سترہ کا بیان
نماز میں "سترہ” سے مراد وہ چیز ہے جسے نمازی اپنے سامنے رکھتا ہے تاکہ کوئی اس کے اور اس کے سجدے کی جگہ کے درمیان سے نہ گزرے۔ سترہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ نماز میں خلل نہ پڑے اور گزرنے والا گناہ گار نہ ہو۔ یہ سترہ کسی بھی ٹھوس چیز جیسے لاٹھی، برچھی، لکڑی، دیوار، ستون یا درخت وغیرہ سے ہو سکتا ہے۔
سترہ کی مقدار
حدیث: سیدنا طلحہ بن عبید ﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کوئی شخص اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر (کوئی چیز) رکھ لے تو نماز جاری رکھے اور جو کوئی سترے کے پیچھے سے گزرے اس کی پرواہ نہ کرے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب سترہ المصلی ۹۹۴.)
تشریح: عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پالان کے پچھلے حصے کی لکڑی ایک ہاتھ یا اس سے کچھ زیادہ (لمبی) ہوتی ہے۔
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب ما یستر المصلی، ۶۸۶، اسے ابن خزیمہ (۷۰۸) نے صحیح کہا۔)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ایک ہاتھ لمبی چیز سترہ کے طور پر کافی ہے۔
سترہ رکھنے کا حکم
حدیث: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز پڑھو تو سترے کی طرف پڑھو اور اس کے قریب کھڑے ہو۔”
(ابو داؤد، الصلاۃ باب ما یومر المصلی ان یدرا عن الممر بین یدیہ، ۸۹۶، ابن ماجہ ۴۵۹.)
ایک اور روایت: سیدنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے ہر شخص کو سترے کا اہتمام کرنا چاہیے اگرچہ تیر کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۳۸۷۲. صحیح ابن خزیمہ:۴۸۷)
نماز ٹوٹنے کی صورت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نمازی کے آگے اونٹ کے پالان کی پچھلی لکڑی جتنا لمبا سترہ نہ ہو اور بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا آگے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اور سیاہ کتا شیطان ہے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب قدر ما یستر المصلی ۰۱۵.)
مسجد میں سترہ کا اہتمام
عمل صحابی: سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ مسجد میں ہمیشہ ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے:
بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔
(بخاری۲۰۵، مسلم، الصلاۃ، دنو المصلی من السترۃ، ۹۰۵.)
بعض لوگ مسجد میں دیوار کے قریب نماز پڑھنے کے بجائے کھلے مقام پر بغیر سترے کے نماز پڑھتے ہیں، جو درست نہیں۔
حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم سترہ کو سامنے رکھ کر نماز پڑھو تو سترے کے قریب کھڑے ہو۔ شیطان تمہاری نماز کو توڑ نہ دے۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ باب الدنو من السترۃ۵۹۶.)
امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی
حدیث: سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحا میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ آپ کے سامنے ایک برچھی نصب تھی، اور آپ نے دو رکعت ظہر اور دو رکعت عصر کی نماز پڑھائی۔ اس وقت برچھی کے دوسری طرف عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔
(بخاری، الصلاۃ، باب سترۃ الإمام سترۃ من خلفہ، ۵۹۴، مسلم، الصلاۃ، باب سترۃ الصلی ۳۰۵.)
واقعہ ابن عباس: ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
میں ایک گدھی پر سوار ہو کر منیٰ میں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے، میں کچھ صف کے حصہ کے آگے سے گزرا، پھر نیچے اترا، گدھی کو چھوڑا اور صف میں شامل ہو گیا، اور کسی نے مجھ پر اعتراض نہ کیا۔
(بخاری کتاب الصلواۃ، باب سترۃ الامام سترۃ من خلفہ:۳۹۴۔ مسلم ۴۰۵.)
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ
حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو گزرنے کی سزا معلوم ہو جائے تو اسے ایک قدم آگے بڑھنے کی بجائے چالیس تک وہیں کھڑے رہنا پسند ہو۔ ابو النضر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں رہا کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہے یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔‘‘
(بخاری، الصلاۃ، باب اثم المار بین یدی المصلی، ۰۱۵، مسلم:۷۰۵.)
مزاحمت کی تاکید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم نماز ادا کرتے وقت آگے سترہ کھڑا کرو اور اگر کوئی شخص سترہ کے اندر (یعنی نمازی اور سترہ کے درمیان) سے گزرنا چاہے تو اس کی مزاحمت کرو اور اس کو آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑائی کرو۔ بے شک وہ شیطان ہے۔‘‘
(بخاری، ۹۰۵، مسلم، الصلاۃ، باب منع الماربین یدی المصلی، : ۵۰۵.)
مزید وضاحت: ایک روایت میں فرمایا:
دوبار تو اس کو ہاتھ سے روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس سے ہاتھا پائی سے بھی گریز نہ کیا جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔
(ابن خزیمہ، ۸۱۸، اور انہوں نے اسے صحیح کہا۔)
نمازی اور سترہ کے درمیان فاصلہ
حدیث: سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کوئی شخص نماز پڑھتے ہوئے سترہ رکھے تو اس کے قریب کھڑا ہو تاکہ اس شخص اور سترے کے درمیان سے شیطان نہ گزر سکے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۶۸۳۱.)
عمل نبوی ﷺ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کا فاصلہ ہوتا تھا۔
(بخاری الصلاۃ، باب قدرکم ینبغی ان یکون بین المصلی والسترۃ، ۶۹۴، مسلم: ۸۰۵.)
ایک بار بکری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرنا چاہتی تھی، تو آپ نے اپنا پہلو دیوار سے لگا لیا، اور بکری پیچھے سے گزر گئی۔
(بخاری، مسلم)
نمازی کے آگے لیٹنا
حدیث: ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سوتی تھی۔ میرے پاؤں آپ کے سامنے ہوتے تھے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور جب آپ کھڑے ہوتے تو پاؤں پھیلا دیتی۔ ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
(ابن خزیمہ ۷۲۸، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔ بخاری، الصلاۃ باب التطوع خلف المراۃ، ۳۱۵، مسلم الصلاۃ، باب الاعتراض بین یدی المصلی، ۲۷۲۔۲۱۵)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ گزرنے کی ممانعت ہے، لیکن اگر کوئی آگے لیٹا ہو، جیسے کہ سوتا ہوا ہو، تو اس میں حرج نہیں۔