میت دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس سورۃ البقرۃ پڑھنا ؟
تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

میت دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس سورۃ البقرۃ پڑھنا ؟

سوال

مجھے ایک دوست نے ایک حدیث میسیج (Message) کی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب تم میں سے کوئی مرجائے تو اس کو بند نہ رکھو بلکہ قبر کی طرف اُسے جلدی لے جاؤ اور چاہئے کہ دفن کے بعد اُس کے سرہانے پڑھا جائے سورہ بقرہ کا اول بقرہ کا آخر پاؤں کی طرف پڑھا جائے۔
مشکوۃ حدیث نمبر ۱۲۲۵ جلد

آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟
(محمد یعقوب مہلو تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک)

الجواب

یہ روایت مشکوۃ کے ہمارے نسخے میں بحوالہ شعب الایمان للبیہقی مذکور ہے۔
(ج اص ۵۵۹ ح ۱۷۱۷)

شعب الایمان میں اس کی سند درج ذیل ہے:
أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان : أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار : حدثنا أبو شعيب الحراني : حدثنا يحيى بن عبد الله البابلتي : حدثنا أيوب بن نهيك الحلبي مولى آل سعد بن أبي وقاص قال : سمعت عطاء بن أبي رباح سمعت عبد الله بن عمر ، سمعت النبي ﷺ له يقول.
(ح۹۲۹۴ نسخه جدیدہ محققه : ۸۸۵۴)

یہ روایت ابو شعیب کی سند کے ساتھ المعجم الکبیر للطبرانی (۱۴/ ۴ ح ۱۳۶۱۳) اور القراءة عند القبور للخلال (ح ۲) میں بھی مذکور ہے۔

اس سند میں دو راوی مجروح ہیں:
➊ یحی بن عبداللہ بن الضحاک البابلتی کے بارے میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا :
ضعیف
(تقریب التہذیب: ۷۵۸۵)

بیہقی نے فرمایا:
ضعیف
(السنن الکبری ۲۹۵/۴)

حافظ ذہبی نے فرمایا:
واہٍ
یعنی ضعیف ہے۔
(المغنی فی الضعفا ۲ / ۵۲ ت ۷۰۰۳ )

ہیشمی نے فرمایا:
وهو ضعيف
(مجمع الزوائد ۳۳/۳)

ان کے علاوہ متقدمین میں سے ابو حاتم الرازی اور ابن عدی و غیر ہما نے بھی اس البابلتی پر جرح کی ہے۔

➋ ایوب بن نہیک الحلبی کے بارے میں ابو حاتم الرازی نے فرمایا:
هو ضعيف الحديث

ابوزرعہ الرازی نے فرمایا :
هو منكر الحديث
(کتاب الجرح والتعدیل ۲/ ۲۵۹ت ۹۳۰)

حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا :
وهو منكر الحديث قاله أبو زرعة
(فتح الباری ۲/ ۲۰۹ تحت ح ۹۳۰)

حافظ ذہبی نے فرمایا :
ترکوہ
یعنی وہ متروک ہے۔
(دیوان الضعفاء / ۰۶ است ۵۳۵، المغنی فی الضعفا ءا / ۵۱ است ۸۳۷)

ہیثمی نے فرمايا :
و فيه أيوب بن نهيك وهو متروك ضعفه جماعة و ذكره ابن حبان في الثقات و قال : يخطي
(مجمع الزوائد ۱۸۴/۲)
جمہور کی جرح کے بعد ایوب بن نہیک کا ایک کتاب الثقات میں مذکور ہونا شاذ و غلط ہے اور جمہور کا فیصلہ ہی مقدم ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ کی مسئولہ روایت سخت ضعیف و مردود ہے، نیز اس باب میں موقوف روایت بھی عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(۱۱/ اگست ۲۰۱۲)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!