    (السنن الکبری ۳۲/۲)
  16. ابن جوزی نے اس کو الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا اور کہا:
    "وویحدث عن النعمان عن المغیرۃ احادیث مناکیر” (۸۹/۲ ت ۱۸۵۰)
    اور کہا: "المتھم بہ عبدالرحمٰن بن اسحاق”
    (الموضوعات ۲۵۷/۳)
  17. الذہبی نے کہا: ضعفوہ
    (الکاشف ج ۲ ص ۲۶۵)
  18. ابن حجر نے کہا: کوفی ضعیف
    (تقریب التہذیب : ۳۷۹۹)
  19. نووی نے کہا: ھو ضعیف بالاتفاق
    (شرح مسلم ج۴ ص ۱۱۵، نصب الرایہ ج ۱ ص ۳۱۴)
  20. ابن الملقن نے کہا: فانہ ضعیف
    (البدر المنیر ۱۷۷/۴)

الزرقانی نے بھی شرح مؤطا امام مالک (ج۱ ص۳۲۱) میں کہا: "واسنادہ ضعیف”

ان تمام تفصیلات سے واضح ہوا کہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے، بلکہ بعض نے اسے متہم اور متروک بھی کہا ہے۔ لہٰذا اس کی روایت مردود قرار پاتی ہے۔ اسی لیے:

  • حافظ ابن حجر نے کہا: "واسنادہ ضعیف”
    (الدرایہ ۱۶۸/۱)
  • بیہقی نے کہا: "لایثبت اسنادہ”
  • نووی نے کہا: "ھو حدیث متفق علی تضعیفہ”
    (نصب الرایہ ج۱ ص۳۱۴)

زیلعی حنفی نے اس روایت کی تردید نہیں کی، تاہم نصب الرایہ کے متعصب محشی فرماتے ہیں کہ "ترمذی نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کی حدیث کی تحسین اور حاکم نے تصحیح کی ہے”۔ حالانکہ ترمذی اور حاکم دونوں ان کے نزدیک تساہل کے ساتھ مشہور ہیں۔ ترمذی نے کثیر بن عبداللہ کی حدیث کو بھی صحیح قرار دیا ہے، جبکہ کثیر کو بعض محدثین نے کذاب تک کہا ہے۔ اسی لیے بقول حافظ ذہبی:

"علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔”
(میزان الاعتدال ۴۰۷/۳)

حاکم نے بھی مستدرک میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی حدیث کی تصحیح کی ہے، حالانکہ یہی حاکم اپنی کتاب "المدخل الی الصحیح” میں لکھتے ہیں:

"روی عن ابیہ احادیث موضوعۃ لا یخفی علی من تاملھا من اھل الصنعۃ ان الحمل فیھا علیہ”
(ص۱۰۴)

خود زیلعی حنفی نے لکھا ہے:

"وتصحیح الحاکم لا یعتد بہ”
(نصب الرایہ ۳۴۴/۱)

یعنی حنفیوں کے نزدیک حاکم کی تصحیح کسی شمار میں نہیں آتی۔ مزید برآں ابن خزیمہ نے تو بذاتِ خود عبدالرحمٰن پر جرح کی ہے۔ (دیکھیے کتاب التوحید ص۲۲۰)

یہ بھی ذہن میں رہے کہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کی اس (تحت السرۃ) روایت کو کسی بھی محدث یا امام نے صحیح یا حسن قرار نہیں دیا۔ لہٰذا امام نووی کی یہ بات درست ہے کہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔ مزید یہ کہ عبدالرحمٰن کے اساتذہ میں زیاد بن مجہول بھی ہیں۔ (تقریب التہذیب: ۲۰۷۸)

نعمان بن سعد کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور اس سے بھی عبدالرحمٰن منفرد روایت کرتا ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر نے کہا:

"فلا یحتج بخیرہ”
(تہذیب التہذیب ۴۰۵/۱۰)

نیز عبدالرحمٰن الواسطی نے "عن سیار ابی الحکم عن ابی وائل قال قال ابو ھریرۃ۔۔۔” کی ایک سند لگائی ہے۔ اس بارے میں امام ابو داؤد نے کہا:

"وروی عن ابی ھریرۃ ولیس بالقوی”
(سنن ابی داؤد ج ۱ ص۴۸۰ حدیث ۷۵۷)

دلیل نمبر ۲

وعن انس ۔۔۔ ووضع الیدی الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ

جائزہ

اس روایت کی سند میں ایک راوی وعید بن زربی ہے۔
(الخلافیات للبیہقی قلمی ص۳۷ ومختصر الخلافیات ۳۴۲/۱)

دوسری طرف سعید بن زربی سخت ضعیف راوی ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کے بارے میں فرمایا:

"منکر الحدیث”

(تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)

تنبیہ: محلی ابن حزم اور الجوہر النقی میں یہ روایت بغیر سند کے مذکور ہے۔

یہ تمام تفصیل اس نتیجے کی طرف لے جاتی ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں پیش کردہ یہ دو دلائل ایسی اسناد پر مشتمل ہیں جو محدثین کرام کے ہاں ثابت نہیں۔ لہٰذا ان کی بنیاد پر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا مسئلہ مضبوط دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1