قریبی رشتہ دار دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں جبکہ میت اس کی جنس (یعنی صنف) سے ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليله أقربكم إن كان يعلم فإن كان لا يعلم فمن ترون عنده حظا من ورع وأمانة
”میت کو غسل دینے کا سب سے زیادہ مستحق اس کا سب سے زیادہ قریبی ہے بشرطیکہ اسے (اس کے صحیح طریقہ کار کا) علم ہو ، لیکن اگر علم نہ ہو تو پھر جسے تم سمجھو کہ اس کے پاس تقوی و امانت کا کچھ حصہ موجود ہے (وہ غسل دے) ۔“
[أحمد: 119/6 ، بيهقي: 396/3 ، طبراني أوسط كما فى المجمع: 407/2 ، اس كي سند ميں جابر جعفی راوي هے جس ميں بهت زياده كلام هے۔ نيل الأوطار: 674/2]
اگرچہ یہ حدیث قابل حجت نہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ قریبی رشتہ دار ہی محبت ، شفقت ، راز کی باتیں چھپانے میں زیادہ امین اور مکمل توجہ کے حامل ہونے کی وجہ سے زیادہ مستحق ہیں۔ والله اعلم
علاوہ ازیں ایک جنس کا ہونا سوائے استثنائی صورتوں کے قابل عمل ہے جیسا کہ گذشتہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کوعورتوں نے غسل دیا۔
[بخاري: 1235]
(شوکانیؒ ) دور نبوی اور دور صحابہ میں مردوں کو مرد اور عورتوں کو عورتیں ہی غسل دیا کرتی تھیں ۔
[السيل الجرار: 344/1]
(البانیؒ) استثنائی صورتوں کے علاوہ مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو غسل دیں۔
[أحكام الجنائز: ص/ 65]