نماز جنازہ قبر پر اور غائبانہ بھی پڑھی جا سکتی ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
صلى النبى صلى الله عليه وسلم على رجل بعد ما دفن بليلة
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جسے گذشتہ شب دفن کر دیا گیا تھا۔ “
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: فاتي قبره فصلي عليه ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر آئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی۔“
[بخارى: 1340 ، كتاب الجنائز: باب الدفن بالليل ، مسلم: 954 ، ترمذي: 1057 ، ابن ماجة: 1530 ، أحمد: 224/1 ، ابن أبى شيبة: 360/3]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت (یا ایسے مرد) کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔
[بخاري: 1337 ، كتاب الجنائز: باب الصلاة على القبر بعد ما يدفن ، مسلم: 956 ، أحمد: 353/2 ، أبو داود: 3203 ، ابن ماجة: 1527 ، بيهقى: 47/4 ، أبو يعلى: 2429 ، ابن خزيمة: 1299]
➌ حضرت یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی قبر پر جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 114 – 115 ، ابن ماجة: 465/1 ، نسائي: 284/1 ، بيهقي: 48/4]
➍ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسکین عورت کی قبر پر جا کر باجماعت نماز جنازہ پڑھائی جیسا کہ اس میں یہ لفظ ہیں:
فانطلقوا مع رسول الله حتي قاموا على قبرها فصفوا وراء رسول الله كما يصف للصلاة على الجنازة فصلى عليها رسول الله
”لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے حتٰی کہ اس عورت کی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس طرح صفیں درست کر لیں جیسا کہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کی جاتی ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 115 ، بيهقي: 48/4]
(جمہور، احمدؒ ، شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 119/4 ، نيل الأوطار: 707/2 ، الأم: 461/1 ، الحاوى: 59/3 ، المبسوط: 67/2 ، بدائع الصنائع: 311/1 ، الهداية: 91/1 ، حاشية الدسوقى على الشرح الكبير: 413/1 ، المغنى: 444/3]
غیر مشروع کہنے والوں کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مسجد میں جھاڑو دینے والی عورت کی قبر پر نماز جنازہ کا ذکر ہے اس میں یہ لفظ بھی ہیں:
إن هذه القبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم
”یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور میری نماز سے ان کی قبروں میں روشنی ہو جاتی ہے۔ “
اس سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ یہ (یعنی قبر پر نماز جنازہ ) صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا (کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی قبر میں روشنی ہوتی تھی)۔
جمہور اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مذکورہ الفاظ کا اضافہ مدرج ہے جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے اور ثابت کیا ہے۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: فتح الباري: 127/2 ، نيل الأوطار: 708/2]
(شوکانیؒ ) خصوصیت صرف دلیل سے ہی ثابت ہوتی ہے (اور اس عمل کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ) ۔
[أيضا]
◈ اہل قبر پر تدفین کے وقت نماز پڑھی گئی ہو یا نہ پڑھی گئی ہو بعد میں قبر پر نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ گذشتہ احادیث اس پر شاہد ہیں۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
آن النبى صلى الله عليه وسلم نعى النجاشي فى اليوم الذى مات فيه وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم و كبر عليه أربع تكبيرات
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دن نجاشی کی موت کا اعلان کیا جس دن وہ فوت ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے کر عید گاہ کی طرف گئے ، ان کی صفیں بنوائیں اور (اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہوئے ) اس پر چار تکبیریں کہیں ۔“
[بخاري: 1333 ، كتاب الجنائز: باب التكبير على الجنازة أربعا ، مسلم: 951 ، موطا: 226/1 ، أبو داود: 3204 ، ابن ماجة: 1534 ، نسائي: 72/4 ، بيهقى: 49/4]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں روایت مروی ہے ۔
[بخاري: 1320 ، 1334 ، كتاب الجنائز: باب الصفوف على الجنازة ، مسلم: 952 ، أحمد: 361/3]
➌ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بھی نجاشی کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔
[مسلم: 953 ، كتاب الجنائز: باب فى التكبير على الجنازة ، ابن ماجة: 1535 ، نسائي: 70/4 ، أحمد: 431/4 ، بيهقي: 50/3]
(جمہور ، شافعیؒ ، احمدؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابن حزمؒ ) کسی صحابی سے بھی اس کی ممانعت منقول نہیں۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) غائبانہ نماز جنازہ مطلق طور پر مشروع ہی نہیں ۔
[نيل الأوطار: 203/2 ، الأم: 271/1 ، روضة الطالبين: 130/2 ، المجموع: 209/4 ، الأصل: 427/1 ، المبسوط: 67/2 ، حاشية ابن عابدين: 29/2]
غائبانہ نماز جنازہ کو ناجائز قرار دینے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صرف نجاشی کے ساتھ خاص تھا کیونکہ ایک روایت میں مذکور ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹا دیے گئے اور نجاشی کی میت آپ کے سامنے تھی ۔“
[أحكام الجنائز للألباني: ص 1193]
(نوویؒ) یہ روایت (جس میں ہے کہ نجاشی کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دی گئی) محض اوہام و خیالات میں سے ہے ، اس کی کچھ حقیقت نہیں ۔
[المجموع: 253/5]
(البانیؒ) یہ تاویل (یعنی کہ یہ عمل صرف نجاشی کے ساتھ خاص تھا) فاسد ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 119]
یاد رہے کہ چونکہ اس عمل کی نجاشی کے ساتھ خصوصیت کی کوئی دلیل موجود نہیں اس لیے یہ عمل بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کے دیگر تمام اعمال کی طرح ہمارے لیے بھی اسوہ و سنت ہے۔
(ابن تیمیهؒ ) اگر غائب شخص ایسے شہر میں فوت ہو کہ جہاں اس کی نماز جنازہ نہ ادا کی گئی ہو تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔
[نيل الأوطار: 704/2 ، أحكام الجنائز: ص/118]
(خطابیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[معالم السنن: 310/1]
ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ لفظ ہیں:
إن أخا لكم قد مات بغير أرضكم فقوموا فصلوا عليه
”يقيناً تمهارا ایک بھائی تمہارے علاقے سے باہر فوت ہوا ہے لٰہذا اٹھو اس کی نماز جنازہ پڑھو۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1248 ، كتاب ما جاء فى الجنائز: باب ما جاء فى الصلاة على النجاشي ، ابن ماجہ: 1537 ، احمد: 714 ، حافظ بوصيريؒ نے اس حديث كو صحيح كها هے۔ مصباح الزجاجة: 500/1]
اس روایت سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ نجاشی کا جنازہ اس کے علاقے میں نہیں پڑھا گیا تھا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ علاقے سے باہر فوت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس شخص کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی گئی اور نہ ہی اس حدیث میں کوئی ایسی وضاحت موجود ہے جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ ایسی کوئی خبر میرے علم میں نہیں کہ (جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ) نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی۔
[فتح البارى: 224/3]
اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ، [فتح الباري: جلد 3 ، صفحه 224] کا مطالعہ مفید ہے۔