کپڑے یا بدن پر نجاست کی مقدار اور اس کی تقسیم – تفصیلی شرعی رہنمائی
نجاست کی موجودگی کی شرعی حیثیت
اگر کپڑے یا بدن پر نجاست پائی جائے، اور وہ واقعی شریعتِ اسلامی میں "نجاست” شمار ہو، تو ایسی حالت میں:
◈ اس کا ازالہ واجب ہے۔
◈ معافی صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو اس نجاست کے بارے میں علم نہ ہو، یا اس کے زائل کرنے میں کوئی شرعی یا واقعی عذر ہو۔
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ وَثِيابَكَ فَطَهِّر ﴾…سورة المدثر: آیت 4
’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کرو۔‘‘
یہ حکم عام ہے، یعنی اس میں نجاست کی مقدار (قلیل یا کثیر) کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔ اسی طرح نجاست کو زائل کرنے کے بارے میں جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں، وہ بھی عموم پر دلالت کرتی ہیں، اور ان میں بھی قلیل و کثیر کا فرق مذکور نہیں۔
نجاست کی مقدار کے بارے میں مخصوص آراء کا رد
بعض فقہاء کہتے ہیں:
◈ نجاستِ خفیفہ: چوتھائی کپڑے تک معاف ہے۔
◈ نجاستِ غلیظہ: درہم کے برابر ہو تو معاف ہے۔
لیکن یہ رائے ایسی ہے جس پر نہ کتاب، نہ سنت، اور نہ اجماعِ امت سے کوئی دلیل موجود ہے۔
حدیثِ درہم کے ضعف اور موضوع ہونے پر دلائل
بعض لوگوں نے نجاست کی مقدار کے تعین کے لیے ایک حدیث پیش کی ہے، جو کہ درج ذیل کتب میں مذکور ہے:
دارقطنی (1؍401)
بیہقی (2؍404)
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«تعاد الصلاۃ من قدر الدرہم»
’’درہم جتنی (نجاست سے) نماز لوٹائی جائے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے:
’’جب کپڑے پر بقدر درہم خون لگا ہو تو کپڑا دھویا جائے اور نماز لوٹائی جائے۔‘‘
اس حدیث کے بارے میں محدثین کی آراء:
◈ روح بن غطیف اس کی سند میں ہے، جو متروک راوی ہے۔
◈ امام بخاریؒ نے اسے باطل کہا ہے۔
(الضعفاء للعقیلی، 2؍52)
◈ ابن الجوزیؒ نے اسے ’’الموضوعات‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
◈ امام سیوطیؒ نے ’’اللالی‘‘ میں اس کو برقرار رکھا ہے۔
◈ امام زیلعیؒ نے ’’نصب الرایہ‘‘ (1؍212) میں ابن حبان کے حوالہ سے نقل کیا کہ:
’’اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی نہیں بلکہ کوفہ والوں کی اختراع ہے۔ روح بن غطیف کا کام ہی یہ تھا کہ وہ ثقات کی طرف منسوب کر کے موضوع احادیث روایت کرتا تھا۔‘‘
◈ ایک دوسری سند میں بھی یہی مفہوم آیا ہے، مگر وہ بھی موضوع ہے۔
◈ خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (9؍330) میں ایک اور سند سے یہ حدیث نقل کی، جس میں نوح بن ابی مریم ہے، جو:
➤ متہم بالکذب ہے۔
◈ ابن الجوزیؒ نے کہا:
’’نوح کذاب ہے۔‘‘
مزید حوالے:
نصب الرایہ (1؍212)
اللالی المصنوعہ للسیوطی (1؍3)
السلسلہ الضعیفہ للالبانی (1؍180، حدیث نمبر: 148، 149)
نتیجہ:
نجاستِ غلیظہ کو درہم کی مقدار سے مقید کرنا باطل ہے۔ نجاست سے اجتناب فرض ہے چاہے وہ درہم سے کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ طہارت کے احکام پر دلالت کرنے والی احادیث عام ہیں۔
نجاست کی تقسیم: غلیظہ اور خفیفہ
بعض علماء نے نجاست کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:
نجاستِ غلیظہ:
◈ شراب (خمر)
◈ بہتا ہوا خون (دم مفسوح)
◈ مردار کا گوشت
◈ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا، ان کا پیشاب
◈ کتے کا پاخانہ
◈ قے وغیرہ
نجاستِ خفیفہ:
◈ گھوڑے کا پیشاب
◈ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا پیشاب
اس تقسیم پر شرعی دلائل کا جائزہ:
◈ کتاب و سنت سے اس تقسیم پر کوئی واضح دلیل نہیں۔
◈ شراب کی نجاست پر بھی علماء کا اختلاف ہے:
➤ راجح قول یہ ہے کہ شراب حرام ہے، مگر نجس نہیں۔
اس پر تفصیل دلائل مسئلہ نمبر: 144 میں دی جائے گی۔
◈ خون کی نجاست پر بھی اختلاف ہے:
➤ ہر قسم کا خون نجس نہیں۔
◈ قے کی نجاست پر بھی کوئی واضح دلیل نہیں ہے، تفصیل آگے آئے گی۔
◈ گھوڑے اور ذبح کے قابل جانوروں کے پیشاب کے بارے میں:
➤ تحقیق گزر چکی ہے کہ راجح قول کے مطابق یہ پاک ہے۔
شرعی اصول:
مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر مسئلہ میں:
◈ صرف شرعی دلائل کو بنیاد بنائے۔
◈ ائمہ کرامؒ کے اقوال کی طرف رجوع کرے جب ان کے پاس دلیل ہو۔
◈ نہ صرف اکثر علماء یا جمہور کے اقوال کی طرف جھکے، جب ان کے پاس دلیل نہ ہو۔
نتیجہ
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب