نماز عید کے لیے پیدل جانے کی فضیلت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز عید کے لیے پیدل چل کے جانا

➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
من السنة أن يخرج إلى العيد ما شيا
”عید گاہ کی جانب پیدل چل کے جانا سنت ہے ۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 437 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى المشى يوم العيد، ترمذي: 530 ، ابن ماجة: 1296 ، اس كي سند ميں حارث اعور راوي هے جسے امام نوويؒ نے بالا تفاق كذاب كها هے لهذا يه حديث ضعيف هے ۔ خلاصة الأحكام: 822/2 ، نيل الأوطار: 582/2]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں عام لفظ ہیں:
إذا نودى بالصلاة فاتوها وأنتم تمشون
”نماز کے لیے آذان دی جائے تو تم اس کی طرف چلتے ہوئے آؤ۔“
[مسلم: 946 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب استحباب اتيان الصلاة بوقار و سكينه]
(ترمذیؒ) اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ وہ عید کے لیے مردوں کا پیدل جانا پسند کرتے ہیں اور یہ کہ کوئی بھی بغیر عذر کے سوار نہ ہو۔
[ترمذي: 530]
(بخاریؒ ) انہوں نے یہ باب قائم کیا ہے:
المشي والركوب إلى العيد
”عید کے لیے پیدل چلنا اور سوار ہو کر جانا۔“
[بخاري: 957]
(ابن حجرؒ) شاید امام بخاریؒ نے اس باب کو قائم کر کے نماز عید کے لیے چل کر جانے کے استحباب میں وارد روایات کی تضعیف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (یعنی امام بخاری عید کے لیے چل کر جاتا اور سوار ہو کر جانا دونوں طرح جائز سمجھتے ہیں)۔
[فتح الباري: 127/3 – 128]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) راجح قول وہی ہے جسے اکثر اہل علم نے اختیار کیا ہے (یعنی چل کر جانا مستحب ہے)۔
(شوکانیؒ ) عیدین کے مسنون افعال میں سے پیدل چل کر جانا بھی ہے۔
[السيل الجرار: 320/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1