میت کے پاس قرآن پڑھنے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ج1ص73

سوال:

جب کسی میت کو چادر سے ڈھانپ دیا جائے اور لوگ اس کے آس پاس بیٹھ کر قرآن پڑھیں، تو کیا یہ عمل سنت مطہرہ سے ثابت ہے؟

الجواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

میت کے پاس قرآن پڑھنے کا کوئی مضبوط شرعی ثبوت نہیں ہے، اور اس عمل کو مستقل سنت سمجھنا یا اس پر التزام کرنا بدعت ہے۔

قبر کے پاس قرآن پڑھنے کا حکم

قبر کے پاس قرآن پڑھنے کا ذکر "کتاب الجنائز” میں کیا گیا ہے، اور یہ بدعت شمار ہوتا ہے۔
اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ دلائل ذکر کیے جا چکے ہیں کہ یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں۔

جان کنی کے وقت اور میت کے پاس قرآن پڑھنے کے آثار

بعض آثار میں اس کا ذکر ملتا ہے، مگر وہ قابل اعتماد نہیں۔

📖 ابن ابی شیبہ (3/236) میں روایت ہے:

"مجاہد اور شعبی سے روایت ہے کہ انصار میت کے پاس سورۃ بقرہ پڑھتے تھے۔”

لیکن اس روایت میں "مجاہد” کا حافظہ آخری عمر میں متغیر ہو گیا تھا، جیسا کہ "تقریب التہذیب” میں مذکور ہے، لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔

سورۃ یٰسین پڑھنے والی حدیث کا ضعف

📖 معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اپنے مردوں کے پاس سورۃ یٰسین پڑھو۔”
📖 (ابن ابی شیبہ: 2/237، مسند احمد: 5/26، مشکوٰۃ: 1626)

یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ:
اس کی سند میں "ابو عثمان” اور ان کے والد مجہول راوی ہیں۔
حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں، جیسا کہ محدثین نے وضاحت کی ہے۔

میت کے پاس قرآن پڑھنے کا حکم

یہ عمل کسی بھی قوی دلیل سے ثابت نہیں، اس لیے اسے سنت سمجھ کر مستقل عمل بنانا درست نہیں۔
اگر لوگ اس پر التزام کریں، خاص طور پر عوام اور عورتیں، اور اسے واجب یا ضروری سمجھیں، تو یہ بدعت میں شمار ہوگا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بکثرت اموات ہوئیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، یا صحابہ کرام سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
اگر یہ واقعی مستحب یا باعثِ ثواب عمل ہوتا، تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اسے اختیار کر چکے ہوتے۔

کیا سورۃ یٰسین پڑھنے میں کوئی حرج ہے؟

اگر کوئی شخص نزولِ رحمت اور برکت کی نیت سے سورۃ یٰسین پڑھتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، مگر اسے مستقل حکم یا سنت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

📖 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے "تفسیر ابن کثیر” (3/26، 563) میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک:

"سورۃ یٰسین کی خاصیت میں سے ہے کہ اگر اسے کسی مشکل وقت میں پڑھا جائے تو اللہ تعالیٰ آسانی فرما دیتے ہیں، اور اگر میت کے پاس رحمت و برکت کے لیے پڑھی جائے، تو اللہ رحم فرماتا ہے۔”

تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ عمل شریعت میں ثابت شدہ سنت ہے، بلکہ یہ ایک رخصت یا ممکنہ فائدہ ہو سکتا ہے۔

نتیجہ

میت کے پاس قرآن پڑھنے کا کوئی قوی اور صحیح حدیث سے ثبوت نہیں۔
اس عمل کو لازمی سمجھنا، خاص طور پر عوام اور خواتین میں اسے رواج دینا بدعت ہے۔
اگر کوئی شخص سورۃ یٰسین نزولِ رحمت اور برکت کی نیت سے پڑھ لے، تو یہ جائز ہے، مگر اس کا سنت ہونا ثابت نہیں۔
اصل تعلیم یہی ہے کہ میت کے لیے دعا کی جائے اور اس کے لیے مغفرت طلب کی جائے، کیونکہ یہی سنت سے ثابت ہے۔

📖 (ابن ابی شیبہ، مسند احمد، مشکوٰۃ، تفسیر ابن کثیر، احکام الجنائز)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1