میت اور کفن کو خوشبو لگانے کے فضائل
تحریر: عمران ایوب لاہوری

میت کے جسم اور کفن کو خوشبو لگانا بہتر ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أجمرتم الميت فأجمروه ثلاثا
”جب تم میت کو دھونی دو (یعنی خوشبو لگاؤ ) تو تین مرتبہ دو ۔“
[صحيح: احمد: 331/3 ، أبو يعلى: 2300 ، حاكم: 355/1 ، بزار: 813 ، بيهقي: 405/3 ، امام نوويؒ نے اس كي سند و صحيح كها هے ۔ المجموع: 155/5 ، امام حاكمؒ نے اسے مسلم كي شرط پر صحيح كها هے اور امام ذهبيؒ نے بهي اس كي موافقت كي هے۔ ذكره الهيثمي فى المجمع: 29/3]
یہ حکم محرم شخص کے لیے نہیں ہے کیونکہ وہ محرم جو اپنی سواری سے گر کر موت سے دو چار ہوا تھا اس سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ولا تطيبوه ”اسے خوشبو مت لگاؤ۔“ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں ولا تحنطوه ”اسے حنوط (مردوں کی خوشبو) نہ لگاؤ۔“ اور ایک اور روایت میں یہ ہے کہ ولا تمسوه طيبا ”اور اسے خوشبو نہ لگاؤ ۔“
[بخاري: 1267 ، كتاب الجنائز: باب كيف يكفن المحرم ، مسلم: 1206 ، أبو داود: 3238 ، ترمذي: 951 ، نسائي: 144/5 ، ابن ماجة: 3084 ، دارمي: 50/2 ، أحمد: 220/1 ، دارقطني: 296/2 ، بيهقى: 390/3]
اس روایت میں خوشبو سے ممانعت کا سبب یہ بتلایا گیا ہے کہ :
فان الله يبعثه يوم القيمة ملبيا
”بے شک اللہ تعالیٰ اسے تلبیہ کہتے ہوئے ہی روز قیامت اٹھائیں گے ۔“
[أيضا]
چونکہ وہ شخص حالت احرام میں اٹھایا جائے گا اور حالت احرام میں خوشبو لگانا منع ہے اس لیے اس کی میت کو بھی خوشبو لگانے سے روکا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1