پہلی تکبیر کے بعد فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے
➊ چونکہ نماز جنازہ بھی ایک نماز ہی ہے اس لیے دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی سورہ فاتحہ کی قراءت ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
”جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔“
[بخاري: 756 ، كتاب الأذان: باب وجوب القراءة للإمام والماموم ]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی:
فقرأ الفاتحة وقال لتعلموا أنه من السنه
”اور سورہ فاتحہ کی قراءت کی اور کہا (یہ اس لیے پڑھی ہے ) تا کہ تمہیں علم ہو جائے کہ یہ سنت ہے ۔“
[بخاري: 1335 ، كتاب الجنائز: باب قراءة فاتحة الكتاب على الجنازة ، أبو داود: 3198 ، ترمذي: 1027 ، نساني: 1988]
سنن نسائی میں یہ لفظ ہیں:
فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر فلما فرغ قال سنة و حق
”حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے (جنازے میں ) فاتحہ اور کوئی سورت پڑھی اور اونچی آواز سے قراءت کی پھر جب فارغ ہوئے تو کہا یہ سنت اور حق ہے۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص /151 ، نسائي: 1978 ، كتاب الجنائز: باب قراءة فاتحة الكتاب على الجنازة]
(شافعیؒ ، احمدؒ ، اسحاقؒ ) پہلی تکبیر کے بعد قراءت مشروع ہے۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) جنازے میں کوئی قراءت نہیں۔
[المبسوط: 64/2 ، سبل السلام: 752/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) امام شافعیؒ اور ان کے رفقاء کا قول برحق ہے۔
[تحفة الأحوذي: 94/3]
(امیر صنعانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[سبل السلام: 753/2]
(البانیؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ مزید بیان کرتے ہیں کہ یہ کتنی تعجب خیز بات ہے کہ احناف قراءت (جو ثابت ہے ) اس کا انکار کرتے ہیں اور ثناء ( سبحانك اللهم جو ثابت نہیں ہے) کی قراءت کو نماز جنازہ کی سنتوں میں شمار کرتے ہیں ۔
[أحكام الجنائز: ص/153]