ذوق کا شعر اور موجودہ رویے
"کب لباسِ دنیوی میں چھپتے ہیں روشن ضمِیر
جامۂ فانُوس میں بھی شعلہ عُریاں ہی رہا”
یہ شعر ہمارے موجودہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ لوگ اپنے حقیقی جذبات اور کردار کو چھپانے کی لاکھ کوشش کریں، لیکن آخرکار ان کی حقیقت آشکار ہو ہی جاتی ہے۔ حالیہ واقعات نے ہمارے معاشرتی منافقت کو نمایاں کر دیا ہے، جہاں محبت اور رواداری کے دعویدار اپنے ہی اصولوں سے منہ موڑتے دکھائی دیے۔
منافقت اور عدم برداشت
◈ جو لوگ امن، محبت، اور رواداری کا پرچار کرتے تھے، وہی ایک موت پر خوشی مناتے نظر آئے۔
◈ جذبات اور احساسات کا احترام بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔
◈ میڈیا نے اس معاملے پر محدود کوریج دی تاکہ بے چینی نہ بڑھے، لیکن سوشل میڈیا پر ہر حد پار کی گئی۔
◈ جو افراد موت کی سزا کے مخالف تھے، ان کی خاموشی حیرت کا باعث ہے۔
قبائلی اقدار سے سبق
◈ ایک دوست نے ذکر کیا کہ قبائلی معاشروں میں دشمن کے جنازے کا بھی احترام ہوتا ہے، اور اس دن سوگ منایا جاتا ہے۔
◈ یہ رویہ ہماری "مہذب” کہلائی جانے والی معاشرت کے لیے باعثِ شرم ہے، جہاں جنازے کے احترام کی بجائے نفرت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔
دوعملی اور اصولوں کی پامالی
◈ وہ لوگ جو عدالتی فیصلوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے جذباتی باتیں کرتے ہیں، خود اپنے اصولوں پر قائم نہ رہ سکے۔
ظفر اقبال کا شعر ان کے طرز عمل پر صادق آتا ہے:
"جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے”
◈ کسی کی موت کو اپنی اخلاقی فتح قرار دینا اور پھر موقع پرستی کا مظاہرہ کرنا دوعملی کی بدترین مثال ہے۔
مہذب مکالمے کی ضرورت
◈ بات چیت کو اس سطح پر رکھنا چاہیے کہ ماضی کو دیکھ کر شرمندگی نہ ہو۔
◈ انتقام اور نفرت پر مبنی بیانیے کی جگہ رواداری اور صبر کو فروغ دینا چاہیے۔
◈ ایک عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہوا، اس پر خوشی منانے یا ماتم کرنے کی بجائے، اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا زیادہ ضروری ہے۔
نتیجہ
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں اور نفرت کے بیانیے سے نکل کر حقیقی مہذب مکالمے کی جانب بڑھیں۔ چراغ آج کسی کے بجھتے ہیں، کل کسی اور کی باری آتی ہے۔ اس حقیقت کو یاد رکھتے ہوئے ہمیں اپنی بات اور عمل میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔