مضمون کے اہم نکات:
خشوع و خضوع
خشوع و خضوع کے لغوی معنی ہیں، بدن کا جھکا ہونا، آواز کا پست ہونا، آنکھیں نیچی ہونا، یعنی ہر ادا سے تواضع، عاجزی اور مسکنت کا اظہار.
گویا نماز اللہ عزوجل کے سامنے اپنی مسکینی، عاجزی اور بے چارگی کا اظہار ہے، پس اگر کوئی شخص نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا نہیں کرتا، تو نماز ایسی ہی ہوگی، جیسے بے روح جسم، یعنی نماز میں سے روحانیت ختم ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ (المؤمنون:١-٢)
’’یقیناً ان مومنوں نے فلاح پالی، جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘
جب نماز میں خشوع و خضوع اختیار نہیں کیا جاتا تو یہی نماز انسان پر بڑی بھاری گزرتی ہے، نماز میں سکون نہیں ملتا۔ فرمانِ باری تعالی ہے :
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥﴾ (البقرة : ٤٥)
’’اور مدد لو صبر اور نماز کے ذریعہ، اور یہ نماز بہت بھاری ہوتی ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔“
جب خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو دل پر رقت طاری ہوتی ہے، اور بسا اوقات اللہ کے خوف سے آدمی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایسے خاشعین کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ﴿١٠٨﴾ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا﴿١٠٩﴾ (بنی اسرائیل:۱۰۷-۱۰۹)
جب ان کے سامنے اس قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں، اور کہتے ہیں ، ہمارا رب ہر عیب سے پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر کر روتے ہیں، اور قرآن ان کے خشوع کو اور بڑھا دیتا ہے۔“
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے سید البشر، نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ آپ خشوع و خضوع اختیار کرنے والے اللہ کے مخلص بندوں کو اپنے رب کی طرف سے اچھے انجام کی خوشخبری دے دیجیے، جن کی خوبیاں یہ ہیں :
الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥﴾ (الحج:٣٥)
’’جن کے سامنے جب اللہ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل مارے خوف کے کانپنے لگتے ہیں، اور جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔“
اس خوشخبری کے متعلق بھی سن لیجیے گا کہ وہ خوشخبری کیا ہے؟ چنانچہ سیدنا عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں : میں گواہ ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«خمس صلوات اقترضهن الله تعالى، من أحسن وضوء هن ، وصلاهن لوقتهن، وآتم ركوعهن وخشوعهن، كان له على الله عهد أن يغفر له»
’’اللہ تعالی نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ پس جس نے اچھا وضو کیا، ان کو خشوع کے ساتھ پڑھا، ان کا رکوع پورا کیا تو اس نمازی کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ وہ اس کو بخش دے گا۔“
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٤٢٥
خشوع ایسا ہو کہ انسان حالت نماز میں ادھر اُدھر نہ جھانکے، اور نہ ہی کپڑوں کو سیدھا کرتا رہے :
«أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك.»
’’آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں گویا آپ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، پس اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو کم سے کم یہ خیال ضرور رہے کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب الإيمان، باب سوال جبريل النبي صلى الله عليه وسلم، رقم: مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، رقم: ۱۰۰۹.
افسوس! صد افسوس ہے ان لوگوں پر جو نماز میں خشوع کی حقیقت کو نہیں جانتے، بلکہ صرف اٹھنے بیٹھنے کو نماز سجھتے ہیں، اور حالت نماز میں وہ دنیا اور مظاہر دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ان فرامین کو یاد رکھیں۔ چنانچہ جناب ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جو بغیر اعتدال اور خشوع کے نماز پڑھ رہا تھا، تو پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :
«لو مات هذا على حاله هذه مات على غير ملة محمد»
’’یہ آدمی اگر اپنی اسی حالت میں مرا تو اس کی موت محمد ﷺ کی ملت پر نہ ہوگی۔‘‘
طبرانی کبیر : ١١٥/٤ – صحیح ابن خزيمه : ٣٥٥/١ – الترغيب والترهيب، رقم: ۷۳۷
پھر سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا :
«مثل الذى لا يتم ركوعه وينقر فى سجوده مثل الجائع يأكل الثمرة والتمرتان لا يغنيان عنه شيئا»
’’جو آدمی صحیح طریقے سے رکوع نہ کرے، اور سجدے میں بھی ٹھونگیں ہی مارے، اس کی مثال اس بھوکے شخص کی سی ہے جو ایک یا دو کھجوریں کھاتا ہے، اور یہ دو کھجوریں اسے (بھوک میں) کچھ فائدہ نہیں دیتیں۔“
معجم کبیر طبرانی : ١١٥/٤-١١٦، رقم: ۳۸۴۰ – مسند ابو یعلی: ١٤٠/١٣۔ صحیح ابن خزیمه: ۱/ ۳۳۲، رقم : ٩٦٥، قال الهيثمي : وإسناده حسن مجمع الزوائد: ۲/ ۱۲
اور آج کے نمازیوں کو دیکھ کر یہی کہنا پڑے گا :
تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور گزر
ایسے امام سے گزر ایسی نماز سے گزر
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
رسالت مآب ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ :
’’اس امت میں سے سب سے پہلے خشوع ختم ہوگا، وہ زمانہ بھی آئے گا کہ تمہیں ایک بھی خشوع والا آدمی نظر نہ آئے گا۔‘‘
مسند أحمد : ٢٧/٦۔ شیخ شعیب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ مجمع الزوائد، رقم: ۲۸۱۳ء ٢٨١٤ – خلق افعال العباد، للبخاري، رقم: ٣٣٩
لہذا معلم کائنات ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے :
«اللهم إني أعوذبك من قلب لا يخشع»
”اے اللہ! ایسے دل سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں جو خشوع سے خالی ہو۔“
سنن ابو داؤد، كتاب الصلاة، باب في الإستعادة، رقم: ١٥٤٨- سنن نسائی، کتاب الاستعاده، ياب الاستعاده من نفس لا تشيع، رقم : ٥٤٨٢
لہذا ہر نمازی کو خشوع پیدا کرنے والے اسباب و ذرائع اختیار کرنے ہوں گے۔
خشوع پیدا کرنے والے اسباب
قارئین کرام ! خشوع پیدا کرنے والے اسباب میں سے چند یہ ہیں :
① اخلاص
کرو پر چار تم دنیا میں اخلاص و محبت کا
یہی راز ترقی ہے یہی گر ہے شریعت کا
اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ نماز سے مقصود اکیلے اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز نہ ہو، وگرنہ وہ نماز نہیں ہے، بلکہ محض نمود و نمائش اور ریاء ہوگی جو کہ شرک ہے۔ سیدنا شداد بن اوسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
«من صلى يراني فقد أشرك»
’’جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی، اس نے شرک کیا۔“
مسند أحمد: ١٢٦/٤ – طبرانی کبير، رقم: ۷۱۳۹- مستدرك حاكم: ٣٢٩/٤، رقم: مجمع الزوائد: ۲۲۱/۱۰ – نقول: اسناده حسن إن شاء الله
اور سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا : کیا میں تمہیں دجال کے فتنے سے بھی زیادہ خطر ناک بات سے آگاہ نہ کروں؟ ہم نے عرض کیا، ضرور یا رسول اللہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا :
«الشرك الخفي أن يقوم الرجل يصلي فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل»
’’وہ شرک خفی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو، اور نماز کو لمبا کرے کیونکہ کوئی دوسرا آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔“
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب الرياء والسمعة، رقم: ٤٢٠٤- صحيح الترغيب والترهيب، رقم : ٢٧.
لہذا نماز میں اخلاص پیدا کرنا، اس کی تکمیل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے :
«إنما الأعمال بالنيات»
’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب بدء الوحي، رقم: ۱
لہذا آدمی جب بھی اور جہاں بھی نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پڑھے، اور یہی رب تعالیٰ کا حکم ہے:
وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ (الأعراف:٢٩)
’’تم لوگ ہر نماز کے وقت اپنے چہرے قبلہ کی طرف کرلو، اور عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرتے رہو، اسی کو پکارو۔‘‘
اور سورۃ البینہ میں فرمایا :
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿٥﴾ (البينة : ٥)
’’اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے یکسو ہو کر، اور وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں، اور یہی نہایت درست دین ہے۔‘‘
نبی رحمت ﷺ جب فرض نماز سے فارغ ہوتے تو بآواز بلند مندرجہ ذیل ورد پڑھا کرتے، نبی ماحی ﷺ کا یہ امتثال لوگوں کے لیے باعث ترغیب ہوتا کہ وہ بھی اپنے اندر اخلاص پیدا کرلیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ رسول حاشر ﷺ فرض نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز کے ساتھ یہ کلمات ادا فرماتے :
«لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ، لا حول ولا قوة إلا بالله ، لا إله إلا الله، ولا نعبد إلا إياه، له النعمة وله الفضل وله الثناء الحسن ، لا إله إلا الله مخلصين له الدين ولو كره الكافرون»
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ وحدہ لا شریک ہے، بادشاہی اسی کی ہے، حمد اس کو سزاوار ہے، وہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کی قوت۔ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کے سوا ہم کسی کی بندگی نہیں کرتے، سب نعمتیں اس کی طرف سے ہیں، بزرگی اس کے لیے ہے، بہترین تعریف کا مالک وہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، ہم اپنی عبادت اس کے لیے خالص کرتے ہیں۔ کافروں کو خواہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔“
صحيح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة، رقم: ١٣٤٣.
② تضرع یعنی انکساری
پڑی اپنی برائیوں پہ جو نظر
تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
’’تضرع‘‘ کے معنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ درخواست کرنے کے ہیں۔
لسان العرب، مادة ’’ض،ر،ع‘‘.
نماز میں عاجزی، انکساری اور تضرع کا اظہار لازمی ہے، اور اسی سے خشوع و خضوع بھی پیدا ہوتا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے :
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ (الأعراف : ٥٥)
’’تم لوگ اپنے رب کو نہایت عجز و انکساری اور خاموشی کے ساتھ پکارو۔“
③ تبتل یعنی یکسوئی
تبتل کے لغوی معنی ’’کٹ جانے‘‘ کے ہیں۔ اور اصطلاحی معنی ہیں ”اپنے نفس کو آلائشوں سے پاک کر کے یکسو ہو کر پورے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی یاد میں لگے رہنا‘‘ یعنی حالت نماز میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے وقت اس کی عظمت و کبریائی اور اپنی عاجزی و انکساری کے ساتھ ذہن تمام خیالات سے خالی ہو :
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا ﴿٨﴾ (المزمل : ٨)
’’اور آپ اپنے رب کا نام لیتے رہیے، اور اس کی طرف ہمہ تن اور یکسو ہوکر متوجہ ہو جائیے۔‘‘
④ ذکر
فرمان باری تعالی ہے :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾ (طه: ١٤)
’’اور مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے ۔“
’’اس لیے اگر کوئی شخص نماز میں الفاظ ادا کرتا ہے، اور اس کے ساتھ حضور قلب نہیں، بلکہ اس کا دل غافل ہے تو اس نے نماز کی غرض و غایت پوری نہیں کی۔‘‘
⑤ فهم و تدبر
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
نماز رب تعالیٰ سے مناجات ہے، لہذا نماز میں جو کچھ پڑھا جارہا ہے، اس کا پورا فہم ہونا چاہیے، اگر ترجمہ نماز کے نہ آنے کی وجہ سے معنوں کی طرف دل متوجہ نہ ہو، تو اس سے دل پر کچھ اثر نہ ہوگا۔ بایں وجہ حالت نشہ میں نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا، کہ اس حالت میں سمجھنے والا دل، شرابی کے پہلو میں نہیں ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے :
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ (النساء: ٤٣)
’’جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نماز میں جو کچھ پڑھا جائے، اس کا فہم بھی ضروری ہے، وگرنہ خشوع و خضوع پیدا نہ ہوگا، اور نماز کا مطلب سمجھ کر پڑھیں گے، تو ان شاء اللہ خشوع و خضوع کے ساتھ ساتھ نماز سے محبت ہو جائے گی، اور جب محبت ہوگی تو باقاعدگی آجائے گی۔ نتیجتاً رب خوش ہو جائے گا۔
⑥ استطاعت
اللہ تعالیٰ بندے کو اتنا ہی مکلف ٹھہراتا ہے، جتنی وہ طاقت رکھتا ہے۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ (البقرة:٢٨٦)
’’اللہ کسی آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔“
اور نبی رحمت، سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
«يسروا ولا تعشروا»
’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، انہیں تنگی میں نہ ڈالو۔“
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم: ۹۹
لہذا آقائے نامدار ﷺ نے ائمہ کو حکم صادر فرمادیا کہ وہ قیام کو لمبا نہ کریں تا کہ مقتدیوں کے خشوع و خضوع میں خلل پیدا نہ ہو۔ سیدنا ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں : ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم! میں صبح کی نماز میں فلاں کی وجہ سے تاخیر کرتا ہوں، کیونکہ وہ نماز کو بہت لمبا کر دیتا ہے، سیدنا ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ کبھی بھی غضبناک نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں سے کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں کو عبادت سے متنفر کر دیں۔ خبردار! تم میں سے لوگوں کو جو شخص نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے۔ کیونکہ نمازیوں میں کمزور، بوڑھے اور حاجت مند سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘‘
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: ۲۰۷.
حبیب رب العالمین محمد ﷺ نے اکیلے نماز پڑھنے والے سے متعلق فرمایا کہ وہ حسب استطاعت جس قدر چاہے طول دے سکتا ہے :
«وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء»
’’اور جب کوئی اکیلا نماز پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔“
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب إذا صلى لنفسه فليطول ماشاء رقم : ۷۰۳
اور بیمار آدمی کے لیے رحمت عالم ﷺ نے اس حد تک آسانی پیدا فرمادی کہ وہ جس حالت میں نماز پڑھ سکے پڑھ لے۔ سیدنا عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں، میں بواسیر کا مریض تھا، میں نے نبی اکرم ﷺ سے نماز پڑھنے کا مسئلہ دریافت کیا، تو حبیب کبریا ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا ، فإن لم تستطع فعلى جنب»
’’کھڑے ہو کر پڑھ سکو تو کھڑے ہو کر پڑھو، بیٹھ کر پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھو، لیٹ کر پڑھ سکو تو لیٹ کر پڑھو۔“
صحیح بخاري، كتاب التقصير، رقم: ۱۱۱۷.
⑦ اعتدال
اعتدال کا مطلب ہے کہ نمازی، رکوع، سجدہ، قیام، جلسہ وغیرہ ارکان کو اطمینان کے ساتھ ٹھیک طور پر ادا کرے، وگرنہ اس کی نماز نہ ہوگی، حدیث پاک میں آیا ہے :
ایک صحابی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آیا۔ الصادق المصدوق پیغمبر، احمد مصطفی ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ پس وہ صحابی آیا اور سلام کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جا پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور پھر نماز پڑھ کر آیا اور سلام کیا۔ نبی رحمت ﷺ نے اس مرتبہ بھی اس سے یہی فرمایا :واپس جا اور نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ وہ صحابی بولے : پھر مجھے نماز کا طریقہ سیکھا دیجیے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پورا وضو کر لیا کرو، پھر قبلہ رو ہوکر الله اکبر کہو، اور جو کچھ قرآن مجید سے تمہیں یاد ہے اور تم آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اسے پڑھا کرو، پھر رکوع کرو اور سکون کے ساتھ رکوع کر چکو تو اپنا سر اٹھاؤ، اور جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو سجدہ کرو، جب سجدے کی حالت میں اچھی طرح ہو جاؤ تو سجدہ سے سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ سیدھے ہو جاؤ اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو، اور جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، یہ عمل تم اپنی پوری نماز میں کرو۔“
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: ٧٥٧، كتاب الأيمان والنذور، رقم: ٦٦٦٧
جو نمازی محض مرغ کی طرح ٹھونگ لگاتے ہیں، نماز میں اعتدال کا خیال نہیں رکھتے، انہیں نماز کا چور کہا گیا ہے۔ سید البشر، خیر الانام، محبوب رب العالمین ﷺ نے فرمایا :
«أسوأ الناس سرقة الذى يسرق من صلاته»
’’سب سے برا چور نماز کا چور ہے۔“
صحابہؓ نے پوچھا، یا رسول اللہ ! وہ کس طرح نماز کی چوری کرتا ہے؟ تو امام الانبیاء ﷺ نے فرمایا :
«ألا يتم ركوعها ولا سجودها»
’’جو نماز کے رکوع و سجود پورے اطمینان سے نہیں کرتا.“
مسند أحمد: ۳۱۰/۵، رقم: ٢٢٦٤٢- صحيح ابن حبان، رقم: ۱۸۸۸- مستدرك حاكم: ۱۱۲۹۲
سیدنا حذیفہ بن یمانؓ نے ایک شخص کو دیکھا وہ نہ رکوع پوری طرح اعتدال کے ساتھ کرتا ہے اور نہ سجود، اس لیے آپ ﷺسے فرمایا : تم نے نماز نہیں پڑھی، اور اگر تم مر گئے تو تمہاری موت اس فطرت پر نہ ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا فرمایا تھا۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب إذا لم يتم الركوع، رقم: ٧٩١.