سوال:
چند دن پہلے ایک معروف اہلحدیث عالم دین کا انٹرویو نشر ہوا، جس میں انہوں نے بیان کیا کہ کوئی بھی شیخ الحدیث یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے میں ایک سے زائد دعائیں پڑھی ہوں۔ کیا یہ درست ہے کہ جنازے میں ایک وقت میں زیادہ دعائیں نہیں کرنی چاہییں؟
جواب از فضیلۃ الشیخ خضر حیات حفظہ اللہ
نماز جنازہ میں دعاؤں کی مقدار کا اصول
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ نماز جنازہ کو غیر ضروری طور پر اتنا لمبا نہیں کرنا چاہیے کہ نمازیوں کو پریشانی ہو۔ تاہم، ایک سے زیادہ دعائیں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنا بہتر ہی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اخلصوا لہ الدعاء”
"میت کے لیے خلوص سے دعا کرو۔”
یہ خلوص تبھی حاصل ہوتا ہے جب زیادہ دعائیں مانگی جائیں اور بار بار کی جائیں۔
تحریکِ دعوتِ توحید کے کنوینر میاں محمد جمیل صاحب کا موقف
یہ بات اصل میں میاں محمد جمیل ایم اے صاحب نے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ ان کے بیان کا پس منظر یہ تھا کہ آج کل جنازوں کے دوران بہت سی ایسی چیزیں رائج ہو گئی ہیں جو سنت کے خلاف ہیں، جیسے:
◄ جنازے سے پہلے لمبی لمبی تقریریں کرنا۔
◄ ایسی عمومی دعائیں پڑھنا جو بعض اوقات غیر مسنون ہوتی ہیں۔
◄ نماز جنازہ کو بلا ضرورت طویل کر دینا، جس سے نمازیوں کو دقت ہوتی ہے۔
اسی تناظر میں انہوں نے یہ بات کہی اور غالباً کسی حادثے کی طرف بھی اشارہ کیا۔
میرے خیال میں میاں صاحب نے گفتگو کی روانی میں یہ بات کہہ دی، ورنہ یہ اصول درست نہیں کہ اگر کسی چیز کے لیے مختلف دعائیں ثابت ہیں تو انہیں ایک ہی وقت میں پڑھنا منع ہو۔
موقف میں افراط و تفریط سے گریز ضروری ہے
کبھی کبھار کسی خاص واقعے یا تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کے موقف میں توازن اور اعتدال کی بجائے لاشعوری طور پر سختی آ جاتی ہے۔ تاہم، عمومی اصول یہی ہے کہ نماز جنازہ میں بھی وہی قواعد لاگو ہوتے ہیں جو دیگر نمازوں کے لیے ہیں، جیسے:
◄ مقتدیوں کا خیال رکھا جائے تاکہ انہیں غیر ضروری مشقت میں نہ ڈالا جائے۔
◄ مسنون دعاؤں پر اکتفا کیا جائے اور غیر ثابت شدہ دعاؤں سے اجتناب کیا جائے۔
◄ سری نماز جنازہ کی سنت کو زندہ کیا جائے کیونکہ ہمارے ہاں یہ سنت کافی حد تک متروک ہو چکی ہے۔ سری نماز جنازہ سے جنازے کے طویل ہونے کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔
سری نماز جنازہ کی مثال
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں کئی جید علماء، طلبا اور مشایخ نے شرکت کی۔ ان کے بیٹے نے غالباً ان کی وصیت کے مطابق سری نماز جنازہ پڑھائی۔ مزید برآں، ان کا موقف یہ تھا کہ قبر پر اجتماعی دعا کا جواز نہیں ہے، اسی لیے وہاں موجود سب لوگوں نے انفرادی طور پر دعا کی تھی۔
نتیجہ:
نماز جنازہ میں غیر ضروری طوالت سے اجتناب ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ دعائیں پڑھنا منع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف جنازوں میں مختلف دعائیں ثابت ہیں، لہٰذا کسی ایک جنازے میں ایک سے زیادہ مسنون دعائیں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔