سوال
کیا میت کے دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا شرعاً جائز ہے؟ ہمارے برادران احناف کا یہ معمول ہے کہ میت کو قبر میں دفنانے کے بعد اذان دی جاتی ہے، اور وہ اس کے جواز کے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہیں۔
جواب
میت کے دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا شرعاً ثابت نہیں اور یہ عمل بدعت شمار ہوتا ہے۔ دین میں ہر معاملہ دلیل شرعی پر منحصر ہے، اور دفن کے بعد قبر پر اذان کے حوالے سے کوئی صحیح دلیل قرآن یا حدیث میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ عمل بدعت اور گمراہی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد”
(صحیح بخاری و مسلم)
"جو شخص ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کرے جو اس میں شامل نہیں، تو وہ مردود ہے۔”
دفن کے بعد اذان دینے کا کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں ہے، اور جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں، وہ ایک بدعت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس عمل کا کوئی صحیح طریقہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی خلفائے راشدین یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کا غلط حوالہ
بعض لوگ اس عمل کے جواز کے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے اس طرح کے کسی عمل کا کوئی ثابت شدہ ثبوت نہیں ملتا۔ علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی واضح تردید کی ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عمل کو جائز کہا ہو۔ بلکہ انہوں نے تصریح کے ساتھ اس بات کو رد کیا ہے کہ دفن کے بعد اذان دینا شریعت میں کہیں جائز ہو۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "شرح عباب” میں شوافع مقلدین کی اس رائے کو واضح طور پر رد کیا ہے کہ قبر پر اذان دینا جائز ہے۔ اور اس کے بدعت ہونے پر زور دیا ہے۔
فتاویٰ شامی اور رد المختار جیسے کتبِ فقہ میں بھی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ میت کے دفن کے بعد اذان دینا مروج عمل نہیں ہے، اور یہ ایک بدعت ہے۔
خلاصہ
➊ میت کے دفن کے بعد قبر پر اذان دینا شرعاً ثابت نہیں اور یہ ایک بدعت ہے۔
➋ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دینا غلط اور بے بنیاد ہے۔
➌ میت کے دفن کے بعد اذان کے حوالے سے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے، اور ایسا عمل دین میں نئی چیز پیدا کرنے کے مترادف ہے، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردود قرار دیا ہے۔