نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے :
➊ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كانت النفساء تجلس على عهد رسول الله أربعين يو ما
”نفاس والی خواتین عہد رسالت میں چالیس دن عدت گزارتی تھیں ۔“
[حسن: صحيح أبو داود 304 ، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى وقت النفساء ، أحمد 300/6-304، ترمذي: 139 ، ابن ماجة 648، دارقطني 221/1 – 222 ، حاكم 175/1 ، بيهقي 341/1]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله وقت للنفساء أربعين يوما إلا أن ترى الطهر قبل ذلك
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاس والی خواتین کے لیے چالیس دن مقرر کیے تھے الا کہ وہ اس سے پہلے پاکی حاصل کر لیں ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة 138، كتاب الطهارة وسننها: باب ما جاء فى النفساء كم تجلس، إرواء الغليل 201، الضعيفة 5653، عبدالرزاق 312/1 ، دار قطني 220/1، بيهقي 343/1 ، حافظ بوصيريؒ نے زوائد ميں اس حديث كي سند كو صحيح كها هے۔ 232/1]
(جمہور) نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت عمر، حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما، امام عطاء، امام ثوری، امام شعبی، امام مزنی، امام احمد بن حنبل، امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔
(شافعیؒ) یہ مدت ساٹھ دن ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔
(حسن بصریؒ) یہ مدت پچاس دن ہے۔
علاوہ ازیں بعض حضرات نے ستردن مدت بھی بتلائی ہے۔
[المجموع 539/2 ، المغنى 345/1 ، المحلى 203/2 ، الإفصاح 108/1، بدائع الصنائع 41/1 ، مراقي الفلاح ص/ 23 مغني المحتاج 119/1 ، حاشية الباجورى 113/1 ، المهذب 45/1 ، كشاف القناع 226/1]
(نووئیؒ) صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں میں سے اکثر علماء کے نزدیک نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ امام ترمذیؒ اور امام خطابیؒ وغیرہ نے بھی یہی قول اکثر سے نقل کیا ہے۔ امام خطابیؒ بیان کرتے ہیں کہ امام ابوعبیدہؒ نے کہا کہ ”اسی پر لوگوں کی جماعت ہے۔“ اور امام ابن منذرؒ نے یہی قول حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن عباس، حضرت انس، حضرت عثمان بن ابی العاص، حضرت عائذ بن عمرو، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، امام ثوری، امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام ابن مبارک، امام احمد ، امام اسحاق اور امام ابو عبید رحمہم اللہ اجمعین سے بیان کیا ہے ۔ [المجموع 524/2]
(زید بن علیؒ ) نفاس چالیس دن سے زیادہ نہیں ہوتا ۔ [الروض النضير 513/1]
(صدیق حسن خانؒ ) یہی بات برحق ہے۔ [الروضة الندية 191/1]
(شوکانیؒ) نفاس والی خواتین پر چالیس دن عدت گزارنا واجب ہے۔ [نيل الأوطار 414/1]
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔ [تحفة الأحوذى 452/1]
(ترمذیؒ) صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کا اس پر اجماع ہے۔
[ترمذي بعد الحديث 139، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى كم تمكث النفساء]
( راجح) یہی موقف راجح و برحق ہے۔
اگر چالیس دن کے بعد بھی خون آتا ر ہے :
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ ”اکثر اہل علم نے یہی کہا ہے کہ چالیس دن کے بعد نماز نہیں چھوڑے گی ۔“
[ترمذي بعد الحديث 139، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى كم تمكث النفساء]
(شیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدیؒ) اگر چالیس دن کے بعد خون آئے گا تو اس کا حکم نفاس والی عورت کا ہی ہوگا ۔
[فتاوى المرأة المسلمة 300/1]
(شیخ عثیمینؒ) اگر تو عورت کی عادت پہلے سے ہی چالیس دن سے زائد ہے تو وہ عادت کے مطابق عمل کرے گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ غسل کر کے نماز، روزہ اور دیگر عبادات سر انجام دے گی اور مستحاضہ کے حکم میں ہوگی، اور بعض نے کہا ہے کہ وہ ساٹھ دن تک انتظار کرے گی اس کے بعد وہ مستحاضہ کی مانند شمار ہوگی ۔
[فتاوى المرأة المسلمة 303/1]
(شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ ) اگر تو اس کی پہلے سے یہ عادت ہے تو وہ اسی کے مطابق عمل کرے گی اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ چالیس دن پورے کرنے کے بعد غسل کر کے روزے اور نماز ادا کرے گی۔ [فتاوى المرأة المسلمة 297/1]
(راجع) شیخ محمد بن ابراہیمؒ کا قول ہی رائج معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم )
اس کی کم از کم کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور یہ (احکام ومسائل میں) حیض کی طرح ہے۔
بیشتر دیگر مسائل کی طرح اس میں بھی فقہاء کا اختلاف ہے۔
(شافعیؒ، احمدؒ ) نفاس کی کم از کم کوئی مدت نہیں۔
(ابو حنیفہؒ ، ابو یوسفؒ) اس کی کم از کم مدت گیارہ دن ہے۔
(ثوریؒ) یہ مدت تین دن ہے۔
(زید بن علیؒ ) پندرہ دن مدت کے قائل ہیں۔
(ابن قدامہ حنبلیؒ) اس کی کم از کم کوئی مدت نہیں ہے جب بھی وہ پاکی محسوس کرے تو غسل کرلئے اس کے بعد وہ پاک ہے۔
[الأم 64/1 ، المجموع 228/1 ، المغني 225/1 ، الأصل 458/1]
(راجح) پہلا قول راجح ہے کیونکہ صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والے علماء کا اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن نماز چھوڑیں گی اِلا کہ اس سے پہلے پاکی محسوس کر لیں تو غسل کر کے نماز پڑھیں گی ۔ [نيل الأوطار 414/1 – 415]
اور گذشتہ صفحات میں ایک حدیث میں بھی یہی لفظ بیان کیے گئے ہیں :
و إلا أن ترى الطهر قبل ذلك
”يہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ کم از کم نفاس کی کوئی مدت نہیں ۔“
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
وكانت المرأة من نساء النبى تـقـعـد فى النفاس أربعين ليلة لا يأمرها النبى بقضاء صلاة النفاس
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے (کوئی بھی ) عورت چالیس راتیں انتظار کرتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے حالت نفاس میں چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضائی کا حکم نہیں دیتے تھے۔“
[حسن: صحيح أبو داود 305 ، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى وقت النفساء ، أبو داود 312 ، حاكم 1745/1 ، بيهقي 341/1 ، دارقطني 223/1]
علماء کا اس مسئلے میں اجماع ہے کہ نفاس ان تمام چیزوں میں، جو حلال و حرام ہوں یا مکروہ و مستحب ہوں، حیض کی طرح ہی ہے ۔
[نيل الأوطار 415/1 ، المجموع 520/2]
(صدیق حسن خانؒ) نفاس ”جماع کی حرمت نماز اور روزہ چھوڑنے میں حیض کی طرح ہے۔“ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
[الروضة الندية 192/1]
(شوکانیؒ) یہی بات دوست ہے۔ [السيل الحرار 150/1]
(ابن قدامہ حنبلیؒ) نفاس والی خواتین کا حکم وہی ہے جو حائضہ کا ہے ان تمام اشیاء میں جو اس پر حرام ہوتی ہیں یا اس سے ساقط ہوتی ہیں اور ہمیں اس مسئلہ میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اور یہ (حکم) اس لیے ہے کیونکہ نفاس کا خون فی الحقیقت حیض کا خون ہی ہے، صرف حمل کی مدت میں اس کا خروج اس لیے رک جاتا ہے کیونکہ یہ حمل کی غذا بنا شروع ہو جاتا ہے اور جب حمل وضع ہو جاتا ہے تو یہ دوبارہ خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ [المغنى 432/1]