عن صفوان بن عسال، قال: ((كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يأمرنا إذا كنا سفرا أن لا تنزع خفافنا ثلاثة أيام وليا ليهن إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم)) [صححه الترمذي بعد تخريحه]
صفوان بن عسال سے روایت ہے کہتے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم مسافر ہوتے تو ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ اپنے موزے تین دن اور تین راتیں نہ اتاریں سوائے جنابت کے لیکن بول و براز اور نیند سے اتارنے کا حکم نہ تھا ۔ ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
تحقیق و تخریج : حدیث حسن ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 239/4 240 نسائی: 1/ 84 ترمذی: 96 ترمذی نے کہا: یہ: حدیث حسن صحیح ہے ۔ ابن ماجه: 478 ابن خزیمه: 196 ابن حبان: 179 ، البيهقي: 1/ 114 الدارقطنی: 1/ 197 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس باب میں سب سے بہتر حدیث صفوان بن عسال راوی کی ہے اس سے ترمذی نے نقل کیا ۔
وعن عروة بن المغيرة عن أبيه قال: كنت مع النبى صلی اللہ علیہ وسلم فى سفر فأهويت لأنزع خفيه فقال: ((دعهما فإني أدخلتهما طاهرتين فمسح عليهما )) [لفظ رواية البخاري]
عروہ بن مغیرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا میں نے ارادہ کیا کہ آپ کے موزے اتار دوں آپ نے ارشاد فرمایا: ”انہیں رہنے دیجیے میں نے پاکیزہ پاؤں اس میں داخل کیے ہیں (یعنی با وضو پہنے ہیں) آپ نے ان پر مسح کیا۔“ لفظ بخاری کی روایت کے ہیں ۔
تحقیق و تخریج: بخاری: 5799٬206 ، مسلم: 274
وعن شريح بن هاني قال: أتيت عائشة أسألها عن المسح على الخفين، فقالت: عليك بابن أبى طالب فاسأله فإنه كان يسافر مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فسألناه فقال: ((جعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم )) [أخرجه مسلم]
شریح بن ہانی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تاکہ ان سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کروں ، انہوں نے فرمایا کہ آپ ابن ابی طالب سے پوچھیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے ہم نے ان سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن ایک رات کی اجازت دی ہے ۔“ (یعنی مذکورہ مدت میں موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے) مسلم۔
تحقيق و تخریج: مسلم: 272 ۔
وعن زبيد بن الصلت، قال: سمعت عمر يقول : ((إذا توضأ أحدكم ولبس خفيه فليمسح عليهما، وليصل فيهما ولا يخلعهما إن شاء إلا من جنابة ))
زبید بن صلت سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرماتے ہیں: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اس نے موزے پہن رکھے ہوں ، تو وہ ان پر مسح کر لے اور انہی میں نماز ادا کر لئے اور انہیں اگر وہ چاہے تو نہ اتارے مگر جنابت سے۔“ (یعنی بصورت جنابت اتارنا ہوں گے)۔
رواه الدار قطنيي من جهة أسد بن موسى وفيه قال: و حدثنا حماد بن سلمة عن عبيد الله بن أبى بكر وثابت عن أنس، عن النبى صلى الله عليه وسلم مثله
دارقطنی نے اسد بن موسیٰ کے حوالے سے روایت کیا کہتے ہیں کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے عبید اللہ بن ابی بکر سے ثابت سے حضرت انس کے حوالے سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت بیان کی ۔
وأسد بن موسى وثقه الكوفي والنسائي والبزار وقال الحاكم فى ((المستدرك)) بعد ذكر حديث عقبة بن عامر: ((خرجت من الشام وقد روي عن أنس مرفوعا بإسناد صحيح رواته عن آخرهم ثقات إلا أنه شاد بمرة ثم أخرج حديث أنس المقتدم، وقال فيه: على شرط مسلم
اسد بن موسیٰ کو کوئی نسائی اور بزار نے ثقہ قرار دیا ، حاکم نے مستدرک میں عقبہ بن عامر کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہا: میں شام سے روانہ ہوا ۔ حضرت انس سے مرفوع صحیح سند کے ساتھ روایت کی اس کے سارے راوی ثقہ ہیں سوائے اس کہ کہ وہ شاذ ہے پھر حضرت انس کی سابقہ حدیث بیان کی اور اس میں کہا: یہ مسلم کی شرط پر ہے ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث شاذ ہے ۔ دارقطنی: 1/ 203 حضرت عمر سے مرفوع اور حضرت انس سے موقوف روایت ہے ۔ البیهقی: 279/1 ، مستدرك حاكم: 1/ 181‘ حاکم نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے ۔ علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی اور کہا کہ یہ حدیث شاذ ہے ۔ نصب الرایۃ دیکھئے: نصب الراية 179/1 180 .
فوائد:
➊ سردی سے بچتے ہوئے موزے یاجرابیں ڈالنا یا پھر کسی اور عارضے کی وجہ سے جرابیں موزے وغیرہ ڈالنا جائز ہیں ۔ موزوں اور جرابوں پر مسح سنت ہے ۔ وضوء کر کے ان کو ڈالا جائے ۔ ایک مقیم آدمی ایک دن اور ایک رات اور مسافر تین دن تین راتیں موزوں کو پہنے رکھ سکتا ہے موزے ایسے ہوں جس سے پاؤں کا چمڑا نظر نہ آئے ۔ بالکل باریک نہ ہوں ۔
➋ اگر غسل جنابت واجب ہو جائے تو پھر اتار دینے چاہئیں خواہ ڈالے ہوئے ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ گزرا ہو ڈالنے کے بعد اگر اتار لیے تو مسح باقی نہ رہے گا ۔
➌ اگر پیشاب پاخانہ یانیند آجائے تو اس سے بھی مسبح باطل نہیں ہوتا صرف باقی اعضاء دھونے ضروری ہیں مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ تر کر کے پاؤں کی انگلیوں سے لے کر پنڈلی تک پھیریں ۔ مسح ہمیشہ پاؤں کے اوپر سے ہوتا ہے نیچے سے نہیں ۔
➍ اسی طرح اگر پاؤں پر زخم ہو موزے نہ بھی ہوں تو پھر بھی ہلاکت سے بچنے کی غرض سے زخم والی جگہ پر مسح کیا جا سکتا ہے ۔
➎ اپنے کسی محترم یا بڑے عالم کی خدمت کرنا اچھی عادت ہے ۔ نیک روح انسان کے جوتے یا موزے آگے بڑھ کر اتارنا درست ہے جیسے عروہ رضی اللہ عنہ نے جھک کر رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے موزے اتارنے کی کوشش کی ۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ سفر میں کوئی نہ کوئی ساتھی ساتھ جا سکتا ہے ۔ اکیلے سفر کرنا مناسب نہیں ہے ۔
صفوان بن عسال سے روایت ہے کہتے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم مسافر ہوتے تو ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ اپنے موزے تین دن اور تین راتیں نہ اتاریں سوائے جنابت کے لیکن بول و براز اور نیند سے اتارنے کا حکم نہ تھا ۔ ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
تحقیق و تخریج : حدیث حسن ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 239/4 240 نسائی: 1/ 84 ترمذی: 96 ترمذی نے کہا: یہ: حدیث حسن صحیح ہے ۔ ابن ماجه: 478 ابن خزیمه: 196 ابن حبان: 179 ، البيهقي: 1/ 114 الدارقطنی: 1/ 197 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس باب میں سب سے بہتر حدیث صفوان بن عسال راوی کی ہے اس سے ترمذی نے نقل کیا ۔
وعن عروة بن المغيرة عن أبيه قال: كنت مع النبى صلی اللہ علیہ وسلم فى سفر فأهويت لأنزع خفيه فقال: ((دعهما فإني أدخلتهما طاهرتين فمسح عليهما )) [لفظ رواية البخاري]
عروہ بن مغیرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا میں نے ارادہ کیا کہ آپ کے موزے اتار دوں آپ نے ارشاد فرمایا: ”انہیں رہنے دیجیے میں نے پاکیزہ پاؤں اس میں داخل کیے ہیں (یعنی با وضو پہنے ہیں) آپ نے ان پر مسح کیا۔“ لفظ بخاری کی روایت کے ہیں ۔
تحقیق و تخریج: بخاری: 5799٬206 ، مسلم: 274
وعن شريح بن هاني قال: أتيت عائشة أسألها عن المسح على الخفين، فقالت: عليك بابن أبى طالب فاسأله فإنه كان يسافر مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فسألناه فقال: ((جعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم )) [أخرجه مسلم]
شریح بن ہانی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تاکہ ان سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کروں ، انہوں نے فرمایا کہ آپ ابن ابی طالب سے پوچھیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے ہم نے ان سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن ایک رات کی اجازت دی ہے ۔“ (یعنی مذکورہ مدت میں موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے) مسلم۔
تحقيق و تخریج: مسلم: 272 ۔
وعن زبيد بن الصلت، قال: سمعت عمر يقول : ((إذا توضأ أحدكم ولبس خفيه فليمسح عليهما، وليصل فيهما ولا يخلعهما إن شاء إلا من جنابة ))
زبید بن صلت سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرماتے ہیں: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اس نے موزے پہن رکھے ہوں ، تو وہ ان پر مسح کر لے اور انہی میں نماز ادا کر لئے اور انہیں اگر وہ چاہے تو نہ اتارے مگر جنابت سے۔“ (یعنی بصورت جنابت اتارنا ہوں گے)۔
رواه الدار قطنيي من جهة أسد بن موسى وفيه قال: و حدثنا حماد بن سلمة عن عبيد الله بن أبى بكر وثابت عن أنس، عن النبى صلى الله عليه وسلم مثله
دارقطنی نے اسد بن موسیٰ کے حوالے سے روایت کیا کہتے ہیں کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے عبید اللہ بن ابی بکر سے ثابت سے حضرت انس کے حوالے سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت بیان کی ۔
وأسد بن موسى وثقه الكوفي والنسائي والبزار وقال الحاكم فى ((المستدرك)) بعد ذكر حديث عقبة بن عامر: ((خرجت من الشام وقد روي عن أنس مرفوعا بإسناد صحيح رواته عن آخرهم ثقات إلا أنه شاد بمرة ثم أخرج حديث أنس المقتدم، وقال فيه: على شرط مسلم
اسد بن موسیٰ کو کوئی نسائی اور بزار نے ثقہ قرار دیا ، حاکم نے مستدرک میں عقبہ بن عامر کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہا: میں شام سے روانہ ہوا ۔ حضرت انس سے مرفوع صحیح سند کے ساتھ روایت کی اس کے سارے راوی ثقہ ہیں سوائے اس کہ کہ وہ شاذ ہے پھر حضرت انس کی سابقہ حدیث بیان کی اور اس میں کہا: یہ مسلم کی شرط پر ہے ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث شاذ ہے ۔ دارقطنی: 1/ 203 حضرت عمر سے مرفوع اور حضرت انس سے موقوف روایت ہے ۔ البیهقی: 279/1 ، مستدرك حاكم: 1/ 181‘ حاکم نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے ۔ علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی اور کہا کہ یہ حدیث شاذ ہے ۔ نصب الرایۃ دیکھئے: نصب الراية 179/1 180 .
فوائد:
➊ سردی سے بچتے ہوئے موزے یاجرابیں ڈالنا یا پھر کسی اور عارضے کی وجہ سے جرابیں موزے وغیرہ ڈالنا جائز ہیں ۔ موزوں اور جرابوں پر مسح سنت ہے ۔ وضوء کر کے ان کو ڈالا جائے ۔ ایک مقیم آدمی ایک دن اور ایک رات اور مسافر تین دن تین راتیں موزوں کو پہنے رکھ سکتا ہے موزے ایسے ہوں جس سے پاؤں کا چمڑا نظر نہ آئے ۔ بالکل باریک نہ ہوں ۔
➋ اگر غسل جنابت واجب ہو جائے تو پھر اتار دینے چاہئیں خواہ ڈالے ہوئے ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ گزرا ہو ڈالنے کے بعد اگر اتار لیے تو مسح باقی نہ رہے گا ۔
➌ اگر پیشاب پاخانہ یانیند آجائے تو اس سے بھی مسبح باطل نہیں ہوتا صرف باقی اعضاء دھونے ضروری ہیں مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ تر کر کے پاؤں کی انگلیوں سے لے کر پنڈلی تک پھیریں ۔ مسح ہمیشہ پاؤں کے اوپر سے ہوتا ہے نیچے سے نہیں ۔
➍ اسی طرح اگر پاؤں پر زخم ہو موزے نہ بھی ہوں تو پھر بھی ہلاکت سے بچنے کی غرض سے زخم والی جگہ پر مسح کیا جا سکتا ہے ۔
➎ اپنے کسی محترم یا بڑے عالم کی خدمت کرنا اچھی عادت ہے ۔ نیک روح انسان کے جوتے یا موزے آگے بڑھ کر اتارنا درست ہے جیسے عروہ رضی اللہ عنہ نے جھک کر رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے موزے اتارنے کی کوشش کی ۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ سفر میں کوئی نہ کوئی ساتھی ساتھ جا سکتا ہے ۔ اکیلے سفر کرنا مناسب نہیں ہے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]