نماز میں قرآن کی آیات کا تصدیقی جواب
سوال: محتر م زبیر علی زئی صاحب نماز میں قرآن کی چند آیات کا جواب دیناکیسا ہے؟ جیسا کہ احادیث میں ہے ، کیا یہ درست ہے اور ان کا جوا ب تمام مقتدیوں کو دینا چاہیے یا کہ صرف امام کو؟ اور مقتدی اگر جوا ب دے تو وہ جہری طور پر دے یا دل میں؟ (ایک سائل)
الجواب: صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز میں تسبیح والی آیت پڑھتے تو تسبیح فرماتے ، جب دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اور جب تعوذ والی آیت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے ۔
[ح ۷۷۲]
امام ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھی ۔ جب آپ نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَي﴾ کی تلاوت کی تو کہا: سبحان ربي الاعليٰ
[المصنف لابن ابي شيبه ۲/۵۰۸]
تقریباًً یہی عمل عمران بن حصین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے ثابت ہے ۔ [ايضاً]
لہٰذا امام کے لیے جائز ہے کہ جمعہ وغیرہ میں کسی آیت کی تلاوت کے بعد کبھی کبھار اس کا جوا ب بھی عربی زبان میں ہی جہراً یا سراً دے دے تا ہم مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ مقتدی حضرات بھی آیات کا جوا ب دیں گے لہٰذا نمازیوں کو چاہئے کہ وہ حالت جہر میں امام کے پیچھے صرف سورۂ فاتحہ پڑھیں ۔ والله أعلم
(شہادت فروری ۲۰۰۰ء) (۲۰ فروری ۲۰۰۷ء)