نبی اکرم ﷺ اور حضرت حمزہ کی عمر کا تاریخی جائزہ

ملحدین کی جانب سے اعتراض

کچھ عرصہ قبل ایک ملحد نے تاریخی روایات کو توڑ مروڑ کر یہ دعویٰ کیا کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عمریں برابر ہونی چاہئیں کیونکہ ان کے والدین کی شادیاں ایک ہی وقت میں ہوئی تھیں، اور اس بنیاد پر یہ جھوٹا نتیجہ اخذ کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے والد حضرت عبداللہ، آپ کے حقیقی والد نہیں تھے۔ نعوذباللہ۔ اس دعوے کے بعد ملحدین نے نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی ذات پر حملے کیے۔

اعتراض کے پیچھے منطق

ملحد نے چند تاریخی حوالوں کو بنیاد بنا کر یہ کہا کہ:

  • حضرت عبداللہ اور حضرت عبدالمطلب نے ایک ہی مجلس میں اپنی شادیاں کیں۔
  • چونکہ شادیاں ایک ساتھ ہوئیں، اس لیے دونوں خواتین (حضرت آمنہ اور ہالہ) کے حمل بھی ایک ساتھ ٹھہرے ہوں گے۔
  • اس سے نتیجہ نکالا کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت حمزہ کی عمر ایک ہونی چاہیے تھی، جبکہ تاریخی روایات کے مطابق حضرت حمزہ نبی اکرم ﷺ سے تین یا چار سال بڑے تھے۔

تاریخی اور عقلی جواب

ملحد کے اعتراض کا جواب دینے سے پہلے، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ:

  • کسی شادی کا ایک وقت میں ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ حمل بھی ایک ہی وقت میں ٹھہرے۔
  • سائنسی اور عقلی طور پر یہ ممکن ہے کہ شادیاں ایک ساتھ ہوں لیکن حمل مختلف اوقات میں ٹھہریں۔

تاریخی حوالہ جات سے اعتراض کا رد

روایات میں بیان کردہ نکاح

کتب تاریخ میں ذکر ہے:

"عبدالمطلب اپنے بیٹے عبداللہ کو لے کر قبیلہ بنی زہرہ گئے اور ان کی شادی آمنہ بنت وہب سے کروائی۔ اسی مجلس میں خود عبدالمطلب نے ہالہ بنت وہب سے نکاح کیا۔”
(طبقات ابن سعد، حصہ اول، باب اخبار النبی، اردو ترجمہ، صفحہ 115)

یہاں صرف نکاح کا ذکر ہے، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا کہ دونوں خواتین کے حمل بھی ایک ساتھ ٹھہرے۔

حمل کے وقت کی وضاحت

ایک اور روایت میں ذکر ہے:

"عبداللہ نے آمنہ سے نکاح کے بعد تین دن انہی کے ساتھ گزارے، کیونکہ اس وقت یہی دستور تھا کہ نکاح کے بعد تین دن دلہن کے گھر رہتے۔”
(طبقات ابن سعد، حصہ اول، باب اخبار النبی، صفحہ 115)

یہ بات بھی ثابت کرتی ہے کہ حضرت عبداللہ اور آمنہ کے درمیان ازدواجی تعلق فوری طور پر قائم ہوا، لیکن حمل کے بارے میں کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔

نورِ نبوی کی منتقلی

روایت میں ذکر ہے:

"حضرت عبداللہ نے آمنہ سے ملاقات کے بعد ان کے ساتھ تعلق قائم کیا، جس کے نتیجے میں نورِ نبوی آمنہ کے رحم میں منتقل ہوا۔”
(سیرت حلبیہ، جلد اول، صفحہ 130)

یہ روایت واضح کرتی ہے کہ حمل کا وقت حضرت آمنہ اور حضرت عبداللہ کی شادی کے فوری بعد ہوا، لیکن حضرت ہالہ کے حمل کے وقت کا ذکر کہیں موجود نہیں ہے۔

اعتراض کہ حمل پہلی ملاقات میں ٹھہرا

ملحد نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حضرت عبداللہ شادی کے فوراً بعد فوت ہوگئے۔ لیکن کتب تاریخ میں یہ بات واضح ہے کہ:

"حضرت عبداللہ کی وفات نبی کریم ﷺ کے حمل ٹھہرنے کے چند ماہ بعد ہوئی۔”
(سیرت حلبیہ، جلد اول، صفحہ 170)

یہاں تک کہ بعض روایات میں ذکر ہے:

"حضرت عبداللہ کی وفات نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے دو ماہ بعد ہوئی۔”
(سیرت حلبیہ، جلد اول، صفحہ 177)

یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے شادی کے بعد کئی ماہ بلکہ سال گزارے۔

حضرت آمنہ کے پچھلے حمل

ایک اور اہم حوالہ ملتا ہے:

"حضرت آمنہ فرماتی تھیں کہ اس حمل سے پہلے بھی کئی بار مجھے حمل ٹھہرا، لیکن وہ مکمل نہ ہو سکے۔”
(طبقات ابن سعد، حصہ اول، باب اخبار النبی، صفحہ 119)

یہ بیان واضح کرتا ہے کہ حضرت آمنہ کو پہلے کئی حمل ضائع ہوئے، اور نبی اکرم ﷺ کے حمل میں اللہ کی خصوصی حکمت شامل تھی۔

حضرت حمزہ اور نبی اکرم ﷺ کی عمروں میں فرق

تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت حمزہ نبی اکرم ﷺ سے دو یا چار سال بڑے تھے۔

"جنگِ احد کے وقت حضرت حمزہ کی عمر 56 سال تھی، اور نبی اکرم ﷺ کی عمر 52 سال تھی۔”
(سیرت حلبیہ، جلد اول، صفحہ 170)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کی پیدائش میں کئی سال کا فرق تھا، جو ملحد کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔

ملحدین کے جھوٹے دعوے کا طریقہ

ملحدین کا طریقہ واردات یہ ہے کہ:

  • تاریخی روایات کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
  • بغیر ثبوت کے جھوٹے نتائج نکالتے ہیں۔
  • مسلمانوں کو کنفیوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نتیجہ

ملحد کا یہ دعویٰ کہ نبی اکرم ﷺ اور حضرت حمزہ کی عمریں برابر ہونی چاہئیں، تاریخی اور عقلی دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ یہ صرف اسلامی تاریخ اور شخصیات کے خلاف ایک سازش ہے، جسے علم کے ذریعے آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے