حقیقت کا انکار اور علم کی محدودیت
مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق، کسی حقیقت کے عدمِ علم کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حقیقت موجود نہیں۔ جیسے کہ دواؤں کی تاثیر یا ان کے خواص کا علم کسی خاص دور میں دریافت ہوا، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دوا یا اس کی تاثیر پہلے موجود نہ تھی۔ اسی طرح، انسانی شکوک و شبہات، کفر اور انکار کا علاج ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن حقیقت مستقل رہتی ہے۔
(تذکرہ، صفحہ ۳۷-۲۳۶)
شک اور کامیابی کا تعلق
مولانا فرماتے ہیں کہ شک اور غفلت کا روگ لے کر دنیا میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ دنیا کی کسی بھی کامیابی کو پانے کے لیے ایمان، حق، اور قربانی کا جذبہ ضروری ہے۔ خدا کا کائناتی نظام اس اصول پر مبنی ہے کہ کامیابی انہی کو ملتی ہے جو اس کے قانون پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص غفلت کی حالت میں کامیابی کا خواب دیکھتا ہے تو وہ اپنی بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
(خطبات آزاد، صفحہ ۶۱)
شک اور ہدایت کے درمیان رشتہ
مولانا کے مطابق انسان میں شک و شبہات اور انکار کا مرض اس کی فطری سوچ کے بگاڑ سے پیدا ہوتا ہے۔ تاہم، قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں یہ عارضی کیفیت دور ہو سکتی ہے۔ جس طرح ہدایت اور یقین ایک تسلسل کے ساتھ آتے ہیں، اسی طرح شک اور انکار بھی ایک جیسے انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔
(تذکرہ، صفحہ ۲۵-۲۲۴)
عقل، ماورائے عقل اور جہالت
مولانا آزاد کی نظر میں، عقل انسانی دماغ کی حدود کے اندر تمام باتوں کو سمجھ سکتی ہے۔ کسی بات کے "ماورائے عقل” ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ "خلاف عقل” ہے۔ حقیقت کو جھٹلانا صرف اس لیے کہ وہ انسانی فہم سے باہر ہے، علمی کمزوری کی نشانی ہے۔ علم اور بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حقیقت اور وہم میں تمیز کرے، اور بغیر سمجھے کسی بات کو ماننے یا جھٹلانے سے بچے۔
قرآن نے دونوں رویوں کو مذمت کا نشانہ بنایا ہے: ایک تو بغیر علم کے کسی بات کو تسلیم کرنا، اور دوسرا صرف اس بنیاد پر جھٹلا دینا کہ وہ انسانی فہم سے بالاتر ہے:
"بل کذبوابمالم یحیطوابعلمہ”
"بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کا وہ علم نہیں رکھتے۔”
(ترجمان القرآن، جلد سوم، صفحہ ۵۸۹)
(افکار آزاد، صفحہ ۷۵-۱۴۷)
قلب و روح کی بیماریاں اور ان کا علاج
مولانا کے مطابق، قلب و روح کی تمام بیماریوں کی بنیاد دو ہی ہیں:
- الحاد و انکار
- توہم و سفسطائیت
یہ دونوں بیماریاں شک، جہالت، اور اضطراب کا باعث بنتی ہیں، اور انسان کے قلبی سکون کو ختم کر دیتی ہیں۔ ان امراض کا علاج صرف وحی الٰہی اور حکمت نبوت سے ممکن ہے۔ قرآن کا مقصد انسان کو شک کی ظلمت سے نکال کر یقین اور بصیرت کی روشنی میں لانا ہے۔ جو علوم خود شک اور گمان پر مبنی ہوں، وہ گمراہی میں مبتلا افراد کے لیے رہنمائی کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔
(تذکرہ، صفحہ ۹۲-۱۸۵۵)