نماز تراویح کا بیان
باجماعت نماز تراویح کی شرعی حیثیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالجزم حکم تو نہیں دیتے تھے البتہ قیام رمضان کی ترغیب دلایا کرتے تھے اور فرماتے تھے: من قام رمضان إيمانا واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه ”جس نے حالت ایمان میں اور اجر و ثواب کی غرض سے قیام رمضان میں شرکت کی اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔“
[بخاري: 2009 ، كتاب صلاة التراويح: باب فضل من قام رمضان ، مسلم: 759 ، أبو داود: 1371 ، نسائي: 202/3 ، ترمذي: 808 ، ابن ماجة: 1326]
نوويؒ اس حدیث میں قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے اور اس کے استحباب پر علماء کا اتفاق ہے۔
[شرح مسلم: 298/3]
(شوکانیؒ) یہ حدیث قیام رمضان یعنی نماز تراویح کی فضیلت و استجاب پر دلالت کرتی ہے۔
[نيل الأوطار: 265/2]
فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ یہ نماز گھر میں اکیلے اکیلے پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں جماعت کے ساتھ افضل ہے۔
(احمدؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) مسجد میں جماعت کے ساتھ افضل ہے۔
(مالکؒ ، ابو یوسفؒ) گھر میں اکیلے پڑھنا افضل ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ فرائض کے علاوہ انسان کی نماز گھر میں افضل ہے۔
[نيل الأوطار: 265/2 ، المغنى: 605/2]
(راجح) نماز تراویح مسجد میں باجماعت افضل ہے کیونکہ سنت نبوی سے یہی عمل ثابت ہے۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض ہو جانے کے اندیشے سے اسے ترک کر دیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھائی ۔ صحابہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ یہ نماز ادا کی۔ دوسری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔ تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنی بڑی تعداد میں تم لوگ جمع ہو گئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا:
ولم يمنعني من الخروج إليكم إلا أنى خشيت أن تفرض عليكم وذلك فى رمضان
”لیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے ، یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ “
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتیں نماز پڑھائی لیکن چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے۔
اس روایت کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها فتوفى سول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك
”لیکن مجھے یہ اندیشہ تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے تو تم اس سے عاجز آ جاؤ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی لیکن یہ معاملہ اسی طرح رہا۔“
صحیح بخاری کی ہی ایک اور روایت میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہ چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے۔
[بخاري: 1129 ، 2012 ، كتاب الجمعة: باب تحريض النبى على صلاة الليل ، مسلم: 761 ، موطا: 113/1 ، نسائي: 202/3 ، أحمد: 169/6 ، ابن خزيمة: 2207 ، بيهقى: 402/2]
➋ حضرت عبد الرحمن بن عبد القاریؒ فرماتے ہیں کہ میں رمضان کی ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا ، لوگ متفرق اور منتشر تھے۔ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی کسی کے پیچھے کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
انى أرى و جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل
”میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ مناسب ہو گا“
چنانچہ انہوں نے اسی عزم و ارادے کے ساتھ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام مقرر کر دیا۔ (حضرت عبد الرحمنؒ کہتے ہیں کہ ) پھر ایک رات جب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نعم البدعة هذه ”یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے ۔“
اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اُس حصے سے بہتر ہے جس میں یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد رات کے آخری حصے کی فضیلت سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع میں ہی پڑھ لیتے تھے۔
[بخاري: 2010 ، كتاب صلاة التراويح: باب فضل من قام رمضان ، مؤطا: 114/1]
مذکورہ دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ قیام رمضان با جماعت مشروع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس اندیشے کی وجہ سے چوتھی رات جماعت سے گریز کیا تھا کہ یہ نماز مسلمانوں پر فرض نہ کر دی جائے ۔ بعد ازاں جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے ، وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خائف تھے اس سے امن ہو گیا کیونکہ کسی بھی کام کی علت اپنے وجود یا عدم میں معلول کے ساتھ ہوتی ہے لٰہذا جب عارض زائل ہو گیا تو با جماعت (نماز تراویح) کی سنت باقی رہ گئی۔
پس جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت آیا تو انہوں نے اسی سنت کو زندہ کرتے ہوئے کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا تھا اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ یاد رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فعل کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا تھا کہ ان کے زمانے میں پہلے اس طرح یہ نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اس لیے ان کے زمانے میں یقیناً یہ نیا کام تھا۔ لیکن فی الحقیقت یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا جا چکا تھا۔ اسے بدعت کہنے کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کی تقسیم سے مطلع کرنا چاہتے تھے کہ بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک بدعت حسنہ اور ایک سیئہ جیسا کہ آج بعض حضرات یہ موقف رکھتے ہیں ۔ بلکہ ہر بدعت گمراہی ہی ہے۔
(ابن تیمیہؒ ) اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بدعت کو اچھا کہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد لغوی بدعت ہے شرعی نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ لغت میں بدعت ہر ایسے کام کو کہا جاتا ہے جس کی ابتدا پہلی مرتبہ کی گئی ہو۔ شرعی بدعت یہ ہے کہ ہر ایسا کام جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔
[اقتضاء الصراط المستقيم: ص/276]