نماز قضا کی ترتیب: جماعت میں کس نیت سے شامل ہوں؟
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃجلد 1

سوال

اگر ایک شخص کی نماز ظہر قضا ہو جاتی ہے، اور وہ عصر کی جماعت میں شامل ہوتا ہے، تو کیا اسے امام کے پیچھے ظہر کی نیت کرنی چاہئے یا عصر کی؟

الجواب

جمہور اہل علم کے نزدیک فوت شدہ نمازوں کی قضا میں ترتیب واجب ہے، یعنی قضا شدہ نماز پہلے ادا کی جائے اور پھر موجودہ نماز پڑھی جائے۔

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کا بیان

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی” میں لکھتے ہیں:
’’يجب الترتيب في قضاء الفوائت’’
(المغنی لابن قدامہ المقدسی، 1/352)
فوت شدہ نمازوں کی قضا میں ترتیب واجب ہے۔

یہی رائے امام احمد نے مختلف مقامات پر بیان کی ہے اور دیگر علماء جیسے نخعی، زہری، ربیعہ، یحییٰ انصاری، امام مالک، امام لیث، امام ابو حنیفہ، اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر

امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف مختلف ہے:

ان کے نزدیک قضا شدہ نماز میں ترتیب واجب نہیں ہے کیونکہ فرض نماز پہلے ہی فوت ہو چکی ہے۔ وہ اس کو روزوں کی قضا کی طرح سمجھتے ہیں، جہاں ترتیب واجب نہیں ہے، چاہے کتنی ہی زیادہ نمازیں قضا ہو چکی ہوں۔

مالکیہ اور احناف کا موقف

امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ کہتے ہیں:

ایک دن اور رات کی نمازوں سے زیادہ قضا شدہ نمازوں کی صورت میں ترتیب واجب نہیں رہتی کیونکہ اس سے زیادہ نمازوں میں ترتیب کا التزام مشکل ہو جاتا ہے۔

ترتیب کا اصول

فوت شدہ نماز کی قضا کے لئے ترتیب کا اصول یہ ہے:

  • اگر کسی کی ظہر اور عصر کی نماز قضا ہو جائے تو پہلے ظہر اور پھر عصر کی نماز پڑھنی چاہیے۔
  • البتہ اگر بھول جانے یا ترتیب کے وجوب سے ناواقفیت کی وجہ سے ترتیب برقرار نہ رہ سکے، تو نماز درست شمار ہو گی۔
  • اگر وقت نکل جانے کا خدشہ ہو تو پہلے موجودہ نماز ادا کر لینی چاہئے اور بعد میں فوت شدہ نماز کی قضا کی جائے۔

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اصول

اگر کسی شخص کی ظہر کی نماز قضا ہو چکی ہو اور وہ مسجد میں عصر کی جماعت میں شامل ہو رہا ہو، تو اس کے لئے یہ طریقہ ہے:

  • وہ جماعت کے ساتھ نماز میں شامل ہو، لیکن نیت اپنی فوت شدہ ظہر کی نماز کی کرے۔
  • امام کی نیت اور مقتدی کی نیت مختلف ہونا اس صورت میں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔
  • اس کے بعد وہ اپنی عصر کی نماز الگ سے ادا کرے۔

امام احمد اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا فتویٰ

ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ جماعت چھوٹ جانے کے خوف سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ یعنی ایسی صورت میں پہلے جماعت کے ساتھ شامل ہو جانا بہتر ہے، پھر قضا شدہ نماز ادا کی جائے۔

خلاصہ

اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ:

  • اگر ظہر کی نماز قضا ہو چکی ہے اور عصر کی جماعت مل رہی ہے، تو جماعت کے ساتھ شامل ہوتے وقت ظہر کی نیت سے نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
  • اس کے بعد عصر کی نماز الگ سے ادا کرنی ہوگی۔
  • امام اور مقتدی کی نیت کا مختلف ہونا اس عمل میں کوئی ممانعت نہیں رکھتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے