نماز استخارہ کا طریقہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس طرح تمام معاملات میں استخارہ سکھاتے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل
”تم میں سے کوئی جب کسی کام کا ارادہ کرے تو فرائض کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے پھر کہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاقْدُرُهُ لِيْ وَيَسْرُهُ لِى ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفْهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرُ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ
[بخاري: 1162 ، 6382 ، كتاب الدعوات: باب الدعاء عند الاستخارة ، أبو داود: 1538 ، ترمذي: 480 ، نسائى: 80/6 ، ابن ماجة: 1383 ، ابن حبان: 887 ، بيهقي: 52/3]
(شوکانیؒ ) نماز استخارہ اور اس کے بعد کی دعا کی مشروعیت میں کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں۔
[نيل الأوطار: 298/2]
(نوویؒ) جب کوئی شخص استخارہ کرے تو اس کے بعد اس کام کو اپنا لے جس پر اسے انشراح صدر ہو جائے ۔
[الأذكار للنووى: ص/152]
اگر ایسا کچھ بھی محسوس نہ ہو تو جو کام انسان کے لیے آسان ہوتا جائے اسے اختیار کر لے۔
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اس حدیث میں جو نماز استخارہ اور اس کے بعد مسنون دعا کے استحباب کا ذکر ہے وہ صرف ان معاملات میں ہے جن میں انسان کو (دنیاوی معاملات میں سے کسی معاملے کے لیے ) درست راہ معلوم نہ ہو رہی ہو علاوہ ازیں جو معروف نیکیاں ہیں مثلاً عبادات اور دیگر معروف اعمال ان میں استخارے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 605/2]
(شوکانیؒ ) حدیث کے یہ الفاظ: من غير الفريضة اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرض نماز ، سنن رواتب ، تحیۃ المسجد ، یا اس کے علاوہ دیگر نوافل کے بعد اگر (استخارے کی غرض سے ) یہی دعا کر دی جائے تو اس سے سنت حاصل نہیں ہو گی (بلکہ استخارے کے لیے الگ دو رکعتیں صرف استخارے کی غرض سے ہی ادا کی جائیں گی )۔
[نيل الأوطار: 297/2]
استخاره صرف بعض اولیاء کے لیے خاص نہیں
یہ گمان رکھنا کہ استخاره صرف وہی سود مند ہوتا ہے جو لوگوں میں سے بعض بزرگ شخصیات سے کروایا جائے اور یہ خیال کرنا کہ استخارے کے لیے دوران نیند خواب آنا ضروری ہے ، محض (دین میں) ایسا غلوو جمود ہے جس کا نہ تو اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کی رہنمائی کرتی ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ اپنے تمام معاملات میں پروردگار سے خود استخارہ کرے یقیناً وہ ضرور اسے ہدایت بخشے گا اور دور حاضر کے لوگوں نے جس تشدد کو اور محض دوسروں (یعنی اولیاء و بزرگوں ) پر ہی اعتماد کر لینا عادت و رواج بنا لیا ہے اس کی طرف یکسر توجہ نہ کرے۔
[القول المبين فى أخطاء المصلين: ص/ 394 ، المدخل: 90/3 ، الدين الخالص: 245/5]
◈ اگر استخارے کے بعد مطلوبہ کام کرنے یا نہ کرنے کے متعلق شرح صد نہ ہو تو کیا وہ شخص دوبارہ استخارہ کرے گا؟ ایسی صورت میں یاد رہے کہ دوبارہ استخارہ کرنے کے متعلق کوئی بھی مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے۔
[نيل الأوطار: 297/2]
◈ عمل استخارہ کو پیشہ بنا لینا بھی کسی طور پر درست نہیں کیونکہ اسے ہر انسان کی اپنی ذات کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔