نماز عید کا صرف ایک خطبہ ہے
گذشتہ تمام احادیث جن میں خطبے کا ذکر ہے وہ سب اس کی دلیل ہیں کیونکہ ان میں محض خطبہ دینے کا ہی ذکر ہے جو ایک مرتبہ خطبہ دینے کی تو دلیل ہے لیکن دو خطبوں کے لیے کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے جو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ تا ہم اس ضمن میں چند ضعیف احادیث موجود ہیں جن میں سے ایک مندرجہ ذیل ہے:
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلـى الـعـيـد بغير أذان ولا إقامة و كان يخطب خطبتين قائما يفصل بينهما بجلسة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم آذان اور اقامت کے بغیر نماز عید پڑھاتے اور کھڑے ہو کر دو خطبے دیتے اور ان دونوں کے درمیان بیٹھ کر فاصلہ کرتے ۔“
[كشف الأستار للبزار: 315/1 ، 657 ، شيخ البانيؒ رقمطراز هيں كه يه حديث نه تو صحيح هے اور نه هي حسن ۔ تمام المنة: ص/ 348]
خطبہ عید کو جمعہ کے خطبوں پر قیاس کرنا بھی کسی طور پر درست نہیں کیونکہ عبادات میں قیاس کا دخل نہیں۔
جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کو خطبہ دینے کے بعد خواتین کے پاس جا کر انہیں وعظ و نصیحت کیا اس سے بھی دوسرے خطبے کی مشروعیت کے لیے دلیل پکڑنا درست نہیں کیونکہ دوسری روایت میں یہ وضاحت ہے کہ :
ثم خطب فرآى أنه لم يسمع النساء فأتاهن و ذكرهن
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو نہیں سنا سکے لٰہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کی ۔“
[مسلم: 1465 ، كتاب صلاة العيدين ، ابن ماجة: 1263 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فى صلاة العيدين]