نماز میں قراءت کی آواز کا اعتدال اور نبی کریم ﷺ کی ہدایت

نماز کے دوران قرأت کی آواز کے حوالے سے اعتدال

نماز کے دوران قرأت کی آواز کے حوالے سے شریعت نے ہمیں اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ نہ تو قرأت اتنی بلند آواز میں کرنی چاہیے کہ دوسروں کو تکلیف ہو، اور نہ ہی اتنی آہستہ کہ ہونٹوں کی حرکت تک نظر نہ آئے۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح رہنمائی موجود ہے۔

بلند آواز سے قرأت کرنے کی ممانعت

قرأت اتنی بلند آواز سے نہ کی جائے کہ دیگر نمازیوں کی یکسوئی میں خلل پڑے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’نمازی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے۔ اسے خیال کرنا چاہیے کہ وہ کس ذات سے سرگوشی کر رہا ہے اور تم قرآن مجید اونچی آواز کے ساتھ تلاوت کرکے اپنے ساتھیوں کو اضطراب میں نہ ڈالو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل، ۲۳۳۱۔ اسے امام ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)

بالکل آہستہ قرأت کی بھی وضاحت

قرأت اتنی آہستہ بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ہونٹوں کی حرکت تک نہ ہو، جیسا کہ ظہر اور عصر کی نمازوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا ذکر آتا ہے۔

ابو معمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیّدنا خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
"کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر میں قرأت کرتے تھے؟”
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہاں”
پھر ان سے پوچھا گیا: "آپ کو کیسے معلوم ہوا؟”
انہوں نے فرمایا: "آپ کی داڑھی کی جنبش سے۔”
(بخاری، الاذان باب من خافت القراء ۃ فی الظھر والعصر، ۷۷۷.)

یہ روایات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نماز میں قرأت کی آواز درمیانی ہونی چاہیے، اتنی کہ خود سن سکے لیکن دوسروں کے لیے تکلیف دہ نہ ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1