میت کو کہاں دفن کیا جائے گا؟
سوال:
ہمارا شہر بزرگوں اور پیروں کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور ان کے عقیدت مند و مرید اپنے گاؤں یا شہر کے قبرستان کو چھوڑ کر سینکڑوں میل دور اپنی میت کو ہمارے شہر کے قبرستان میں عقیدت کی بنیاد پر دفن کرتے ہیں۔ ایک میت دفن کرنے کے ساتھ ساتھ کئی نئی قبریں فرضی بنا کر جاتے ہیں تا کہ ان میں اپنی اور میتیں دفن کریں گے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
الجواب :
سنت سے یہی ثابت ہے کہ میت جہاں فوت ہو اسے وہیں (اسی علاقہ میں) دفن کرنا چاہیے۔ جابرؓ سے روایت ہے :
”ہم نے اُحد کے دن مقتولوں کو (جنت البقیع میں) دفن کرنے کے لیے اٹھایا تو ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ مقتولین کو ان کی جائے قتل پر ہی دفن کرو۔“
(سنن ابی داود : ۳۱۶۵، ترمذی: ۱۷۱۷، وقال: ’’حسن صحیح‘‘ نسائی ۷۹/۴، ابن ماجہ :۱۵۱۲)
اسے ابن الجارود (۵۵۳) ابن حبان (۷۷۵،۷۷۴ ) اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔
اس کا راوی شیخ العنزی ثقہ ہے۔
دیکھئے: کتب الرجال و نیل المقصود (۱۵۳۳)
ام المومنین عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کو جب دور سے لا کر مکہ میں دفن کیا گیا تو ام المومنین نے فرمایا:
اگر میں (یہاں) موجود ہوتی تو عبد الرحمن کو وہیں دفن کر دیا جاتا جہاں فوت ہوا تھا۔
(سنن ترمذی ح ۱۰۵۵، مصنف عبدالرزاق ۳/ ۵۱۷ ح ۶۵۳۵ وسنده صحیح واللفظ لہ)
اس قسم کے دیگر آثار بھی ہیں
دیکھئے اسنن الکبری للبہیقی (ج۵۷/۴ ) وغیرہ