آمین کا مسئلہ
انفرادی اور اجتماعی نماز میں آمین کہنے کا طریقہ
جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے ہو تو اُسے آہستہ آواز میں آمین کہنی چاہیے۔
لیکن جب آپ جہری نماز (مثلاً مغرب، عشاء، فجر) میں امام کے پیچھے ہوں، تو امام جب
(وَلَا الضَّآلِّیْنَ)
پر پہنچے، تو سنت کی پیروی کرتے ہوئے بلند آواز سے آمین کہے۔
اس کے بعد مقتدیوں کو امام کی آمین کے فوراً بعد اونچی آواز میں آمین کہنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
(غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ)
پڑھا، پھر آپ نے بلند آواز سے آمین کہی۔
(ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی التامین، 842؛ ابوداود، الصلاۃ، باب التامین وراء الامام، 239)
ترمذی نے اسے حسن جبکہ ابن حجر اور امام دارقطنی نے صحیح قرار دیا ہے۔
فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافقت
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہوگئی، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔”
(بخاری، الاذان، باب جہر الامام بالتامین، 780؛ مسلم، الصلاۃ، باب التسمیع والتحمید، 410)
امام کی آمین سنائی دینا ضروری
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام بلند آواز سے آمین کہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم اسی وقت دے سکتے ہیں جب مقتدی کو معلوم ہو کہ امام آمین کہہ رہا ہے۔
کوئی عالم یہ تصور نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم دیں، جب کہ مقتدی امام کی آمین سن ہی نہ سکے۔
(صحیح ابن خزیمہ، 1/672)
سورت فاتحہ مکمل نہ کرنے والا بھی آمین کہے
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مقتدی نے ابھی سورت فاتحہ شروع یا مکمل نہیں کی ہو، تب بھی وہ آمین میں دوسروں کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے تاکہ وہ بھی گناہوں کی معافی حاصل کرے۔
والله اعلم (ع،ر)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بلند آواز سے آمین کہنا
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا عمل
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں نے اتنی بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔
(بخاری تعلیقاً، باب جہر الامام بالتامین؛ مصنف عبدالرزاق 2/69)
امام بخاری نے اس اثر کو بصیغہ جزم ذکر کیا ہے۔
تابعین کا عمل
سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میں نے دیکھا کہ جب امام
(غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ)
کہتا تو لوگوں کی آمین سے مسجد گونج اٹھتی۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/781)
200 صحابہ کا عمل
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
"میں نے 200 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ بیت اللہ میں جب امام
(غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ)
کہتا، تو سب بلند آواز سے آمین کہتے تھے۔”
(السنن الکبری للبیہقی، 2/95؛ کتاب الثقات لابن حبان)
اس کی سند امام ابن حبان کی شرط پر صحیح ہے۔
آمین اور یہودیوں کی نفرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس قدر یہودی سلام اور آمین سے چِڑتے ہیں، اتنا کسی اور چیز سے نہیں چِڑتے۔”
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب الجہر بآمین، 856)
اسے امام ابن خزیمہ اور بوصیری نے صحیح کہا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایسے شخص پر سخت ناراض ہوتے جو بلند آواز سے آمین کہنے کو مکروہ سمجھتا، کیونکہ یہودی آمین سے چِڑتے ہیں۔
نتیجہ:
یہ تمام دلائل اور اقوال اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ جہری نماز میں امام اور مقتدی دونوں کو بلند آواز سے آمین کہنی چاہیے، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اس پر عمل رہا ہے۔