مکہ کعبہ اور زمزم کے اعتراضات کے جوابات

اعتراضات اور ان کے جوابات

اعتراض 1: توحید کے گھر میں بت پرستی کیسے آئی؟

اعتراض کا خلاصہ:

معترض کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو توحید کا مرکز بنایا، پھر اس میں بت پرستی کیسے رائج ہوئی؟
اگر کسی نے کعبہ پر قبضہ کر کے بت رکھے، تو تاریخ میں ایسا واقعہ کیوں مذکور نہیں؟

جواب:

یہ درست ہے کہ تاریخ میں کعبہ پر کسی چڑھائی یا قبضے کا ذکر نہیں، کیونکہ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں۔
بت پرستی عرب میں بتدریج رائج ہوئی، اور اس کی ابتدا بنی خزاعہ کے سردار عمرو بن لحی کے ہاتھوں ہوئی، جو شام کے سفر پر گیا اور وہاں بت پرستی دیکھی۔

شام انبیاء کی سرزمین تھی، اس لیے عمرو بن لحی نے سمجھا کہ بت پرستی ایک حق مذہب ہے۔ وہ ایک بت ہُبل لے کر آیا اور کعبہ میں نصب کر دیا۔
اہل مکہ نے اس کی تقلید کی، اور پھر عرب کے دیگر علاقوں میں بھی شرک پھیل گیا۔
(حوالہ: کتاب الاصنام، ابن الکلبی، صفحہ 28)

اعتراض 2: زمزم کے کنویں کا تاریخی وجود

اعتراض کا خلاصہ:

معترض کا کہنا ہے کہ اگر زمزم کے ساتھ مقدس روایات وابستہ ہیں، تو جرہم قبیلے کے جانے کے بعد اہل مکہ نے اسے دوبارہ کیوں نہیں کھودا؟
اور عبدالمطلب کے ذریعے ہی اس کی نشاندہی کیوں ہوئی؟

جواب:

یہ اعتراض غیر معقول ہے اور اسلامی تاریخ کے بنیادی علم سے بھی متصادم ہے۔
ابن اسحاق کے مطابق، جرہم قبیلے نے شکست کے وقت زمزم کنویں کو ریت اور مٹی سے بند کر دیا تھا اور اس میں سونے کے مجسمے اور حجر اسود چھپا دیے تھے۔
قریش کے لوگوں کو وقت کے ساتھ اس کنویں کی جگہ یاد نہ رہی۔ بعد میں، نبی کریم ﷺ کے دادا عبدالمطلب کو خواب کے ذریعے کنویں کی جگہ کی نشاندہی ہوئی، اور انہوں نے اسے دوبارہ کھودا۔
(حوالہ: سیرت النبی، ابن اسحاق، اشاعت محمدیہ یونیورسٹی، صفحہ 64)

اعتراض 3: مکہ اور کعبہ کا تاریخی وجود

اعتراض کا خلاصہ:

معترض کا کہنا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی تک مکہ کا ذکر کسی تاریخی کتاب میں نہیں ملتا، اور قرآن میں ذکر کردہ "بکہ” کو بائبل میں موجود ایک وادی "بکا” سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے، جو حقیقت میں یروشلم کی ایک وادی ہے۔

جواب:

بکہ کا ذکر:
مکہ کا قدیم نام بکہ تھا، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا
"یقیناً سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ۔”

(آل عمران 3:96)

زبور 84 کی آیت 6 میں "وادی بکہ” کا ذکر آیا ہے:

"بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ہیں، اور برکتوں سے مورو کو ڈھانپ لیتے ہیں۔”

یہ عبارت واضح طور پر مکہ مکرمہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مکہ کی تاریخی شہادتیں:

  • پروفیسر ڈوزی، ایک مشہور فرانسیسی محقق، لکھتے ہیں:
    "بکہ وہی مقام ہے جسے یونانی جغرافیہ دان ‘ماکروبہ’ لکھتے ہیں۔”
    (حوالہ: جدید انسائیکلوپیڈیا، جلد 7، صفحہ 392)
  • رومن مؤرخ سیسلس نے مکہ اور کعبہ کا ذکر کیا ہے اور لکھا:
    "یہ دنیا کے تمام معبدوں سے قدیم اور اشرف ہے۔”
    (حوالہ: کارلائل، ہیروز اینڈ ہیروورشپ)
  • بطلیموس، ایک قدیم جغرافیہ دان، نے اپنے جغرافیہ میں مکہ کو واضح طول و عرض کے ساتھ بیان کیا:
    "طول: 78 درجہ، عرض: 13 درجہ۔”
    (حوالہ: یاقوت حموی، معجم البلدان)

اعتراض 4: بائبل اور دیگر مذاہب میں مکہ اور زمزم کا ذکر

جواب:

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور اہلیہ حضرت ہاجرہ کو اللہ کے حکم سے ایک بنجر وادی (مکہ) میں چھوڑا، جیسا کہ بائبل میں بیان ہوا:

"اور جب مشک کا پانی ختم ہوگیا، تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا… تب خدا نے اُس کی آنکھیں کھول دیں اور اُس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا۔”
(پیدائش، باب 21، آیات 15-19)

یہ واقعہ زمزم کے چشمے کا حوالہ ہے۔ اسی طرح، زبور اور یسیعاہ کی کتاب میں بھی مکہ اور زمزم کے متعلق اشارے موجود ہیں، لیکن وقت کے ساتھ تحریفات کی وجہ سے اس کی اصل حقیقت چھپانے کی کوشش کی گئی۔

اعتراض 5: سائنسی علوم مذاہب کو رد کر رہے ہیں

جواب:

یہ بات بے بنیاد ہے۔ دنیا بھر میں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے، اور اسلام قبول کرنے والے زیادہ تر افراد جدید تعلیم یافتہ اور سائنسی پس منظر رکھتے ہیں۔
سائنسی علوم تعصب سے پاک ہو سکتے ہیں، لیکن ان علوم کا تعصب کے لیے استعمال کوئی نئی بات نہیں۔
مستشرقین اور معترضین، تاریخ اور سائنسی دلائل کو اپنی مرضی سے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔

نتیجہ

مکہ، کعبہ، اور زمزم کا تاریخی وجود قرآن، حدیث، بائبل، اور دیگر تاریخی ذرائع سے واضح ہے۔
اعتراضات اکثر لاعلمی، سیاق و سباق سے ہٹ کر حوالہ دینے، اور تعصب کی وجہ سے اٹھائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تاریخ اور مذہبی معلومات پر گہری نظر رکھیں تاکہ ایسے اعتراضات کا بھرپور جواب دے سکیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1