نذر پوری نہ کر سکنے پر کفارہ کا شرعی حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

ایک عورت نے نذر مانی کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور بچہ صحیح سالم پیدا ہوا تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گی، اور واقعتاً اس کا حمل پوری مدت تک سالم رہا اور اس نے صحیح سالم بچے کو جنم دیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اب اسے کیا کرنا چاہے ؟

جواب :

یہ بات تو شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ نذر ایک عبادت ہے اور اللہ رب العزت نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا [76-الإنسان:7]
”یہ لوگ نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی۔ “
(یعنی جس کی برائی چاروں طرف پھیلنے والی ہو گی۔ )
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن يعصى الله فلا يعصه [ رواه البخاري، كتاب الايمان باب 28، وأحمد 31/6 و ابوداود، كتاب الايمان باب 19]
”جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نافرمانی کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ “
ایک شخص نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی ایسا بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہو ؟ کہا گیا : ”نہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا ہے ؟ کیا گیا ”نہیں“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اوف بنذرك، فإنه لا وفاء لنذر فى معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم [أبوداؤد كتاب الإيمان والنذور باب 23 ]
”اپنی نذر پوری کر۔ اللہ کی نافرمانی پر مشتمل نذر قطعاً پوری نہیں کرنی چاہئیے اور نہ اس چیز کی نذر کہ جس کا انسان مالک ہی نہیں۔“
سائلہ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے سال بھر کے روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، جبکہ ایک سال کے مسلسل روزے رکھنا زندگی بھر کے روزے رکھنے کے مترادف ہے، جو کہ مکروہ ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے !
من صام الدهر فلا صام ولا أفطر [رواه أحمد / 20 ]
جس نے زندگی بھر روزہ رکھا تو اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ “
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مکروہ عبارت اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے، لہٰذا ایسی نذر پوری نہیں کرنی چاہئیے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لو نذر عبادة مكروهة مثل قيام الليل كله وصيام النهار كله لم يجب الوفاء بهذا النذر [فتاوى ابن تيمية ]
”اگر کسی نے مکروہ عبارت کی نذر مانی مثلاً یہ کہ وہ ہمیشہ رات بھر قیام کرے گا اور ہمیشہ دن کا روزہ رکھے گا تو ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں۔ “
اس اعتبار سے سائلہ پر قسم کا کفارہ واجب ہے، جس کی مقدار دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ہر مسکین کو شہر کی غالب خوراک مثلاً کھجور، چاول وغیرہ سے نصف صاع ( تقریبا ڈیڑھ کلو) دینا ہو گا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنے ہوں گے۔ وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم
(سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے