نمازی کے آگے سے بچوں کے گزرنے کا شرعی حکم

سوال

بچے مسجد میں نمازیوں کے آگے سے بار بار گزرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟

جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

نمازی کے آگے سے گزرنے والا چاہے بچہ ہو یا بڑا، اسے روکنا ضروری ہے۔ یہ حکم تمام افراد کے لیے عام ہے اور کسی کا اس میں استثناء نہیں ہے، جیسا کہ احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

حدیث کی روشنی میں

سیدنا ابو جہیم عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے، تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا۔‘‘
[صحیح البخاری: 510]

حکمت و مصلحت کا پہلو

اگر بچے کو روکنے سے زیادہ شور شرابہ ہونے یا نمازیوں کو تنگ کرنے کا اندیشہ ہو، تو حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ بچے کو کچھ نہ کہا جائے۔

ایک واقعہ

ایک روایت میں ہے (اگرچہ اس کی سند میں ضعف ہے) کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے، اس دوران:

➊ ایک بچہ آگے سے گزرا، تو آپ نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور وہ رک گیا۔

➋ پھر ایک بچی گزری، تو آپ نے منع کیا، لیکن وہ گزر گئی۔ نماز مکمل ہونے کے بعد آپ نے فرمایا: "یہ عورتیں زیادہ غلبہ پانے والی ہوتی ہیں”۔

[سنن ابن ماجہ: 948]

گزرنے کی حدود

نمازی کے آگے سے گزرنے کا مفہوم واضح ہونا چاہیے:

بین یدی المصلی: سے مراد زیادہ تر اہل علم کے مطابق نمازی کی جائے نماز ہے۔

➋ اگر کسی شخص کا گزرنا نماز کی صف کے باہر ہو، تو اس میں حرج نہیں ہے۔

نمازی کے آگے سے گزرنا ممنوع ہے، تاہم اگر بچے کو روکنے سے زیادہ شور یا تنگی کا اندیشہ ہو، تو مصلحت کے مطابق عمل کریں۔ واللہ اعلم۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے