مولوی کا کام اور دائرہ کار
مولوی کا بنیادی کام دین سکھانا، قرآن و سنت کی تعلیم دینا اور لوگوں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا ہے۔
مولوی نے ہمیشہ اپنے دائرہ کار کا لحاظ کیا ہے اور وہ بلاوجہ دیگر شعبہ جات میں مداخلت نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ مولوی کے ذریعے دین کے احکامات آج بھی 1400 سال بعد ویسے ہی قابلِ عمل ہیں جیسا کہ آغازِ اسلام میں تھے۔
اعتراض کی حقیقت
یہ سوال یا اعتراض کہ "مولوی نے کون سی ایجاد کی؟” درحقیقت طنز کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ سائنسی ایجادات کرنا مولوی کی ذمہ داری نہیں۔
اگر اسی اصول کو الٹ دیا جائے، تو سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ "کیا کسی سائنسدان نے قرآن کی تفسیر لکھی، احادیث کی شرح کی، یا فقہی مسائل میں کوئی پیش رفت کی؟”
یہ کام سائنسدان کا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے سائنسی ایجادات مولوی کا کام نہیں۔
دین اور دنیاوی ترقی کا تعلق
مولوی کا کردار لوگوں کو دین کے احکامات پر مطمئن کرنا اور دینی شعور پیدا کرنا ہے، تاکہ وہ روحانی سکون حاصل کرکے دنیاوی معاملات میں بھی کامیابی حاصل کریں۔
مولوی نے ہمیشہ اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا ہے، جبکہ دنیاوی ایجادات کی ذمہ داری عصری علوم حاصل کرنے والوں پر ہے۔
ماضی کے مسلمان سائنسدان: دین اور سائنس کا امتزاج
خالد بن یزید بن معاویہ
ماضی میں کئی ایسے مسلمان سائنسدان گزرے ہیں جو دین کے ساتھ سائنسی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
خالد بن یزید بن معاویہ بن ابو سفیان رحمہ اللہ کا ذکر قابلِ مثال ہے، جو کہ علم حدیث، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ طب، کیمیا اور لسانیات میں بھی ماہر تھے۔
- ابن خلکان لکھتے ہیں: "زمانہ اسلام میں علم طب میں سب سے پہلے مشہور ہونے والے شخص خالد بن یزید تھے۔”
- البیرونی نے انہیں اسلام کا پہلا حکیم قرار دیا۔
- مستشرق پروفیسر ہٹی نے خالد بن یزید کو اسلام کا پہلا سائنسدان اور فلسفی کہا۔
- کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر براون کے مطابق خالد بن یزید نے یونانی علوم کو عربی زبان میں ترجمہ کروایا اور خود بھی ماہر لسانیات ہونے کے ناطے ان تراجم کی نگرانی کی۔
"گریک فائر” کی ایجاد
خالد بن یزید نے اپنی تجربہ گاہ میں کئی سائنسی ایجادات کیں، جن میں "گریک فائر” کا آتش گیر مادہ مشہور ہے۔
یہ ایک ایسا کیمیکل تھا جو قلعوں اور جہازوں کو فوری جلا دیتا تھا۔ رومی اسے "مسلم اژدہا” کہتے تھے۔
معترضین کے لیے پیغام
مولوی سے صرف وہی امید رکھیں جس کے لیے وہ تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہے۔
اگر ایجادات کی کمی پر اعتراض ہے، تو یہ عصری علوم کے ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں پیش رفت کریں۔
مولوی نے کبھی یورپ سے ٹیکنالوجی مستعار نہیں لی، بلکہ اپنی علمی صلاحیتوں سے دین کی خدمت انجام دی۔