سوشل میڈیا پر ملحدین کی گستاخی اور اس کے نتائج
سوشل میڈیا پر بعض ملحدین مختلف پلیٹ فارمز پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ مواد پوسٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بعض اوقات ایسے ناشائستہ الفاظ اور توہین آمیز اشعار کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کا خون کھولنے لگتا ہے۔ ان افراد کو یہ ادراک نہیں کہ وہ اپنی ایسی حرکات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تو کوئی کمی نہیں کر سکتے بلکہ اپنے کردار کو ہی داغ دار کر رہے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور مقام روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
مغربی میڈیا کی توہین آمیز حرکات اور اس کے اثرات
کچھ سال قبل مغربی میڈیا نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے اور فتنہ انگیز فلمیں بنائیں، تو اس کا اثر یہ ہوا کہ غیر مسلم ممالک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھی جانے والی کتب دھڑا دھڑ فروخت ہوئیں۔ اسلامی مراکز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو جاننے کے لیے لوگ جمع ہونے لگے۔ اسی وقت اہل اسلام کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علمی اور عملی پہلوؤں کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت مزید بڑھ گئی۔
سیرت کی نئی تصانیف کی ضرورت
یہ وقت ایسا تھا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جدید طرز کی تصانیف کی کمی محسوس کی گئی، اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مزید کام کی تحریک پیدا ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور دین کے موضوعات دنیا کے تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان گفتگو کا مرکز بن گئے۔ اس سے یہ بھی ممکن ہوا کہ مسلمانوں کو اپنے نبی کی شخصیت سے دوبارہ متعارف ہونے کا موقع ملا۔
اہل ایمان میں تجدید عقیدت
اس بحران میں مسلمانوں کے دلوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ دشمن نے اس امت کی رگوں میں ایسی زندگی کی جھلک دیکھی جو اس کے اپنے قوموں میں مفقود تھی۔ اس واقعہ سے مسلمانوں نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے دوستی اور دشمنی کا عملی سبق سیکھا۔ اس سے ایک نیا سفر شروع ہوا جو خود کفالت کی جانب تھا، اور یہ دعا ہے کہ یہ سفر جاری رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولنا ایک غیر معمولی شرف ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آپ کی شان سے فروتر بات کرنے والوں کو جواب کسی امتی کی طرف سے ملتا تھا۔ آج بھی یہ امت کا فرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور ناموس کی حفاظت کرے۔
حسان بن ثابت کی مثال
یہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں جو ابو سفیان کو جواب دینے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولتے ہیں اور اس کا صلہ اللہ سے ملنے کی امید رکھتے ہیں:
"وَعِندَ اللّٰہِ فِی ذَاکَ الجَزَاء ھَجَوتَ مُحَمَّداً فَاجَبتُ عَنہُ”
”تم نے محمد ﷺ کی تنقیص کی۔ سنو اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ اس پر میرا صلہ کسی کے دینے کا ہے تو وہ خدائے رب العالمین کی ذات ہے۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے خلاف بولنے والوں کو آئینہ
چاند پر تھوکنے والے کو ہمیشہ آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوگ جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ ان میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نسبت بھی تو ہو!
مغربی معاشرے کی حالت
ان گستاخوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے ماحول سے نکل کر آ رہے ہیں جہاں خاندانی قدریں تباہ ہو چکی ہیں۔ آدھی قوم اپنے والد سے شناسائی نہیں رکھتی، نسب تلاشنے کے لیے "ڈی این اے” کی ضرورت پڑتی ہے، اور معاشرہ انارکی، بے راہ روی، اور جنگ و بربادی کے تحفے دے چکا ہے۔ ایسے ماحول سے نکل کر یہ خدا کے نبیوں کو تہذیب کا درس دینے چلے ہیں؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جواب دینے والے شعراء کی ضرورت
آج ہمیں ان شاعروں اور ادیبوں کی ضرورت ہے جو صرف نعت نہیں بلکہ وقت کے زندیقوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے جواب دینا جانتے ہوں اور اپنی خدمات کا صلہ صرف اللہ سے چاہتے ہوں۔
”خدایا! ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو ”ایمان“ کا لحن دے!“