نقد سامان مہنگا ادھار بیچنا
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

اس قول: ”مجھے بارہ کے بدلے دس بیچ دو“ کا حکم

قرض خواہ کا قرض دہندہ سے یہ کہنا: ”مجھے بارہ کے بدلے دس بیچ دو“ کا معنی ہے مجھے وہ سامان، جس کی حالیہ قیمت دس کے مساوی ہے، بارہ ادھار کے بدلے بیچ دے، اس معنی میں اس طرح کے قول میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ معانی و مفہوم کا اعتبار کیا جاتا ہے (الفاظ کانہیں) اور جس قیمت پر نقد سامان بیچا جاتا ہے، اس سے مہنگا ادھار بیچنا جمہور کے نزدیک جائز ہے، بیع کے حلال ہونے پر دلالت کرنے والی دلیلیں اس کو بھی شامل ہیں۔
نیز یہ ارشاد ربانی بھی اس پر دلالت کرتا ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
یہ ان دونوں صورتوں کو شامل ہے جن میں ادھار قیمت نقد کے برابر ہو یا ادھار نقد سے زیادہ۔ یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جسے حاکم اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو لشکر تیار کرنے کا حکم دیا تو اونٹ ختم ہو گئے، پھر آپ نے انہیں صدقہ کی اونٹنیوں سے لینے کا حکم دیا، انہوں نے کہا: میں نے زکاۃ کے اونٹ آنے تک دو دو اونٹوں کے بدلے ایک ایک اونٹ لے لیا۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2823]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا ذکر بلوغ المرام میں کیا ہے اور یہ اس مسئلے میں صریح حدیث ہے، اس کے جواز میں علامہ شوکانی نے ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ہے جس کا ذکر انہوں نے ”نیل الاوطار“ میں کیا ہے۔
اگر سامان قرض دینے والی کی ملکیت میں نہ ہو یا اس کی ملکیت میں تو ہو لیکن وہ سپرد کرنے سے عا جز ہو، تو اسے خریدار کے ساتھ سودا پکا کرنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ وہ دونوں قیمت پر اتفاق کر لیں اور اس وقت تک بیع منعقد نہ ہو جب تک سامان بیچنے والے کے قبضے میں نہ آ جائے، کیونکہ حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سے سامان خریدا جائے اسے وہیں اور تاجروں کے اسے اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے قبل بیچنے سے منع فرمایا ہے۔“
امام ابن قیم رحمہ اللہ ”تهذيب السنن“ میں حضرت حکیم بن حزام کی اس حدیث: «لا تبع ما ليس عندك» ’’جو تیرے پاس نہیں اسے نہ بیچ“ کی شرح میں فرماتے ہیں:
”جو اس کے پاس نہیں اس کی بیع سے منع اس لیے فرمایاکیونکہ اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، نہ وہ اس کے ذممے ثابت ہوتی ہے نہ وہ اس کے ہاتھ ہی میں ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ فروخت شدہ چیز بیچنے والے کے ذمے ثابت ہو، یا اس کے ہاتھ میں ہو اور جو اس کے پاس نہیں اس کی بیع، ان دونوں (ضمانت اور ثابت ہونا) میں سے کوئی ایک چیز بھی نہیں، لہٰذا حدیث اپنے عموم پر باقی رہے گی۔“
یہ ”تهذيب السنن“ میں ان کا کچھ کلام ہے، اس معنی کی وضاحت کے لیے ”زاد المعاد“ اور ”اعلام الموقعین“ بھی دیکھیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 106/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل