من دون اللہ کا صحیح مفہوم
تحریر:ابو الاسجد محمد صدیق رضا

من دون اللہ کا صحیح مفہوم

”مِن دُونِ الله“ ایک منصوص ترکیب ہے۔ قرآن مجید کی کئی ایک آیات اور بہت سی احادیث میں یہ ترکیب واقع ہے، اسی طرح بعض آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ذکر کے بعد ” مِنْ دُونِه“ کے الفاظ بھی ہیں۔ بطور مثال چند آیات ملاحظہ کیجئے:
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ‎ ﴿٢٠﴾ ‏ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ‎ ﴿٢١﴾ ‏
(16-النحل:20,21)
” اور جن لوگوں کو یہ لوگ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے اور وہ تو خود مخلوق ہیں ، مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں، انہیں یہ شعور بھی نہیں کہ ( قبروں سے ) کب اٹھائے جائیں گے ۔“
يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ‎ ﴿٧٣﴾
(22-الحج:73)
” اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو! یقیناً اللہ کے علاوہ تم جن لوگوں کو پکارتے ہو وہ ہر گز ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے ، اگر چہ اس کام کے لئے وہ سب جمع ہو جائیں (مکھی پیدا کرنا تو درکنار ) اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اس ( چیز ) کو وہ اس (مکھی ) سے چھڑا بھی نہیں سکتے ، مانگنے والا اور جس سے مانگا جا رہا ہے دونوں ہی کمزور ہیں ۔ “
لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ‎ ﴿١٤﴾
(13-الرعد:14)
” اُسی (اللہ ) کو پکارنا حق ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعائیں قبول نہیں کر سکتے ، ان کا پکارنا تو ایسے ہے) جیسے کوئی اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو، تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے۔ اور (اس طرح) پانی اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں، اور نہیں کافر کی پکار مگر سراسر بے فائدہ “
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ‎ ﴿١٠٦﴾ ‏
(10-يونس:106)
” اللہ کے علاوہ کسی ایسی چیز کو مت پکار جو نہ تجھے نفع دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔ پس اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ “
قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا ‎ ﴿٤٠﴾
(35-فاطر:40)
” آپ کہہ دیجئے کیا تم نے اپنے شرکاء کو دیکھا جنھیں تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو، مجھے دکھلاؤ انھوں نے زمین میں سے کیا بنایا ہے؟ یا آسمانوں کے پیدا کرنے میں ان کا کچھ حصہ ہے؟ یا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی دلیل سے قائم ہیں۔“
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏
(46-الأحقاف:5)
” اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے علاوہ اُن کو پکارے جو قیامت تک اس کی فریاد رسی نہیں کر سکتے اور وہ تو ان کی دعا سے بھی بے خبر ہیں ۔ “
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ‎ ﴿٢٢﴾ ‏
(34-سبأ:22)
”آپ کہہ دیجئے پکارو ان کو جنھیں تم اللہ کے علاوہ ( مددگار ) سمجھتے ہو، وہ ذرہ بھر کے مالک نہیں آسمانوں میں نہ زمین میں اور نہ ہی ان کا کوئی حصہ ہے ان دونوں ( آسمانوں اور زمین کے بنانے) میں اور نہ ان میں سے کوئی اس کا مددگار ہے ۔“
ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ‎ ﴿١٣﴾ ‏ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ‎ ﴿١٤﴾
(35-فاطر:13، 14)
” وہ اللہ ہی تمہارا پالنہار ہے اسی کی بادشاہت ہے اور جن لوگوں کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری دعا نہیں سن سکتے اگر سن بھی لیں تو تمھاری التجا قبول نہیں کر سکتے ۔“
مذکورہ اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں ” مِنْ دُونِ الله“ یا ” مِنْ دُونِهِ“ کا مطلب ہے : ”اللہ کے علاوہ “یا اللہ کے سوا تمام مکاتب فکر کے اکثر مترجمین نے تقریباً یہی ترجمہ کیا ہے۔ قرآنی آیات کی اس ترکیب کے مطابق ہر وہ ذات و شخصیت خواہ وہ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ہاں کتنی ہی عظمت و رفعت کی حامل ہو اور کتنے ہی بلند درجے پر فائز ہو۔ ہر وہ ذات و شخصیت جس پر لفظ جلالت ”اللہ“ کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو، اسے ”اللہ “نہ کہا جا سکتا ہو وہ ” مِنْ دُونِ الله“ ہی ہے۔ اسلام کے مدعی ہر شخص کا علانیہ اعتقاد یہی ہے کہ” اللہ ایک ہے۔“ اسی کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے، چنانچہ فرمایا:
قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ
(الاخلاص: 1)
”کہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔“
اسلام کے مدعی کا کوئی فرد اس سے انکار و اختلاف کی جسارت نہیں کر سکتا اور یہ بھی ایک بین حقیقت ہے کہ دین اسلام میں اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت جس ذات سے فرض ولازم ہے، وہ اللہ کے پیارے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
لیکن اس شان و عظمت ، رفعت و عالی منزلت کے باوجود کوئی مومن یہ بات کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ہیں (نعوذ باللہ ) اس قدر فضیلت ہونے کے باوجود آپ صلى الله عليه وسلم اللہ تعالی کے علاوہ ہی ایک عظیم ذات ہیں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله نہیں تو کوئی اور کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور ” مِنْ دُونِ الله“ کا یہ مفہوم و مطلب اس قدر واضح ہے کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں، لیکن افسوس کہ بعض لوگوں کی کج فہمی کی وجہ سے اب یہ بات بھی اختلاف کی نظر ہو چکی ہے، ایسے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن مجید کی محولہ آیات ان کے بہت سے نظریات و اعمال کی تردید کرتی ہیں تو اپنے غلط نظریات کی اصلاح اور قرآن مجید کی آیات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اس پر بحث کرنے لگے کہ ” مِنْ دُونِ الله “کا مصداق کون ہیں اور کون نہیں؟؟!!

بریلویہ کے اس نظریے کا ثبوت

1: بریلوی امت کے حکیم و مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے اسی مفہوم کی ایک آیت کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

جواب :

یہاں ولی اللہ کی نفی نہیں ہے، بلکہ ولی من دون اللہ کی نفی ہے جنہیں کفار نے اپنا ناصر و مددگار بنا رکھا تھا یعنی بت و شیاطین، ولی اللہ وہ جسے رب نے بندوں کا ناصر بنایا جیسے انبیاء و اولیاء
( جاء الحق ص 216 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور )
قارئین کرام! آیت میں ” مِنْ دُونِ الله“ کے الفاظ ہیں نہ کہ ” ولي من دون الله“ کے لیکن بریلویہ کے حکیم الامت و مفتی صاحب بضد رہے کہ ” انبیاء و اولیاء“ مراد نہیں۔ پھر اپنی طرف سے کہہ دیا کہ ان کو اللہ نے ناصر بنایا ہے۔ بہر حال کوئی ان سے پوچھے کہ اس قدر ضد کا فائدہ کیا ہے؟ ” ولي من دون الله“ کا مطلب بھی تو یہی ہے کہ” اللہ کے علاوہ ولی“۔ اس سے بھی تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک کی نفی ہے۔
2 : ان کے ایک دوسرے” کثیر الالقاب، علامہ“ غلام رسول سعیدی صاحب نے لکھا: ﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ﴾ کا مصداق اصنام اور بت ہیں، انبیاء اور اولیاء نہیں۔
( تبیان القرآن 384/2 مطبوع فرید بک اسٹال، لاہور )
ان کے ایک دوسرے ”علامہ “غلام نصیر الدین سیالوی صاحب نے اپنی کتاب تنبیہ الغفول في نداء الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، نداے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخی جمائی ایک نفیس بحث ” مِن دُونِ الله“ کے مفہوم کا تعین“ ( ص 179) اپنی اس مزعوم نفیس بحث میں بار بار یہ لکھا: ” ثابت ہو گیا کہ من دون اللہ میں انبیاء اور اولیاء شامل نہیں۔
(تنبیہ الغفول ص 184،183،181، 185، 186)
ان ”غفول“ کی نام نہاد ” نفیس بحث“ کا جواب اپنے مقام پر ضرور آئے گا، جس سے ان کی غفلت روز روشن کی طرح آشکار ہوگی۔
بعض لوگوں کی طرف سے بنائے ہوئے خود ساختہ شیخ الاسلام سیاسی ، دینی اور اخلاقی اعتبار سے پاکستان کے متنازع ترین شخصیت طاہر القادری صاحب نے بھی اس بحث میں حصہ لیا اور اپنی کتاب التوحید میں تو حید کے تناظر میں مِن دُونِ الله کا صحیح مفہوم کا عنوان قائم کیا، اس میں لکھا ہے:
مِنْ دُون الله کی حقیقی مراد قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی صلی اللہ علیہ وسلم یا اس کے مماثل الفاظ کا ذکر ہوا ہے وہاں اس سے مقصود کفار ومشرکین کے باطل عقائد و نظریات کا رد اور معبودان باطلہ کی بے وقعتی کا اظہار ہے۔ بنیادی طور پر ان الفاظ سے درج ذیل امور کا بیان مقصود ہوتا ہے۔“
(کتاب التوحید ج اص558)
پھر قادری صاحب نے چند عنوانات قائم کئے جیسے:
(1) باطل عقائد و نظریات
(2) معبودان باطلہ ہر ایک کی چند سطور میں وضاحت کی ۔ اسی طرح لکھا:
” اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے الوہیت کی نفی ان الفاظ کے ذریعے معبودان باطلہ کی ذات حق سے مطلقاً بے تعلقی اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے الوہیت کی نفی کی گئی ہے “
(حوالہ بالاص 558)
یہاں تو لکھ دیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے الوہیت کی نفی من دون الله سے کی گئی لیکن اپنے تنازع پن کے نقوش چھوڑتے ہوئے مزید لکھا:
کفار ومشرکین سے خطاب کلام الہی میں مِن دُونِ الله کے مخاطب مورد و اطلاق کے اعتبار سے اہل ایمان نہیں بلکہ اہل کفر مشرکین اور ان کے وہ اللہ اور جھوٹے معبود ہیں جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ مِنْ دُونِ الله سے نہ تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء ورسل علیہم السلام مراد ہیں اور نہ ہی صلحاء و اولیاء
(حوالہ بالاص 559)
اسی طرح لکھا: ” جہاں تک انبیاء و رسل ، اولیاء وعرفاء،مومنین کاملین اور خدا کے مقبول و برگزیدہ بندوں کا تعلق ہے وہ بارگاہ ایزدی میں مقرب و محبوب تصور کئے جاتے ہیں ، ان پر مِن دُونِ الله کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے : انه من عبادنا المومنين
”بے شک وہ ہمارے ( کامل ) ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔ “
(حوالہ بالا : 561۔ 560)
قادری صاحب نے آیت تو ایسے نقل کر دی گویا یہ ان کے بیان کی دلیل ہے، جبکہ آیت میں ایسی بات ہی نہیں کہ انبیاء یا اولیاء من دون الله نہیں ہیں۔
مزید لکھا: ” اولیاء اللہ ( اللہ تعالیٰ کے دوست اور محبوب بندے ) اللہ تعالیٰ کا غیر اس لئے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ خود زمین پر چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں“
(حوالہ بالاص (56)
اگر اولیاء اللہ ” غیر اللہ “نہیں تو پھر طاہر القادری صاحب بتائیں کہ ان کے کتنے الہ ہیں؟ اور ان اولیاء کی عبادت حق کیوں نہیں؟ المختصر ! ان عبارات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا عقیدہ کیا ہے؟
في الوقت ان اقتباسات سے محض یہی مقصود ہے کہ ان کا عقیدہ ان کے الفاظ میں قارئین کے سامنے رکھا جائے، تا کہ کوئی اسے الزام و اتہام قرار نہ دے۔
مِنْ دُونِ اللَّهِ کا مفہوم اور شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا
قرآنی آیات کے بریلویہ ترجموں سے بھی یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ” من دون الله“ کا مفہوم و معنی کیا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کی ضد و کج روی کے سبب اس کی لغوی تشریح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس کے لیے بھی ہمیں خود سے کسی محنت و طویل بحث کرنے کی احتیاج نہیں کہ ” شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا“ کے بمصداق اس پر بریلویہ کے گھر کی گواہی موجود ہے۔
پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب کے خاندان کے ایک نامور اور مشہور فرد پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ گولڑوی صاحب ( کہ جن کی قبر پر بریلوی اپنی مخصوص عقیدت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں) ان صاحب نے جب اپنے لوگوں کی کج روی اور ضد دیکھی تو ان کی تردید کرتے ہوئے من دون الله کے لغوی مفہوم پر کافی تفصیلی بحث کی ہے۔ نصیر صاحب نے لکھا: ”بلکہ لفظ دُونَ کے معنی ہی اس چیز کا تقاضہ کرتے ہیں کہ جب اس کا مضاف الیہ لفظ اللہ ہو تو پھر ساری مخلوق من دون الله میں آسکتی ہے۔ مشہور و مستند لغت لسان العرب میں دُونَ کی تشریح اس طرح کی گئی ہے:
دون نقيض فوق : کہ دون فوق کا متضاد و نقیض ہے جب فوق کے معنی اوپر کے ہیں تو لا محالہ دون کے معنی نیچے کے ہوں گے۔ لہذا ہر وہ چیز جو اللہ سے مقام و مرتبہ میں نیچے ہے وہ دُون الله ہے اور دُون کے دوسرے معنی الحقير و الخسيس کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بادشاہ ہر دو عالم کے برابر کوئی بھی نہیں۔ لہذا دون الله کا دائرہ بہت وسیع ہے، صاحب لسان العرب آگے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال بعض النحوين لدون تسعة معان: کہ دون کہ نو (9) معانی ہیں۔ تكون بمعنی قبل و بمعنی امام و بمعنى واراء وبمعنى فوق إلخ ہم نے تحت والے معنی اس لئے چنے کہ اُس ذات کے اوپر کوئی نہیں اگر اُس سے اوپر کچھ اور تسلیم کیا جائے تو یہ کفر صریح ہو گا۔ لہذا تحت کی مثال لسان العرب میں یوں ہے و بمعنى تحت كقولك دُونَ قدمِكَ خد عدوك أى تحت قدمك۔ كہ تيرے دشمن کا رخسار تیرے پاؤں کے نیچے ہے. لہذا اس لئے یہ معنی ہوں گے کہ مرتبہ ، عزت اور شان کے لحاظ سے کائنات کی ہر شے دون الله (اللہ سے نیچے ) ہے لہذا بشمول برگزید شخصیات، اصنام، معبودانِ باطلہ اور مشرکین کے ہر چیز من دون الله ہے۔
یہاں ایک حدیث شریف بھی بطور مثال پیش کی جاتی ہے، غور فرمائیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
إن آدم و من دونه تحت لواء ى يوم القيامة . إلخ

ترجمہ:

بے شک آدم اور آپ کے علاوہ ( تمام عالم انسانیت ) قیامت کے دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے یہاں وَ مَنْ دُونَهُ کے لفظ سے دو مفہوم سامنے آتے ہیں:

نمبر 1۔ دُونَ :

بمعنی علاوہ یعنی حضرت آدم علیہ سلام اور آپ کے علاوہ اور بھی جتنے انسان ہیں وہ سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے . واضح ہو گیا کہ دُونَ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور اس میں کسی گستاخی کا پہلو نہیں نکلتا۔ ہاں البتہ اس قدر فرق مراتب ضرور ملحوظ رہے کہ مقبولانِ خدا کیونکہ کبھی شرک پر راضی نہ ہوئے ، نہ انہوں نے کسی کو ایسا کرنے کا حکم دیا، لہذا عند اللہ اُن کا مرتبہ مسلّم ہے۔
ّ(اعانت و استعانت کی شرعی حیثیت ص 100 تا 102، مطبوعہ مہریہ نصیریہ پبلشرز اسلام آباد)
مِنْ دُونِ الله کا یہ مفہوم پیر مہر علی شاہ صاحب کی اولاد میں سے ایک کا ہے، پھر پیر نصیر الدین گولڑوی کی بریلویہ کے ہاں مقبولیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کی موت کے بعد انہوں نے (احادیث کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ) گولڑہ میں ان کا مزار بنایا، جس پر لوگوں کا ایک ہجوم رہتا ہے ۔ راقم الحروف بچشم خود دیکھ چکا ہے کہ وہاں کتنے ہی لوگ نصیر صاحب کی قبر کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں، کوئی قبر کے گرد چکر کاٹتا ہے تو کوئی ماتھا ٹیکے نظر آتا ہے۔ غرض ہر اونچی مزین اور ولی کی قبر کے نام سے معروف قبر پر یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں، وہ نصیر صاحب کی قبر پر بھی جاری ہے۔
تو یہ یقیناً ان کے گھر ہی کی گواہی ہے کہ ہر مخلوق خواہ برگزیدہ شخصیات ہی کیوں نہ ہوں مِن دُونِ الله اللہ کے علاوہ ہی ہیں۔ اس پر قرآن ، حدیث اور کتب لغت میں دلائل موجود ہیں۔ نیز اس میں گستاخی کا کوئی پہلو نہیں۔ نصیر صاحب نے اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا:
”جن حضرات کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جن آیات میں اصنام کو خطاب کیا گیا ہے، اُن آیات کو انبیاء و اولیاء پر منطبق کرنا نہ صرف جہالت ہے بلکہ تحریف قرآنی ہے وہ ہماری تحقیق بھی ذہن نشین کرلیں کہ غیر اللہ ، من دون اللہ ، شریک اور انداد کے الفاظ قرآن میں جہاں بھی آئے ہیں ، اُن سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہو اور وصول الی اللہ میں رکاوٹ بنتی ہو۔ اگر اصنام رکاوٹ بن رہے ہوں تو ان الفاظ سے مراد اصنام ہوں گے اور اگر انسان بن رہے ہوں تو انسان مراد ہوں گے ۔ ہم نے اس کے ثبوت میں قرآن مجید سے کئی مثالیں پیش کی ہیں اور مزید بھی پیش کر سکتے ہیں ۔
( اعانت و استعانت کی شرعی حیثیت ص 97)
حیرت ہے کہ اپنے جس بزرگ کی قبر کی غالیا نہ تعظیم کرتے ہیں، جنھیں اپنا مشکل کشا و حاجت روا مانتے ہیں، ان کی زبان و قلم سے پیش کیا ہوا قرآن ماننے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔ بہر حال پیر صاحب کا بیان عیاں ہے اور ”عیاں راہ چہ بیاں“ کے مصداق بیان کی احتیاج نہیں کہ ان کے ہاں بھی مِن دُونِ الله غیر اللہ اور انداد ایک ہی چیزوں کے نام ہیں۔
غیر اللہ کا مفہوم احمد رضا خاں صاحب سے بریلویہ کے اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت عظیم المرتبت، مجدد و ملت ، امام احمد رضا خان صاحب نے اپنے رسالہ ” بــركــات الامداد لاهل الاستمداد “ میں اپنے مخصوص طرز تکلم میں لکھا:
اگر آیہ کریمہ ایاک نستعین میں مطلق استعانت کا ذاتِ الہی جل و علا میں حصر مقصود اياك ہوتو کیا صرف انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ہی سے استعانت شرک ہوگی ، کیا یہی غیر خدا ہیں ، اور سب اشخاص و اشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انھیں کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے، نہیں نہیں جب مطلقاً احدیت سے تخصیص اور غیر سے شرک ماننے کی شہری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے ہمیشہ ہر طرح شرک ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات ، احیا ہوں یا اموات، ذوات ہوں یا صفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں۔ اب کیا جواب ہے آیہ کریمہ کا
( فتاویٰ رضویہ 21/ 305 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )
سب سے پہلے تو یہ عرض کر دیں کہ ” من دون اللہ“ کا مطلب ہے اللہ کے علاوہ اور یہی مفہوم غیر اللہ کا ہے، بریلویہ کے امام خاں صاحب نے بھی اعتراف کر ہی لیا کہ انسان ہوں یا جمادات، احیا ہوں یا اموات ” غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں، وھوالمقصود!
اب رہا مسئلہ آیت کریمہ اياك نعبد و اياك نسعتين کا تو عرض ہے کہ آیت کا مفہوم و مطلب دیگر آیات و احادیث کی روشنی میں بالکل ظاہر ہے، لہذا آیت کے جواب کی تو ضرورت ہی نہیں، ہاں خلط مبحث پر مبنی مجدد بریلویہ کے اشکالات جواب کی احتیاج رکھتے ہیں۔ سر دست اتنا کہنا کافی ہے کہ باہمی معاونت اور اسباب و اشیاء سے مدد لینا نصوص قرآن و احادیث سے ثابت ہے، وہ مدد اس آیت کے قطعاً خلاف نہیں، وگرنہ قرآن کریم میں تعارض و تناقض لازم آئے گا جو محال ہے۔ البتہ اموات سے یا غیر موجود اشخاص سے اسباب و ذرائع سے ہٹ کر دعا مانگنا مشکل کشائی چاہنا جیسا کہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے کسی نص سے ثابت نہیں۔ تو آیت بالا اور ان کے طرز عمل میں تفاوت صاف ظاہر ہے۔ وللعاقل تكفيه الإشارة

من دون اللہ اور انبیاء ( علیہ السلام ) واولیاء

اس سلسلے میں فریق ثانی کے مغالطوں کے ذکر سے پہلے وہ دلائل ملاحظہ کر لیجئے کہ جن سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء علیہ السلام اور اولیاء وصالحین بھی من دون الله میں شامل ہیں۔ یہ نظریہ ان کی شان و عظمت کے قطعاً منافی نہیں بلکہ اُن کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ تنبیہ آیات کا ترجمہ وتفسیر بریلویہ کے نامور علماء کے قلم سے پیش کئے جانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے اس شبہ کا خاتمہ ہو کہ ترجمے غلط ہیں، تفسیر و تشریح غلط کی گئی ہے۔ جیسا کہ ان کی جانب سے عام پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہابیہ غلط تشریح کر کے گمراہ کرتے ہیں۔ ان کے اپنے تراجم وتفاسیر سے اس شبہ کا ازالہ مقصود ہے۔

پہلی دلیل:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ‎ ﴿٧٩﴾ ‏
(3-آل عمران:79)
” کسی آدمی کا یہ حق نہیں کہ اللہ اُسے کتاب اور حکم و پیغمبری دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ ہاں یہ کہے گا کہ اللہ والے ہو جاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو۔“
( ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
1 : بطور تفسیر میں ترجمہ کے حاشیہ میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے لکھا:
یہ انبیاء سے ناممکن ہے اور ان کی طرف ایسی نسبت بہتان ہے۔ شانِ نزول نجران کے نصاری نے کہا ہمیں حضرت عیسی علیہ الصلواۃ والسلام نے حکم دیا کہ ہم انہیں رب مانیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تکذیب کی اور بتایا کہ انبیاء کی شان سے ایسا کہنا ممکن ہی نہیں اس آیت کے شان نزول میں دوسرا قول یہ ہے کہ ابورافع یہودی اور سید نصرانی نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا محمد آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں حضور نے فرمایا اللہ کی پناہ کہ میں غیر اللہ کی عبادت کا حکم دوں نہ مجھے اللہ نے ایسا حکم دیا ہے نہ مجھے اس لئے بھیجا۔“
(خزائن العرفان ص 107 مطبوعہ حافظ کمپنی لاہور )
2 : ان کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں یہی بات نقل کی ہے۔
(تفسیر نعیمی ج 3 ص 567، مطبوع نعیمی کتب خانہ لاہور )
3 : ان کے علامہ ابوالحسنات محمد احمد قادری صاحب نے بھی اس آیت کی تفسیر کے شانِ نزول میں یہی کچھ لکھا ہے۔
(دیکھے تفسیر الحسنات ج اص528، مطبوع ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور، کراچی)
4 : ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں یہی بات اس طرح نقل کی ہے: ”امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (متوفی 310ھ) اپنی سند کے ساتھ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں : ” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو رافع قرظی نے کہا۔ انہوں نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت کریں جیسے نصاریٰ نے حضرت عیسی بن مریم کی عبادت کی تھی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم غیر اللہ کی عبادت کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں. الخ
( تبیان القرآن 2/ 225، فرید بک اسٹال لاہور )
5 : ان کے پیر آف بھیرہ کرم شاہ از ہری صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
” یعنی جسے انعامات سے سرفراز کیا وہ کسی کو اپنی پرستش اور عبادت کی دعوت نہیں دے گا بلکہ وہ تو سب کو یہی تلقین کرے گا کہ اللہ والے بن جاؤ. یہاں عیسائیوں کو بتایا جارہا ہے کہ عیسی علیہ السلام تو نبی تھے۔ وہ اپنے آپ کو خدایا خدا کا فرزند کیونکر کہہ سکتے ہیں۔“
(ضیاء القرآن 247/1)
6 :پیر سید نصیر الدین گولڑوی صاحب نے لکھا:
مِنْ دُونِ الله کے اطلاق پر ایک اور قرآنی دلیل کچھ سطور پہلے ہم نے ایک قاعدہ اور کلیہ بیان کیا کہ جہاں کتاب اللہ میں نفی شرک اور اثباتِ تو حید کا بیان ہو رہا ہو وہاں غیر اللہ یا من دُونِ الله کے الفاظ میں ہر وہ وہ شے اور ہر وہ شخصیت آجاتی ہے، جس کی عبادت کی جاتی ہو، کی جا رہی ہو یا کیے جانے کا امکان ہو، چاہے وہ اصنام ہوں یا برگزیدہ بندے، اور اس پر ہم نے سورہ مائدہ کی ایک آیت بطورِ شہادت پیش کی. اب ذیل میں ایک اور آیت مع ترجمہ اور شانِ نزول درج کی جا رہی ہے
(اعانت و استعانت ص 104)
اس کے بعد گولڑوی صاحب نے درج بالا آیت ( آل عمران : 79 ) نقل کی اور تفسیر خازن کے حوالے سے ابورافع یہودی کا اعتراض اور جواب نقل کیا جسے مراد آبادی نعیمی اور سعیدی وغیرہ بھی بیان کر چکے ہیں۔
(حوالہ بالاص 105،104)
قارئین کرام! آیت مبارکہ اور فریق ثانی کے نصف درجن اکابر کی تفاسیر و توضیحات آپ کے سامنے ہیں۔ اس آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ انسان جنھیں اللہ عزوجل نے نبوت سے سرفراز فرمایا اُن میں سے ہر ایک نبی نے اللہ کے بندے بننے کی دعوت دی، کسی ایک نے بھی یہ دعوت نہیں دی کہ میرے بندے بن جاؤ اللہ کے سوا معلوم ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام من دون الله ہیں، اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر ہر نبی کو من دون الله ہی کہا۔ اگر یہ کہنا اُن کی گستاخی ہوتی یا اس میں انبیاء علیہ السلام کی تو ہین کا کوئی پہلو ہوتا (نعوذ باللہ ) تو اللہ تعالیٰ قطعاً ایسا نہیں فرماتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے اور ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، تو ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے کہ جس سے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی لازم آتی ہو، کلا وفلا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان تفاسیر کے مطابق جب یہود نے یہ تہمت لگائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اپنی عبادت چاہتے ہیں (نعوذ باللہ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ” میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس چیز سے کہ غير الله کی عبادت کا حکم دوں ۔“ نصیر الدین گولڑوی صاحب نے ”نکتہ دقیقہ“ کے عنوان سے تفصیلی کلام کرتے ہوئے یہ بھی لکھا:
”یہاں آپ نے لفظ غير الله اپنے لئے ہی استعمال فرمایا اور متعدد تفاسیر کے حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت محولہ بالا میں ما كان لبشر سے مراد حضرت عیسی عالیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
( اعانت واستعانت ص 111)
الغرض کہ یہ شانِ نزول نقل و بیان کرنے والے جملہ بریلویہ نے اس بات کو تسلیم کر کے یہ اعتراف کر لیا کہ افضل الخلق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی من دون الله یعنی ”غیر اللہ میں داخل ہیں“ ، گولڑوی صاحب تو ویسے بھی اس بات کے منکر نہیں تھے ۔
قارئین کرام ! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نعیمی صاحب نے ”جاء الحق “ میں تو اولیاء کو ”من دون الله“ میں شامل نہیں مانا مگر اپنی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر اللہ ہو نا تسلیم کر گئے۔ اسی طرح غلام رسول سعیدی صاحب نے آیت زیر بحث کی تفسیر میں آپ صلی صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر اللہ ہونا تسلیم کیا لیکن آگے چل کر (جلد 6 ص 384) پر معلوم نہیں انہیں کیا سوجھی کہ لکھ دیا: وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ کا مصداق اصنام اور بت ہیں، انبیاء اور اولیاء نہیں ! آخر من دون الله اور غير الله میں معنی و مفہوم کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ جو سعیدی صاحب کو انکار کی ضرورت پیش آگئی۔ بہر حال پیر آف گولڑہ نصیر الدین صاحب کی سینے، تفصیلی بحث کے بعد لکھا: ” اب بتائیے کہ من دون الله اور غير الله کے الفاظ فقط بتوں کے لئے مخصوص رکھنے اور آیت ردّ شرک کو زمانہ اولی کے کفار ومشرکین پر ہی منطبق کرنے کی رٹ لگانے والے کہاں تک حقیقت پسند ہیں۔
(حوالہ بالا ص 111)
عرض ہے کہ ان سے حقیقت پسندی کی توقع قریب قریب عبث ہے۔

دوسری دلیل :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ﴾
(5-المائدة:116)
” اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنالو اللہ کے سوا۔ “
(ترجمعہ از احمد رضاخان)
1: ان کے حکیم الامت مفتی احمد یار خان گجراتی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
دون بہت معنی میں آتا ہے، دور ، علیحدہ ، مقابل ،سواء، نہ کہ، غیر یہاں بمعنی سوا ہے۔ کیونکہ کوئی عیسائی یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ الہ نہیں صرف حضرت عیسی و مریم الہ ہیں لہذا آیت بالکل صاف ہے۔ یعنی اے مریم کے فرزند عیسی کیا ان عیسائی انسانوں سے تم نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی اللہ مان لینا۔
(تفسیر نعیمی ج 2 ص 192)
2:ابوالحسنات قادری صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا:
”اللہ تعالیٰ کا یہ سوال استفہام انکاری کے طور پر ہے یعنی تم نے یہ نہ کہا تھا اس سے عیسائیوں کوشرمندہ کرنا مقصود ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے. یعنی اے مریم کے فرزند عیسی علیہ اسلام ان عیسائی انسانوں سے تم نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو الہ مان لینا۔ “
(تفسیر الحسنات 271/2)
3:پیر نصیر الدین گولڑوی صاحب نے اسی آیت کے تحت لکھا:
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علیہ سلام سے پوچھے گا کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھے ( عیسی کو ) اور میری ماں مریم کو معبود بنا کر پو جو؟ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ اور مریم علیہ السلام کے لئے لفظ من دون الله استعمال فرمارہا ہے،
(اعانت واستعانت ص100)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر رسول سید نا عیسی اور ان کی والدہ ماجدہ مریم علیہ السلام جن کی نیکی ، تقویٰ اور صالحیت کی گواہی قرآن مجید میں موجود ہے، کو اس آیت مبارکہ میں ” من دون الله“ ہی کہا۔ فریق ثانی کے علماء نے بھی اپنی تحریرات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ تو یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء عظام من دون الله میں داخل نہیں ، اگر من دون الله میں داخل نہیں (نعوذ باللہ ) تو پھر ان کی عبادت بھی باطل نہ ہوئی ؟ پھر ان کی عبادت کرنے والوں کی مذمت کا کیا مطلب ! ان کے خود ساختہ خیالات کے مطابق وہ بھی تو اللہ ہی کی عبادت کر رہے ہیں من دون الله کی عبادت تو نہیں کر رہے!

تیسری دلیل :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ﴾
(9-التوبة:31)
” انہوں نے اپنے پادریوں اور جو گیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح ابن مریم کو ۔ “
( ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
احمد سعید کاظمی ملتانی صاحب نے ترجمہ ان الفاظ میں کیا:
”انہوں نے اپنے دینی پیشواؤں اور عبادت گزاروں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا اور مسیح ابن مریم کو بھی ۔ “
( البیان ص 307، مطبوع ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور )
1 : اس آیت کی تفسیر میں پیر محمد کرم شاہ از ہری بھیروی صاحب نے لکھا:
”احبار“ جمع ہے جبر کی . اس کا معنی ہے جید عالم جو بڑی عمدگی اور سلیقہ سے بات کر سکے . رھبان راہب کی جمع ہے جو ہبتہ بمعنی خوف سے ماخوذ ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کے خوف سے اپنی ساری زندگی اس کی عبادت کے لئے وقف کر دیتے ہیں“
(ضیاء القرآن 12/ 198، نیز دیکھئے تفسیر نعیمی 245/10)
2 : ان کے حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
حضرت مسیح کو عیسائی خدا کی مثل یعنی خدا کا بیٹا مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ رب کا بیٹا بھی رب ہوگا، اس لئے یہ الزام ان پر درست ہے۔ یوں سمجھو کہ وہ لوگ اپنے پوپ و پادریوں کو عملاً رب سمجھتے کہ ان کے ساتھ رب کا سا معاملہ کرتے تھے اور عیسی عالیہ السلام کو اعتقاداً اپنا رب مانتے تھے. ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا﴾ اس فرمان عالیشان میں ان دونوں قوموں پر عتاب کا اظہار ہے، یعنی تورات وانجیل اور تمام آسمانی کتابوں میں ان لوگوں کو یہ ہی حکم کیا گیا تھا کہ وہ ایک اللہ ہی کی عبادت کریں۔ انہوں نے اللہ کے مقابل دوسروں کو حرام و حلال کرنے کا مالک مان کر انہیں سجدے کر کے ان سے اپنے گناہ بخشوا کر ان کی عبادت کی ، یعنی دلی اور اعتقادی عبادت لہذا انہوں نے ساری آسمانی کتابوں کی مخالفت کی ﴿لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ﴾ اس فرمان عالی میں واقعیت کا ذکر ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا واقعہ کوئی لائق عبادت نہیں ہر قسم کی عبادت اسی کو لائق ہے، اعتقادی عبادت ہو یا بدنی یا مالی ۔ ﴿سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ اس فرمان عالی میں یہود و نصاریٰ کو صراحۃ مشرک فرمایا گیا ہے اور ان کے مذکورہ عقیدوں کو شرک قرار دیا گیا۔
(تفسیر نعیمی 246/10)
مفتی صاحب نے شاید انجانے میں یہاں یہ بھی تسلیم کر لیا کہ احبارور ہبان کو سجدے کر کے یہود ونصاری نے اپنے علماء کی عبادت کی ، تو آج جو لوگ اونچی قبروں کو اپنے سجدوں سے رونق بخشے ہوتے ہیں، وہ ان اونچی قبروں کی عبادت کرنے والے ”عباد القبور “ کیوں نہیں؟
یہ بھی لکھا ہے:
”دون کے بہت معنی ہیں : دور، الگ، مقابل، کٹا ہوا سواء یہاں یا تو بمعنی مقابل ہے یا سواء ۔ “ (ايضاً)
مفتی نعیم صاحب کا یہ تسلیم کرنا کہ اس آیت میں ”دون “ سوا کے معنی میں ہے، اس بات کا اعتراف ہے کہ اس آیت میں سید نا عیسی علیہ السلام ، دینی پیشواؤں اور عبادت گزاروں کو من دون الله یعنی اللہ کے سوا ہی قرار دیا گیا اور یہود کے ساتھ ساتھ نصاری نے سید نا عیسیٰ علیہ السلام اور اپنے نیک لوگوں کے ساتھ جو معاملہ اختیار کیا ہوا تھا اُسے شرک قرار دیا گیا۔ اگر وہ من دون الله نہ ہوتے تو یہ معاملہ شرک کیوں ہوتا ؟

چوتھی دلیل :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾
(3-آل عمران:64)
”تم فرماؤ اے کتابیوں ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنالے اللہ کے سوا پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دوستم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ “
( ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
1 : نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے ”اس کا شریک نہ کریں“ اور ” ایک دوسرے کو رب نہ بنائے“ کی تفسیر میں لکھا:
”نہ حضرت عیسی کو نہ حضرت عزیر کو نہ اور کسی کو جیسا کہ یہود ونصاری نے احبار و رھبان کو بنایا کہ انہیں سجدے کرتے اور ان کی عبادتیں کرتے۔ “
(خزائن العرفان)
2 : ان کے حکیم الامت گجراتی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
”خلاصہ یہ ہے کہ ہم رب کے سوا کسی کو نہ پوجیں انبیاء اولیاء سب کو اللہ کا بندہ سمجھیں ان میں سے کسی کو معبود نہ بنالیں اور کسی کو خدا کا شریک نہ سمجھیں نہ بتوں کو نہ چاند سورج کو نہ صلیب کو نہ کسی اور کو نیز کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب اور احکام کا مالک نہ بنائے۔ علماء صلحاء سب کو دین کا پیروکار سمجھیں۔ “
(تفسیر نعیمی 510/3)
3 : ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
” امام واحدی (متوفی 458 ھ) نے لکھا ہے کہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کو رب نہ بنائے اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جیسے نصاریٰ نے حضرت عیسی کو رب بنایا اور بنواسرائیل نے عزیر کو رب بنایا۔ “
(الوسیط ج 1ص 447، تبیان 194/2)
اسی طرح سعیدی صاحب نے لکھا:
” (3) اللہ کو چھوڑ کر کسی کو رب نہ مانیں سو انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو رب مان لیا یعنی ان کے ساتھ رب کا معاملہ کیا، کیونکہ وہ چیزوں کو حلال اور حرام قرار دینے میں ان کی اطاعت کرتے تھے، نیز وہ اپنے راہبوں کو سجدہ کرتے تھے، اور یہ کہتے تھے جو راہب زیادہ مجاہدہ کرتا ہے اس میں لاہوت کا اثر حلول کر جاتا ہے اور وہ مردوں کو زندہ کرنے اور مادر زاد اندھوں کو بینا کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔“
(حوالہ بالاص193)
قارئین کرام! دیکھ لیجئے، خود نعیمی گجراتی صاحب نے اس مقام پر تمام انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو رب کے سوا تسلیم کیا ہے۔ اسی کو قرآن مجید کے الفاظ میں ” من دون الله یعنی اللہ کے سوا“ کہا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس حقیقت کو مانتے نظر نہیں آتے ۔ اسی طرح سعیدی صاحب نے بھی اپنی تفسیر میں نام لے کر سید نا عیسی وسید نا عزیر عليہ السلام کو من دون الله میں شامل رکھا اور علماء وراہیوں کو بھی لیکن دوسری طرف انکار بھی کرتے ہیں۔ المختصر کہ اس آیت کی بریلوی تفاسیر سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام مخلوق خواہ وہ انبیاء علیہم السلام جیسی باعظمت شخصیات ہی کیوں نہ ہوں من دون الله یعنی اللہ کے علاوہ ہی ہیں۔

پانچویں دلیل:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا ‎﴾
(18-الكهف:102)
”تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر رکھی ہے۔“
( ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
1: ”عبادي “میرے بندوں کی تفسیر میں مراد آبادی صاحب نے لکھا:
” مثل حضرت عیسی و حضرت عزیر و ملائکہ کے۔ “
اور ” میرے سوا حمایتی بنالیں گے“ کی تفسیر میں لکھا:
اور اس سے کچھ نفع پائیں گے یہ گمان فاسد ہے بلکہ وہ بندے ان سے بیزار ہیں اور بے شک ہم ان کے اس شرک پر عذاب کریں گے۔ “
(خزائن العرفان )

بندوں کو کارساز بنانا شرک ہے

الحمد للہ ! مراد آبادی صاحب ایسے کٹر بریلوی کو بھی اعتراف کرنا پڑ گیا کہ بندوں کو کار ساز بنا ڈالنا شرک ہے، خواہ وہ نیک بندے ہی کیوں نہ ہوں۔
2: ابوالحسنات قادری صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
”یعنی بطور استفہام انکاری فرمایا کہ کیا یہ کافر یہ سمجھ رہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا ولی و کارساز و حاجت روا بنا لینا ان کے لئے کافی ہے۔ حالانکہ میرے بندوں سے حاجت روائی کی دعا کرانا بھی جب ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے جب میری رضا ہو ورنہ وہ بھی دعا نہیں کر سکتے. بلکہ حقیقتا اگر دیکھا جائے تو وہ خود میری عطا کے محتاج ہیں۔ ان کا مقرب و برگزیدہ ہونا تمہارے حق میں اتنا ہی فائدہ مند ہے کہ وہ مستجاب الدعوات ہیں جیسے عیسی و موسیٰ و دیگر انبیاء کرام علیہ السلام اور اولیاء عظام لیکن انہیں مستقل بالذات بلا رضا الہی کارساز ماننا یہ جہالت خالص ہے ایسے خیال والوں کے لئے ہمارے یہاں جہنم کی مہمانی ہے ۔ “
( تفسیر الحسنات 846/3)
قادری صاحب کی اس تفسیر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ”دعا کرانے“ کی اجازت ثابت کرنا چاہتے تھے چونکہ انہوں نے خود نیک لوگوں سے حاجت روائی وکارسازی کے بجائے اس کے لئے ان سے دعا کرانے کی بات کی۔
رہا مسئلہ مستقل بالذات و بالعطاء کا تو ہم اپنی کتاب ” امت اور شرک کا خطرہ “ میں الحمد للہ دلائل سے اس بات کا ثبوت فراہم کر چکے ہیں کہ زمانہ قدیم کے مشرکین بھی ”عطائی“ قوت واختیارات کے مدعی تھے۔ دیکھئے (ص 69 تا 81)۔ پھر قادری صاحب نے یہ لکھا کہ ان کا برگزیدہ ہونا تمہارے حق میں اتنا ہی فائدہ مند ہے کہ وہ مستجاب الدعوات ہیں جیسے عیسی و موسی و دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام مطلب اُن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ ”ہی“ کا لفظ قابل غور ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ اولیاء کرام کو حاجت روا کارساز ،مشکل کشا اور فریاد رس سمجھیں تو یہ اپنی ہی وضاحت و تفسیر سے انحراف کی واضح مثال ہو گی ۔ الغرض کہ عطائی طور پر کار ساز وحمایتی قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔
3 : ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے ان آیات کی تفسیر میں لکھا:
” میرے بندوں سے مراد ہیں ملائکہ ، حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ، اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا ان کا گمان ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں گے اور میری عبادت کے بجائے ان کی عبادت کریں گے اور میں ان کو کوئی سزا نہیں دوں گا ، یا ان کا یہ عمل ان کو نفع دے گا. ہم نے کافروں کی مہمانی کے لئے جہنم کو تیار کر رکھا ہے۔“
( تبیان القرآن 216/7)
مذکورہ بالا تینوں بریلوی اکابر اس بات پر متفق ہیں کہ ”عبادی“ یعنی ” میرے بندوں“ سے مراد سید نا عیسی ،سید نا عز یر اور ملائکہ ہیں۔ قرآن مجید کی آیت زیر بحث میں ان کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ”من دوني“ یعنی ”میرے علاہ یا ” میرے سوا“ کے الفاظ استعمال کیے اور جن لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو اپنا کارساز مطلب کام بنانے والا اور کام سنوار نے والا سمجھا اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب کی وعید سنائی۔ اور انہیں ”حمایتی یا کارساز“ بنانے کو نعیم الدین صاحب مراد آبادی بھی غالبا انجانے میں ” شرک“ قرار دے کر اپنے ہی ایسے عقائد کا ابطال فرما گئے۔
ذرا سوچئے! جن لوگوں نے انبیاء علیہم السلام ایسی مقدس ، مقرب و برگزیدہ شخصیات کو ”کار ساز“ بگڑی بنانے والے سمجھا انہیں تو اللہ تعالیٰ نے عذاب کی وعید سنائی تو کیا جو بابا فرید، باباعلی ہجویری، با با معین الدین چشتی و غیر ہم کو اپنے اولیاء ” کارساز“ بگڑی بنانے والے سمجھے تو اس کے لئے یہ وعید نہیں؟ انبیاء علیہم اسلام کو کارساز بنانے والوں کے لئے تو وعید ہو اور امتیوں میں سے صالحین کو ” کارساز“ بنانے کے لئے کوئی وعید نہ ہو؟ اور قرآن مجید کی نص سے انبیاء علیہم السلام تو ”اللہ کے سوا“ ثابت ہوں مگر صاحبانِ مزارات نہ ہوں؟ یہ کیسی دینداری اور کیسا انصاف ہے؟ اور کیسی سوچ ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی سمجھ عطا فرمائے!

چھٹی دلیل :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ‎ ﴿٩٨﴾ ‏ لَوْ كَانَ هَٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ ‎ ﴿٩٩﴾ ‏ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ ‎ ﴿١٠٠﴾ ‏ إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴿١٠١﴾ ‏
(21-الأنبياء:98تا101)
”بے شک تم اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہو تمہیں اس میں جانا۔ اگر یہ خدا ہوتے تو جہنم نہ جاتے اور ان سب کو ہمیشہ اس میں رہنا۔ وہ اس میں چینحیں گے اور وہ اس میں کچھ نہ سنیں گے۔ بے شک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔“
(ترجمه از احمد رضا خان صاحب)
ان آیات کی تفسیر میں کرم شاہ بھیروی صاحب نے لکھا:
” یہاں خطاب مشرکین مکہ سے ہے کہ تمہیں اور تمہارے پتھر کے گھڑے ہوئے ان خداؤں کو جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ ما غیر ذوی العقول کے لئے ہے اس لئے اس میں فرشتے عزیر اور عیسی داخل نہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عبد اللہ بن الزبعری نے اعتراض کیا کہ پھر تو صرف ان کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ یہ سنکر حضور نے ارشاد فرمایا : نعم كل من احب ان يعبد من دون الله فهو مع من عبده ہاں ہر وہ آدمی جس نے یہ پسند کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی بھی پوجا کی جائے اسے بھی اپنے پجاریوں کے ساتھ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ “
(ضیاء القرآن 187/3)
جی ہاں، یقینا لیکن جو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور لوگوں کو بھی اللہ ہی کی عبادت کی دعوت دیتے تھے، جیسے انبیاء علیہم السلام امام اور اولیاء کرام وہ اس کا مصداق نہیں اُن کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا اچھا وعدہ ہے، ان آیات کے مطابق وہ یقیناً جہنم سے دور ہوں گے۔ بعض دیگر بریلوی مفسرین کی طرح سعیدی صاحب نے بھی ابن الزبعری کا یہ اعتراض نقل کیا اور لکھا:
”جب قریش نے یہ لغو اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿اِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ …﴾ بے شک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے اچھی جزا پہلے مقرر ہو چکی ہے وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گئے ۔“
(تبیان القرآن 267/7)
نیز سعیدی صاحب نے بھی لکھا:
”ان کا یہ اعتراض لغو تھا کیونکہ عربی زبان میں ”ما“ غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور حضرت عیسی اور عزیر علیہ السلام ذوی العقول ہیں۔ سو یہ آیت ان پر چسپاں نہیں ہوتی “
(حوالہ بالا)
بلاشبہ وہ اس آیت کا مصداق نہیں لیکن یہ بات درست نہیں کہ لفظ ”ما“ غیر ذ والعقول کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ ذوی العقول اور غیر ذوی العقول ہر دو کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ فریق ثانی کو ذ والعقول کے لئے استعمال سے انکار ہے تو اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
1 : اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ کہیں :
‎ ﴿وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ﴾ ‏
(109-الكافرون:3، 5)
خود سعیدی صاحب نے اس طرح ترجمہ لکھا:
”نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔“
( تبیان القرآن 1012/12)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اور صرف اللہ عز وجل ہی کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس آیت میں لفظ ما اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے استعمال ہوا۔
2 : اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾
(38-ص:75)
فرمایا ”اے ابلیس! تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ “
(ترجمه از سعيدي، تبيان: 134/15)
اور اس کی تفسیر میں لکھا : ” حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق فرمایا: میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ “
(حوالہ بالا149/10)
سیدنا آدم عالیہ السلام یقینا ذوی العقول میں سے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ لِمَا خَلَقْتُ ، فرمایا لِمَن خَلَقْتُ نہیں فرمایا۔ ثابت ہوا کہ ما ذ والعقول کے لئے بھی آتا ہے، جیسا کہ سید نا آدم علیہ السلام کے لئے وارد ہوا۔
3: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾
(4-النساء:3)
سعیدی نے ترجمہ لکھا: ”تمہیں جو عورتیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو ۔ “
( تبیان القرآن 546/2)
ما لفظ خواتین کے لئے وارد ہوا جو ذوی العقول ہیں ۔ مَنْ طَابَ لَكُم نہیں فرمایا گیا۔
4 : اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾
(4-النساء:22)
سعیدی صاحب نے ترجمہ کیا : ” اور ان عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرو جن کے ساتھ تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہیں“
(تبیان 603/2)
اس آیت میں بھی عورتیں جو ذوی العقول ہیں ان کے لئے ”ما“ کا لفظ وارد ہوا ، یہاں بھی مَنْ نَكَحَ نہیں فرمایا گیا۔ یقیناً پتھر کے بے جان بتوں سے نکاح نہیں ہوتا۔
7،6،5 : قرآن مجید میں کئی بار ارشاد ہوا:
﴿مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾
(4-النساء:3، 24، 25)
سعیدی صاحب نے ترجمہ کیا : یا اپنی مملوکہ کنیزوں سے۔
(تقیان 546/2)
دوسری جگہ ترجمہ کیا: ”جن عورتوں کے تم مالک بن جاؤ ۔“
(قیان 620/2)
یہاں بھی مملوکہ عورتوں کے لئے ”ما“ کا لفظ وارد ہوا، حالانکہ وہ ذوالعقول ہیں، ان کے لئے ”من ملكت ايمانكم“ کا لفظ نہیں آیا۔
8: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
‎وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ﴿۳﴾ ‏
(90-البلد:3)
سعیدی ترجمہ:” اور ( انسان کے) والد کی قسم اور اس کی اولاد کی ۔“
( تبیان 746/12 )
تفسیر میں لکھا: والد سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور اس کی اولاد سے مراد ان کی نسل ہے۔
(ایضاً 752/13)
گویا یہاں پوری نسل انسان کے لئے ”ما“ کا لفظ وارد ہوا ۔ کیا پوری کی پوری انسانیت غیر ذوی العقول ہے۔ (معاذ اللہ ) مثالیں تو اور بھی دی جاسکتی ہیں کہ لفظ ما ذوی العقول کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ استعمال اس قدر غلط و بعید از قواعد لغت ہوتا تو قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں قطعاً وارد نہ ہوتیں۔ اگر یہ اتنا ہی ناممکن ہوتا جتنا کہ مراد آبادی، گجراتی ، سعیدی اور بھیروی و غیر ہم بریلویوں نے سمجھ رکھا ہے تو (بشرط ثبوت ) ایسے کسی اعتراض پر افصح الناس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ ان کے خدام میں سے کوئی خادم ہی کہہ دیتا، نادانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے اپنی ہی زبان سے اس طرح جہالت کی حد تک بے خبر ہو کہ یہ تک نہیں جانتے کہ ما ذوی العقول کے لئے تو آتا ہی نہیں ، عیسی علیہ السلام، عزیر و ملائکہ علیہ السلام تو ذوالعقول ہیں ، پھر تمہارا اعتراض کس قدر غلط اور لغو ہے۔!!!
صحیح سند کے ساتھ ایسی کوئی بات یا جواب میرے علم میں نہیں ، اگر چہ بعض مفسرین نے بغیر سند کے ایسا کچھ لکھ رکھا ہے۔ الغرض کہ سورۃ الانبیاء کی ان آیات سے بھی من دون الله کا مفہوم خوب واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں انبیاء علیہم السلام ، ملائکہ اور نیک بندے بھی شامل ہیں وگرنہ اس وضاحت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ مزید وضاحت کے لئے تفسیر قرطبی میں سورۃ انبیاء کی ان آیات کی تفسیر دیکھ لی جائے۔

فریق ثانی کے مغالطات

مثبت دلائل کے بعد اب یہ دیکھئے کہ فریق ثانی ان نصوص قطعیہ صریحہ کے خلاف کیا مغالطات دیتے ہیں اور ان مغالطات کا کیا جواب ہے۔ نعیمی گجراتی صاحب نے اگر اس مسئلہ پر کوئی تفصیلی بحث کی بھی ہے تو ہمارے علم میں نہیں، البتہ جہلم کے غلام نصیر الدین سیالوی صاحب نے اپنی کتاب میں بزعم خود چند دلائل دیے ہیں، اسی طرح طاہر القادری صاحب نے بھی اس بات کو الجھانے کے لئے کافی جتن کیے ہیں ۔ اس مضمون میں ہم سیالوی صاحب کے نام نہاد دلائل کا جائزہ لے رہے ہیں، ان شاء اللہ کسی دوسری فرصت میں قادری مغالطات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ ان کے جوابات ملاحظہ کیجئے:

پہلا سیالوی مغالطہ :

اپنی پہلی دلیل دیتے ہوئے سیالوی مذکور نے لکھا:
ان (من دون الله) کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ‎ ﴿٦٢﴾ ‏
(22-الحج:62)
”اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور جس کو یہ پکارتے ہیں اس کے سوائے سو وہ باطل ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اگر انبیاء و اولیاء بھی (من دون الله ) میں شامل ہوں تو لازم آئیگا کہ وہ باطل ہوں حالانکہ انبیاء و اولیاء کو باطل کہنا ان کی توہین ہے ۔“
(ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی تحقیق ص 179-180)

جواب:

اس دلیل کی حقیقت جاننے سے پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ اپنی اسی نام نہاد علمی تحقیق میں سیالوی صاحب نے من دون الله کا ترجمہ کیا لکھا ہے؟
1 : ( فاطر 130 ) ”جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو۔ “
(ص 181)
2 : (التوبہ: 116) ”تمہارا اللہ کے علاوہ نہ کوئی مددگار ہے ۔ “
(ص185)
3 : (الحج 73 ) ”جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو۔ “
(ص186)
محولہ بالا تین آیات میں من دون الله کی ترکیب وارد ہوئی ، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خود سیالوی مذکور نے تینوں جگہ ترجمہ میں لکھا: ”اللہ کے علاوہ “ کیا سیالوی مذکور صاف الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے علاوہ نہیں ہیں ؟ بہر حال ”اللہ کے علاوہ “یا ”اللہ کے سوا“ کا کیا مفہوم ہے یہ ہم آغاز میں عرض کر آچکے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آیت نقل کر کے اس کی جس تشریح کو سیالوی صاحب نے تو ہین قرار دیا، بلاشبہ وہ تشریح انبیاء علیہم السلام کی توہین ہی ہے اور یقیناً یقیناً باطل ہے۔ لیکن اس آیت کا تو یہ مفہوم ہے ہی نہیں ۔ درحقیقت اس آیت میں معبودوں کو نہیں بلکہ ان کی عبادت کیے جانے کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے چند نامور بریلوی اکابر سے اس آیت کا درست ترجمہ ملاحظہ کیجئے:
1 : احمد سعید کاظمی ملتانی صاحب نے ترجمہ کیا:
”یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور (یہ مشرکین ) اللہ کے سوا جس کی عبادت کرتے وہ باطل ہے۔ “
(البیان، ترجمہ، حج:62)
2: ابوالحسنات قادری نے ترجمہ کیا:
”یہ اس لئے کہ اللہ حق ہے اور اس کے سوا جسے پوجتے ہیں وہی باطل ہے ۔ “
3 : سعیدی صاحب نے ترجمہ کیا:
(تفسیر الحسنات 393/4)
”اللہ ہی حق ہے اور یہ (مشرکین ) اس کے سوا جس کی عبادت کرتے ہیں وہ باطل ہے۔ “
( تبیان 7 /775)
پھر اس کی تفسیر میں لکھا:
”کیونکہ اللہ ہی حق ہے .اور اس کی عبادت کرنا حق ہے اور اس کے غیر کی عبادت کرنا باطل ہے۔ “
(ایضاً 792/7)
ان تراجم و تفسیر سے یہ بات واضح ہے کہ آیات میں خود من دون الله کو باطل نہیں کہا گیا بلکہ ان سے دعا کو باطل کہا ہے ۔ يدعون کا مصدر” دعا“ ہے اور آیت میں ضمیر کا مرجع یہ دعا ہے جو کہ واحد ہے۔ مشرکین جن کو پکارتے تھے وہ بہت سے ہیں۔ اگر مزید وضاحت چاہیں تو قرآن مجید کی اس آیت پر غور کر لیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ﴾
(13-الرعد:14)
” اسی کو پکارنا حق ہے اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی التجا قبول نہیں کر سکتے۔ “
دونوں آیات پر غور کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنا حق ہے اور غیر اللہ کو پکارنا یعنی اُن سے دعا مانگنا باطل ہے۔ اس سے انبیاء علیہم السلام کی تو ہین قطعاً لازم نہیں آتی ۔ سیالوی مغالطہ کا فور ہو جاتا ہے۔

دوسرا سیالوی مغالطہ:

سیالوی صاحب نے بزعم خود اپنی دوسری دلیل دیتے ہوئے لکھا: ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾
(7-الأعراف:3)
”نہ چلو اس کے سوا بھی رفیقوں کے پیچھے۔“
یہاں اللہ تعالیٰ نے ”من دونه“ کی اتباع سے منع فرمایا ہے اگر انبیاء و اولیاء بھی (من دون الله ) میں داخل ہوں تو ان کی اتباع بھی منع ہوگی۔
حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ﴾
(3-آل عمران:31)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اللہ تعالی مومنین کو تلقین فرمارہے ہیں پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (من دون الله ) میں داخل کیسے ہو سکتے ہیں۔“
( ندائے یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی تحقیق ص180)

جواب :

معلوم نہیں سیالوی صاحب واقعی اتنے بے علم ہیں یا اپنی بات منوانے کے لئے تجاہل عا فارنہ سے کام لیتے ہوئے اس سخن سازی پر مجبور ہوئے ، اور یہ غلطیاں جمع کر دیں وہ بھی ”نفیس بحث“ کے خوشنما عنوان سے۔
قارئین کرام ! ان کے اس فریب کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے مکمل آیت ملاحظہ کریں۔
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ‎ ﴿٣﴾ ‏
(7-الأعراف:3)
” اے لوگو اس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا اور اُسے چھوڑ کر حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ بہت ہی کم سمجھتے ہو۔ “
(ترجمه از احمد رضا خان بریلوی)
آسان الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ ہے:
”اس چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ اولیاء کی پیروی مت کرو تم بہت کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔“
اس آیت میں پہلے ” منزل من الله “مطلب ”اللہ کی طرف سے نازل شدہ“ کی اتباع کا حکم ہے اور پھر ” من دونه “ اس نازل شدہ کے علاوہ کی پیروی کی ممانعت ہے۔ یہاں ” من دونه“ کا مطلب سرے سے یہ نہیں کہ ”اللہ کے علاوہ“ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کے علاوہ ادنیٰ درجے کے طلبا سے بھی یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ ”دونه“ میں ” ه“ ضمیر کا مرجع ”منزل من الله “ہے نہ کہ اللہ ۔ اور خاں صاحب کے ترجمے سے بھی یہ بات واضح ہے ۔ سیالوی صاحب کے علاوہ شاید ہی کسی فرد نے جہالت کی حد تک ایسی غلط تشریح کی ہو۔ اگر سیالوی صاحب ایسے ہی نادان طفل مکتب نہیں تو یہ صریح دھوکا ہے۔
منزل من الله کیا ہے؟ اب ذرا اس کی بھی وضاحت ہو جائے کہ منزل من الله کیا ہے؟ اہل حق کی طرح بریلوی بھی اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن وحدیث ثابت منزل من الله ہیں۔ بعض بریلوی علماء کی تصریحات ملاحظہ کیجئے:
1 : پیر کرم شاہ بھیروی صاحب نے اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا:
” فرمایا جا رہا ہے ہم نے اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کی طرف جو شریعت ، جو احکام نازل کئے ہیں اس کی تعمیل سے سرِ مو انحراف نہ کریں اور انہیں چھوڑ کر کسی اور نظام قانون کا اتباع نہ کرنے لگیں۔ علماء متقین نے تصریح کی ہے کہ جس طرح احکام قرآنی منزل من الله ہیں اسی طرح وہ احکام جن کو زبانِ رسالت نے بیان کیا ہے وہ بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتی رائے نہیں بلکہ وحی الہی ہیں یعنی الكتاب والسنة (الــقــرطبي) و يعم القرآن و السنة لقوله تعالى وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحى يوحى (بیضاوی) علامہ بیضاوی فرماتے ہیں کہ ان سے مراد کتاب وسنت دونوں ہیں کیونکہ سنت نبوی بھی منزل من الله ہے۔ ارشاد الہی ہے کہ میرا محبوب اپنی ذاتی خواہش سے تو بولتا بھی نہیں جو بذریعہ وحی اسے حکم ملتا ہے وہی اس کی زبان پر آتا ہے“
(ضیاء القرآن 10/2)
2 : ان کے سعید الملت‘غلام رسول سعیدی صاحب نے لکھا: اس آیت میں امت کو یہ حکم دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ اس کی اتباع کریں اور اس پر عمل کریں، اور اس آیت میں احادیث مبارکہ کے حجت ہونے پر دلیل ہے، کیونکہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم پر قر آن مجید نازل کیا گیا ہے اسی طرح آپ پر احادیث مبارکہ بھی نازل کی گئی ہیں. اس آیت کے علاوہ اور بھی متعدد آیات میں احادیث مبارکہ کے حجت ہونے پر دلیل ہے“
(تبیان القرآن 38/4)
الغرض کہ اس آیت میں قرآن و حدیث کی پیروی کا حکم ہے اور اس کے علاوہ اولیاء کی پیروی کی ممانعت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے کوئی کافر ہی انکار کر سکتا ہے، لیکن وہ من دون الله تھے؟ نعوذ باللہ نہیں تھے۔ اور آیت میں من دون الله کی نہیں بلکہ ” من دون الله أنزل الله “کی اتباع سے ممانعت ہے۔ اس آیت سے بھی سیالوی خواب پورا نہیں ہوتا۔

تیسرا سیالوی مغالطہ:

لکھا ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ﴾
(35-فاطر:13)
” جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی پر موجود باریک جھلی کے بھی مالک نہیں۔ یہ آیت بھی اس پر واضح دلیل ہے کہ من دون الله میں انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرضوان داخل نہیں ہیں ۔“
(ندائے یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ص )

جواب :

حسب معمول اس مقام پر بھی سیالوی صاحب بے سوچے سمجھے بول اٹھے ہیں، وگرنہ ان کے اس اشکال کا حل تو ان کے اپنے ترجمہ میں ہی موجود ہے، موصوف نے ترجمہ میں صاف صاف لکھ رکھا ہے : ”اللہ کے علاوہ “ سیالوی صاحب یہ قطعاً نہیں کہہ سکتے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ نہیں بلکہ اللہ ہی ہیں (نعوذ باللہ ) اگر وہ ایسا نہیں کہتے اور امید ہے کہ نہیں کہیں گے تو سوچیں کہ یہ کس طرح لکھ دیا کہ (من دون الله) میں انبیاء کرام علیہم السلام داخل نہیں ہیں ، یہ کہنے کا واضح مطلب یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام اللہ کے علاوہ نہیں چونکہ من دون الله کا ترجمہ خود جناب نے بھی اللہ کے علاوہ ہی کیا ہے۔
مزید وضاحت کے لئے آیت بھی ملاحظہ کیجئے جواسی تسلسل میں ہے، پھر چند بریلوی
علماء کی تفاسیر ملاحظہ کیجئے ، سیالوی مغالطہ کا بطل مزید واضح ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ‎﴿١٣﴾‏ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ‎﴿١٤﴾‏
(35-فاطر:13، 14)
” اور وہ (باطل معبود) جنھیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے کسی چھلکے کے (بھی) مالک نہیں (اے مشرکو ) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو وہ تمہاری التجا کو قبول نہ کر سکیں گے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے (اور اے سننے والے) تجھے (کوئی) نہ بتائے گا خبر رکھنے والے کی طرح “
( ترجمه از کاظمی ملتانی صاحب)

تنبیہ:

کاظمی صاحب نے اکثر مقامات کی طرح اس مقام پر بھی تدعون کا ترجمہ پوجتے ہو کیا ہے، حالانکہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ درست ترجمہ ”پکارتے ہو“ ہے جیسا کہ سیالوی صاحب نے” پکارتے ہو “ترجمہ کیا ہے، چونکہ اس سے آگے والی آیت میں ”دعا“یا ”التجا“ کے سننے نہ سننے کا تذکرہ ہے اور پوجنا قابل سماعت نہیں ہوتا الا یہ کہ ”پوجا “میں دعا و پکار کو بھی شامل کیا جائے۔ بہر حال پوجنا ترجمہ کرنا غیر اللہ سے دعائیں مانگنے والوں کی اشد مجبوری ہے، وگرنہ اپنے قول وفعل کا دفاع مشکل ہو جاتا ہے۔
اب بعض بریلوی مفسرین سے ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کیجئے جس سے یہ بات بالکل ظاہر ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام بھی من دون الله میں داخل وشامل ہیں۔
1 : اور ان کے پیر کرم شاہ صاحب بھیروی نے لکھا:
”علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ بت تو اس لئے جواب نہیں دیں گے کہ وہ بے جان نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں لیکن جو کم بخت فرشتوں کو یا اللہ تعالیٰ کے مقربین کو پکارتے ہیں وہ اس لئے جواب نہیں دیں گے کہ ان گمراہوں نے انہیں خدا سمجھ رکھا تھا حالانکہ وہ خدا بننے سے بالکل الگ تھے پس وہ ایسے لوگوں کی فریاد کا جواب کیوں دیں گے جو اتنی بڑی تہمت لگا رہے تھے۔“
(ضیاء القرآن 149/4)

تنبیہ:

اس آیت اور تفسیر پر ہم قدرے تفصیلی گفتگو اپنے مضمون ”غیر اللہ“ سے دعا اور چند قرآنی سوالات میں کر چکے ہیں۔
2 : قاضی ثناء اللہ پانی پتی نقشبندی صاحب نے لکھا:
أى الذين تعبدونها من الاصنام وغيرها كائنة من دونه تعالى ما يملكون من قطمير
” اللہ کے علاوہ بت یا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔“
(تفسیر مظہری: 50/8)

تنبیه :

قاضی پانی پتی صاحب بریلویہ کے معتمد مفسر ہیں۔
3: سعیدی صاحب نے اس آیت سے اگلی آیت کی تفسیر میں لکھا:
”قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، یعنی وہ اس سے انکار کر دیں گے کہ تم نے ان کی عبادت کی ہے اور تم سے بیزاری کا اظہار کریں گے، اللہ تعالیٰ ان بتوں کو زندہ کر دے گا اور وہ یہ خبر دیں گے کہ وہ اس کے اہل نہ تھے کہ اُن کی عبادت کی جاتی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد ان کے وہ معبود ہوں جو ذوی العقول ہیں جیسے حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر اور ملائکہ اور وہ قیامت کے دن مشرکین کی عبادت سے برأت کا اظہار کریں گے، قرآن مجید میں ہے . جب اللہ فرمائے گا: اے عیسی بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ تم اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو، عیسی کہیں گے تو پاک ہے میرے لئے یہ جائز نہ تھا کہ میں وہ بات کہتا جوحق نہیں ہے۔ “
( تبیان القرآن 9/ 667)
فرضی بتوں کے زندہ کرنے کی صراحت نصوص میں تو ہمیں نہیں ملی باقی جن حقیقی مقرب بندوں کی پرستش ہوئی ہے ان کے اظہار بیزاری کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ اور یاد رہے کہ سیالوی صاحب کی نقل کردہ آیت پر بات ختم نہیں ہورہی بلکہ اس سے اگلی آیت پر یہ بیان مکمل ہوتا ہے۔ تو بھیروی وسعیدی صاحبان کی تفسیر کے مطابق یہ بات سید نا عیسی وعزیر علیہ السلام کے بارے میں بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا ‎ ﴿٥٦﴾ ‏ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ‎ ﴿٥٧﴾ ‏
(17-الإسراء:56، 57)
”آپ کہہ دیجئے کہ تم پکارو ان لوگوں کو جن کو تم نے اللہ کے سوا ( مشکل کشا ) گمان کر رکھا ہے، پس وہ تم سے نہ کسی ضرر کو دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ اس کو بدل دینے کے (مالک ہیں۔ ) جن لوگوں کو یہ (مشرکین ) پکارتے ہیں وہ تو اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں جوان میں سے زیادہ قریب ہیں اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرے رب کا عذاب وہ ہے جس سے ہمیشہ ڈرا جاتا ہے۔ “
اب ان آیات کی تفسیر میں بریلوی مفسر سعیدی صاحب نے لکھا ہے:
”اس آیت سے مقصود مشرکین کا رد ہے، وہ کہتے تھے کہ ہم خود اس لائق نہیں کہ اللہ کی عبادت کریں بلکہ عبادت کے لائق تو مقربین ہیں یعنی اللہ کے فرشتے پھر انہوں نے فرشتوں کے فرضی مجسمے بنارکھے تھے اور اس تاویل سے بتوں کی عبادت کرتے تھے بعض مفسرین نے کہا وہ حضرات عیسیٰ اور حضرت عزیر کی عبادت کرتے تھے اور ان کی عبادت کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تم سے کسی ضرر کو دور کر سکتے ہیں اور نہ تم کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں“
(تبیان القرآن 745/6)
سعیدی صاحب کی اس تفسیر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سید نا عیسی ،سید نا عز یر اور ملائکہ علیہ السلام بھی کسی ضرر کو دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، قرآن مجید کے الفاظ ہیں:
﴿فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا﴾
” کہ نہ وہ تم سے تکلیف دور کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں نہ اس تکلیف کو پھیر دینے کا ۔“
پھر اس سے اگلی آیت سے واضح ہے کہ یہ بات مقرب اور صالح کے بارے میں کہی گئی ہے۔ سیالوی صاحب انبیاء علیہ السلام اور صالحین کو من دون الله ماننے سے انکاری ہیں لیکن قرآن مجید کی نصوص کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے ہم مسلک لوگ بھی داخل مانتے ہیں۔

چوتھا سیالوی مغالطہ :

سیالوی نے لکھا ہے :
من دون الله کی شان تو یہ ہے کہ وہ کھجور کی گٹھلی پر موجود باریک جھلی کے بھی مالک نہیں ہیں اور انبیاء کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا﴾
(4-النساء:54)
” سو ہم نے دی ہے ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں کتاب اور علم اور ان کو دی ہے ہم نے بڑی سلطنت ۔“
اُس آیت کریمہ سے ثابت ہو گیا کہ من دون الله تو کسی شے کے مالک نہیں اور انبیاء کرام علیہ السلام ملک عظیم کے مالک ہیں ۔
(ندائے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص 18)

جواب:

حسب معمول یہاں بھی آیت پر غور کیے بغیر سیالوی صاحب نے یہ تقریر کی ہے۔ ان کے ”مجدد “صاحب نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
”تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔ “
( کنز الایمان )
حاشیے میں اس کی تفسیر کرتے ہوئے ان کے ” صدر الافاضل“ نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے لکھا: ” جیسا کہ حضرت یوسف اور حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو“
(خزائن العرفان ص 156)
سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
”حضرت ابراہیم کی آل میں نبی اور رسول مبعوث کئے گئے جن کو یہ کتاب اور حکمتیں دی گئیں . ملک عظیم بھی دیا گیا جیسے حضرت یوسف ، حضرت داود اور حضرت سلیمان کو ملک دیئے گئے “
(بیان القرآن 2/ 696)
”سیالوی صاحب کی پیش کردہ آیت بلکہ کسی بھی آیت یا حدیث میں اس بات کا ثبوت نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو ملک یعنی بادشاہت عطا ہوئی۔سید نا داود علیہ السلام طالوت کے بعد بادشاہ بنے۔ “
(بقرة: 248-251)
” اسی طرح سید نا داود علیہ السلام کی موجودگی میں سیدنا سلیمان علیہ السلام بادشاہ نہ تھے، اُن کے بعد بنے۔“
(النمل:16)
”اسی طرح دیگر نصوص کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاطر میں وہ اختیارات مراد ہیں جو اسباب کے علاوہ ہیں ۔ اسی طرح یہ جو فرمایا کہ وہ تمہاری دعائیں نہیں سنتے اگر سن بھی لیں تو تمہاری دعائیں قبول نہیں کر سکتے ۔“ سے معلوم ہوا ہے کہ فوت شدہ اور بعید لوگ مراد ہیں۔ وگرنہ زندہ اور قریب یا کچھ فاصلہ پرسن لینا تو امور عادیہ وطبعیہ میں سے ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ قریب اور زندہ لوگوں سے دعائیں مانگی جائیں، چونکہ دعا عبادت ہے جو اللہ ہی کا حق ہے۔

پانچواں سیالوی مغالطہ :

سیالوی نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَ كَذٰلِكَ مَكَنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّءُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ﴾
” یوں قدرت دی ہم نے یوسف علیہ السلام کو اس زمین میں جگہ پکڑتے تھے جہاں چاہتے ۔“
”اس کی تفسیر میں مولوی شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام جہاں چاہتے اترتے اور جہاں چاہتے تصرف کرتے۔“
اس آیت سے بھی ثابت ہو گیا کہ من دون الله میں انبیاء و اولیاء شامل نہیں۔
(ندائے، ص 181)

جواب:

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی ارشاد فرمایا ، لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس ”تمکنت “سے مراد جمیع اختیارات ہیں، خواہ وہ اسباب سے بالا تر ہی کیوں نہ ہوں؟ سیالوی صاحب کے اس استدلال کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جناب نے قرآن مجید تو در کنار شاید سورہ یوسف کو بھی بغور نہیں پڑھا، چونکہ اسی سورت میں کچھ آگے یہ بھی ہے:
﴿كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ﴾
(12-يوسف:76)
اس آیت کا ترجمہ و تفسیر بھی بریلوی پیر بھیروی صاحب سے ملاحظہ کیجئے ،لکھا ہے:
” یوں تدبیر کی ہم نے یوسف کے لئے نہیں رکھ سکتے تھے یوسف اپنے بھائی کو بادشاہ مصر کے قانون میں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے “
(ضیاء القرآن 446/2)
پھر تفسیر کرتے ہوئے لکھا:
”اللہ کی تائید اگر، حاصل نہ ہوتی تو حضرت یوسف کے لئے اپنے ملکی قانون کے مطابق بھائی کو رکھ لینا ممکن نہ تھا۔ “
(447/2)
لیجئے سیالوی صاحب یہ آپ لوگوں کے ایک پیر صاحب کی تفسیر ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت اور اس تفسیر سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو ملک مصر جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو تمکنت عطا فرمائی وہاں بھی جمیع اختیارات حاصل نہ تھے تو پوری کرہ ارض پر اور بعد از وفات بھی کس طرح جمیع اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں؟ اس آیت سے یہ تو قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ انبیاء علی من دون الله مطلب اللہ کے علاوہ نہیں ہیں ۔ پھر اولیاء کا تو سرے سے کوئی تذکرہ اس آیت میں نہیں ۔ معلوم نہیں سیالوی صاحب کس بنا پر ہر جگہ اولیاء بھی ساتھ ساتھ لکھتے گئے ؟؟!!

چھٹا سیالوی مغالطہ :

سیالوی نے لکھا ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا ‎ ﴿٨٣﴾ ‏ إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ
(18-الكهف:83، 84)
اور جب وہ تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کو کہہ اب پڑھتا ہوں تمہارے آگے اس کا کچھ احوال ہم نے اس کو جمایا تھا ملک میں اور دیا تھا ہم نے اس کو ہر چیز کا سامان۔
(ترجمہ محمود الحسن، ندائے، ص 181)

جواب:

بلاشبہ ذوالقرنین ایک نیک اور عادل بادشاہ تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو عظیم بادشاہت عطا فرمائی ، لیکن قرآن مجید میں فارق عادات چیزوں کے عطا کیے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں بریلویہ کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے لکھا ہے:
”ذوالقرنین کا تصرف اور اس کا اقتدار. اس آیت کا معنی ہے ہم نے اس کو ملک عظیم عطا کیا تھا اور ایک بادشاہ کو اپنی سلطنت قائم کرنے کے لیے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ہم نے وہ چیزیں اس کو عطا کی تھیں اور ہم نے اس کو تمام اطراف مملکت میں تصرف کرنے کی قدرت عطا کی تھی اور ہم نے اس کو ہر قسم کے آلات حرب اسباب اور وسائل عطا کئے تھے جن کی وجہ سے وہ تمام مشارق و مغارب کا حکمران ہو گیا تھا اور تمام ممالک اس کے تابع ہو گئے تھے اور عرب اور عجم کے تمام بادشاہ اس کے اطاعت گزار ہو گئے تھے۔“
(تبیان القرآن 203/7)
اس تفسیر سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا سارا تصرف ظاہری اور امور سلطنت سے متعلق تھا۔ اور اس کی ضرورت کا ہر سامان اسے ملا ہوا تھا۔ لہذا اس آیت سے یہ بات قطعا ثابت نہیں کہ وہ مافوق الاسباب امور پر قدرت رکھتا تھا، اور لوگوں کی دعائیں سننے کی طاقت رکھتا تھا۔ نہ اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ من دون الله مطلب اللہ کے علاوہ یا اللہ کے سوا نہ تھا۔

ساتواں سیالوی مغالطہ :

سیالوی صاحب نے لکھا ہے:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ‎ ﴿١٠٥﴾ ‏
(21-الأنبياء:105)
”اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے ( ترجمہ محمود الحسن ) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ انبیاء کرام علیہ السلام اور اولیاء کرام علیہم الرضوان من دون اللہ میں داخل نہیں کیونکہ من دون اللہ کی شان تو یہ ہے کہ کھجور کی گٹھلی پر موجود جھلی کے بھی مالک نہیں ہیں اور یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث بنیں گے۔“
(ص182)

آٹھواں سیالوی مغالطہ :

لکھا ہے: ارشاد باری تعالی ہے:
﴿إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾
(7-الأعراف:128)
”زمین صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے وارث بنا دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے بھی ثابت ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرضوان من دون اللہ میں داخل نہیں . کہ من دون اللہ کسی ذرہ بھر کے بھی مالک نہیں ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام اس کی عطا سے پوری زمین کے وارث ہیں۔“
(ص182، 183)

جواب :

زمین کا وارث بنانے سے کیا مراد ہے یہ بات خود واضح ہے لیکن معلوم نہیں کیوں سیالوی صاحب ان آیات کو پیش کر کے اس سے اتنا بڑا دعویٰ کر رہے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام ”من دون الله“ میں داخل نہیں ۔ پہلے فریق ثانی کے مفسر سعیدی صاحب کی تفسیر سے ان آیات کی وضاحت ملاحظہ کیجئے ،لکھا ہے:
بعض مفسرین نے کہا اس سے مراد دنیا کی زمین ہے اور اللہ تعالیٰ نے نیک مسلمانوں سے حکومت اور اقتدار عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾
(24-النور:55)
”تم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور اعمالِ صالحہ کر چکے ہیں ، ان سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کر لیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یقیناً ان کے لئے اس دین کو مضبوط کر دے جس کو وہ ان کے لئے پسند کر چکا ہے اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، جو لوگ میری عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ بالکل شرک نہیں کرتے اور جن لوگوں نے اس کے بعد ناشکری کی سو وہی لوگ فاسق ہیں۔ “
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا:
﴿قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ‏
(7-الأعراف:128)
” موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد طلب کرو اور (جنگ کی مشکلات پر ) صبر کرو۔ بے شک زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس زمین کا وارث کرتا ہے۔ “
”ان آیات کا معمل یہ کہ جب نیک مسلمان اللہ کے دین کے نظام کو قائم کرنے کی کوشش اور جد و جہد کریں گے تو اللہ ان کی مدد کرے گا اور اپنے فضل سے انکوز مین پر اقتدار عطا فرمائے گا۔ “
(التبیان 681/7)
یہ آیات اور بریلوی مفسر سے ان کی وضات آپ کے سامنے ہیں، ان میں اہل ایمان کواقتدار دینے کی جو بات ہوئی اس سے مراد اس زمین پر حکومت ،حکمرانی عطا کرنا ہے۔اور یہ اقتدار مافوق الاسباب امور میں تو نہیں ہوتی ۔ پھر ان آیت سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام من دون الله یعنی اللہ کے سوا نہیں؟
اگر سیالوی صاحب اس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں اللہ نے اپنے بندوں، مطلب مومن صالح بندوں کو زمین پر حکومت دینے کی بات کی جب کہ مولوی صاحب کے زعم کے مطابق من دون الله کو ذرہ برابر اختیار نہیں، لہذا انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام من دون الله کے مصداق نہیں۔ تو سیالوی صاحب کو چاہیے کہ وہ یہ بھی کہہ دیں کہ تمام کے تمام اہل ایمان نیک صالح بندے من دون الله میں داخل نہیں ۔ (نعوذ باللہ ) بلکہ یہ تک فرما دیں کہ کفار بھی من دون الله میں داخل نہیں جب کہ یہ کفار بڑی بڑی حکومتوں کے مالک ہیں ، خواہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکومتیں کسی بھی غرض سے عطا کی ہیں۔ مگر کی تو یقیناً ہیں، بلکہ سیالوی صاحب کو یہ تک کہہ دینا چاہیے کہ دنیا کا کوئی انسان بھی من دون الله میں شامل نہیں، چونکہ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی چیز کا مالک تو ہے ہی اور سیالوی صاحب کے استدلال کی بنیاد بھی یہی بات ہے کہ من دون الله، گٹھلی کے چھلکے اور ذرہ بھر کے مالک نہیں، جبکہ اہل ایمان ہیں۔ تو ان پر لازم ہے کہ اپنی اس سوچ کے مطابق ہر کھجور وذرہ کے مالک کو من دون اللہ میں شامل نہ سمجھیں۔ کم از کم ہر مومن کو خواہ وہ فاسق ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر وہ ایسا نہیں سمجھتے تو اولیاء کی تخصیص کی دلیل ضرور پیش فرمائیں۔
هاتو برهانكم ان كنتم صدقين!

نواں سیالوی مغالطہ :

سیالوی نے لکھا ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ﴾
(38-ص:26)
”اے داؤد ! ہم نے کیا تم کو نائب ملک میں ۔ “
یہ آیت کریمہ اس امر پر واضح دلیل ہے کہ انبیاء علیہ السلام من دون اللہ میں داخل نہیں کیونکہ ان کو ذرہ بھر کا اختیار نہیں ہے اور داؤد علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے زمین میں نیا بت بخشی جو کسی بادشاہ کا نائب ہو وہ اس ملک کے سیاہ وسفید کا مالک ہوتا ہے تو جو اللہ تعالیٰ کا نائب ہے وہ معاذ اللہ کسی پتھر کا نائب ہے کہ اس کو کوئی اختیار نہ ہو؟
(ندائے یا رسول اللہ ص 183)

جواب :

زمین میں خلافت جو بخشی، خلیفہ بنایا تو اس سے مراد اُس زمین میں اللہ کا نازل فرمودہ نظام قائم کرنے والا بنایا۔ چنانچہ جتنا حصہ سیالوی صاحب نے نقل کیا اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی موجود ہے:
﴿فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾
(38-ص:26)
” سو آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجئے اور خواہش کی پیروی نہ کیجئے ، ورنہ وہ ( پیروی ) آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ “
( ترجمه از تبیان القرآن 49/10)
اور یہاں زمین میں خلافت سے مراد پوری زمین کی خلافت بھی نہیں، آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء کی نبوت مخصوص وقت اور علاقے کے لیے ہوتی تھی۔ اس حقیقت کو اپنے مفسر غلام رسول سعیدی صاحب کے الفاظ
میں ملاحظہ کر لیجئے ،لکھا ہے:
”سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جو نبی اور رسول بھیجے جاتے ہیں وہ ایک مخصوص علاقے مخصوص زمانے اور مخصوص قوم کے رسول ہوتے تھے تو ان پر ان کی عبادات اور معاملات کے لئے جو احکام نازل کئے جاتے تھے وہ احکام بھی ایک مخصوص وقت تک کے لئے ہوتے تھے۔“
(تبیان 78/10)
اگر سیالوی صاحب اس خلافت عطا کیے جانے سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام من دون الله میں شامل نہیں ہیں تو( سوره نور: 55) پیش کر کے وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ تک جتنے بھی خلیفہ ہوئے وہ بالعموم اور عادل خلفاء جیسے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ وغیر ہم بالخصوص من دون الله میں شامل نہیں کہ اہل ایمان کو خلافت اللہ ہی نے عطا فرمائی اور خلیفہ بنایا۔ اسی طرح کفار میں سے جن جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت ہی سے بادشاہت عطا کی نعوذ باللہ وہ بھی ”من دون الله“ میں شامل نہیں ہیں؟ جس قسم کے دلائل سے سیالوی صاحب معارضہ پیش کر رہے ہیں اس قسم کے دلائل سے تو دنیا کے تمام افراد من دون الله سے خارج ثابت ہوتے ہیں۔(نعوذ باللہ)

سیالوی صاحب اور کلیات

”سیالوی صاحب کی اس تحریر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ منطق کے بعض کلیات سے بھی کچھ واقفیت رکھتے ہیں، خواہ ان کے انطباق میں جناب کو منہ کی کھانی پڑے۔ بہر حال ایسے ہی کچھ کلمات پیش کرتے ہوئے لکھا: اس آیت سے اگر چہ صرف داؤد علیہ السلام کی خلافت ثابت ہوتی ہے حالانکہ اہل سنت کا دعوئی تو یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام با اختیار ہیں لیکن یہ دلیل ہم نے اس بنا پر پیش کی ہے کہ وہابی حضرات سالبہ کلیہ کے مدعی ہیں کہ کوئی نبی ولی کسی شی کا اختیار نہیں رکھتا تو یہاں سے داؤد علیہ السلام کا زمین میں با اختیار ہونا ثابت ہو گیا تو ان کا سالبہ کلیہ کا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا کیونکہ سالہ کلیہ کی نفیض موجیہ جزئیہ ہوتی ہے۔ “
(ص183)

جواب :

سب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ یہ اہل حق پر بہت بڑا بہتان ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کے لئے کسی شی کا اختیار تسلیم نہیں کرتے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا جتنا چاہا اختیار دیا۔ تو اس لحاظ سے ان کا بنایا سالبہ کلیہ نرا بہتان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بریلویہ کسب و اسباب سے ہٹ کر بھی بہت اختیارات کے حصول کے مدعی ہیں حتی کہ ان مقربان الہی کی وفات کے بعد بھی ان کے لیے ایسے اختیارات مانتے ہیں کہ حاجت روائی ، مشکل کشائی کر سکتے ہیں، دھن دولت ، شان و شوکت ، عزت و ذلت دے سکتے ہیں،غرضیکہ ہر وہ نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے عام بندوں کو نوازتا ہے ایسی بہت سی نعمت دینے پر اختیار رکھتے ہیں۔ یہ عقیدہ کسی دلیل سے ثابت نہیں۔ لوگ جو اپنے ایسے عقیدے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے کچھ نام نہاد دلائل پیش کرتے بھی ہیں ان سے یہ عقیدہ ثابت ہی نہیں ہوتا۔
اب رہا مسئلہ کلیات کا تو سیالوی صاحب نے جو اپنا دعویٰ پیش کیا ہے کہ ”تمام انبیاء علام با اختیار ہیں“ ان کا یہ دعویٰ کلیات کے اعتبار سے ”موجبہ کلیہ“ ہے جس کی نقیض ” سالبہ جزئیہ “بھی ہوسکتی ہے۔ ہم گزشتہ صفحات میں قرآن مجید کی آیات اور ان کی تفسیر میں بریلوی توضیحات و اعتراضات سے یہ بات نقل کر آئے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ کے سوا جن سے دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ تکلیف دور کر سکتے ہیں نہ ہی ٹال سکتے ہیں اس کی تفسیر میں بہت سے دیگر مفسرین کی طرح سعیدی صاحب نے لکھا:
”بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ اور عزیر کی عبادت کرتے تھے اور ان کی عبادت کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تم سے کسی ضرر کو دور کر سکتے ہیں اور نہ تم کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں ۔“
( تبیان القرآن 745/6)
اگر چہ قرآنی آیات میں اللہ کے علاوہ ہر ایک کی نفی ہے لیکن بریلوی تفسیر سے بھی سیدنا عیسی وسید نا عزیر علیہ السلام کے ایسے اختیار ، قدرت و تصرف کی نفی ہورہی ہے، ان کی مسلمات کے مطابق بھی یہ کم از کم” سالبہ جزئیہ“ ہے۔ اور ”سالبہ جزئیہ“ موجہ کلیہ کے رد کو کافی ہے۔ ان کا دعویٰ تو غلط ثابت ہو ہی گیا کہ یہ کل کے مدعی ہیں جبکہ بعض کی نفی خود ان کے اعتراف کے مطابق بھی ہوتی ہے، لہذا کلیات کا سہارا بھی انہیں مفید نہیں ہے۔

دسواں سیالوی مغالطہ :

اس کے بعد سیالوی صاحب نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے دعا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اس دعا کی قبولیت اور عطا کردہ سلطنت کا ذکر کر کے لکھا: اس آیت کریمہ اور شبیر احمد عثمانی کی تفسیر سے بھی ظاہر ہوا کہ انبیاء کرام علیہ السلام من دون الله میں داخل نہیں“
(ص:184)

جواب :

(سورۃ ص : 35 تا 39) میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کی دعا اور رب کی عطا کا ذکر ہے اس سے کس کا فر کو انکار ہے؟ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرما کر ایسی بادشاہت عطا فرمائی کہ جو کسی دوسرے فرد کو عطا نہیں کی لیکن اس آیت میں ایسی کوئی بات نہیں کہ انبیاء علیہم السلام من دون الله میں داخل نہیں ! حسب معمول سیالوی صاحب نے اختیار والی بات سے استدلال کیا ہے تو اس کا جواب ہم دے آئے ہیں کہ کچھ نہ کچھ اختیار تو ہر انسان کو حاصل ہے۔ گیارہواں سیالوی مغالطہ لکھا ہے:
ارشاد باری تعالی ہے :
﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ﴾
(3-آل عمران:26)
”اے حبیب! آپ فرمادیجئے کہ اے اللہ تو ہی پورے ملک کا مالک ہے اور جس کو چاہے سارا ملک عطا فرمادے۔ “
”اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے پورا ملک بھی عطا فرما سکتا ہے تو واضح ہو گیا کہ انبیاء علیہ السلام من دون اللہ میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ (من دون اللہ ) تو کسی ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اور یہ حضرات اللہ تعالیٰ کی عطا سے پوری کائنات کے مالک ہیں ، جس طرح مولوی محمود الحسن نے اپنی کتاب ادلہ کاملہ میں لکھا ہے۔ “
(ص 184)

جواب :

اللہ تعالیٰ جسے چاہے پورا ملک ”عطا فرما سکتا ہے“ اور ” عطا فر ما دیا“ دونوں میں بہت فرق ہے، کسی بھی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو پوری کائنات کا مالک بنا دیا ہے۔ ہاں البتہ یہ مولوی سیالوی صاحب اور ان کے ہم مسلک لوگوں کا دعویٰ ضرور ہے لیکن محض دعوئی دلیل نہیں ہوتا۔ پھر ہم گزشتہ صفحات میں عرض کر آئے ہیں کہ سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت بھی مخصوص قوم اور مخصوص علاقوں اور مخصوص وقت تک کے لیے تھی اور مخلوق میں نبوت سے بڑھ کر افضل کیا چیز ہوسکتی ہے، جب اُن کی نبوت بھی پوری زمین کے لوگوں کے لیے نبی تھی تو ان میں سے جن انبیا علیہ عالم کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر ملوکیت عطا فرمائی وہ پوری کائنات کے لئے کس طرح ہو سکتی ہے؟
پھر مولوی سیالوی صاحب نے اپنی اس کتاب کے (ص، 183) (سورۃ ص کی آیات 35 تا 39) نقل کی ہیں اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جیسی بادشاہت عطا فرمائی ایسی بادشاہت کسی کو عطا نہیں کی ، اگر سب ہی انبیاء علیہم پوری کائنات کے مالک تھے تو سید نا سلیمان علیہ السلام کے بادشاہت کی خصوصیت کیا رہی؟ ( نعوذ باللہ ) حالانکہ قرآن مجید تو ان کی بادشاہت کی خصوصیت کو بیان کرتا ہے۔ فرضِ محال اگر سب کے لیے کائنات کی ملوکیت ثابت ہو تب بھی یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ انبیاء علیہم السلام من دون الله، یعنی اللہ کے سوا نہیں جبکہ متعدد آیات سے ثابت ہے کہ من دون الله میں انبیاء بھی شامل ہیں۔

بارہواں سیالوی مغالطہ :

لکھا ہے:
من دون الله کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ‎﴾ ‏
(9-التوبة:116)
” تمہارا اللہ کے علاوہ نہ کوئی مددگار ہے نہ کوئی دوست ۔“
اس سے ثابت ہوا کہ جو من دون الله ہیں وہ کسی کی مدد کرنے پر قادر نہیں ہیں،
(ص 185)

جواب:

کس قدر مہمل بات ہے جو سیالوی صاحب نے لکھ ڈالی ، ان کی اس تحریر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیال سے مخلوق میں من دون الله ایک مخصوص قسم ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، یقیناً ایسا نہیں ہے، پھر اس آیت میں من دون الله کے الفاظ تو ہیں لیکن کسی خاص مخلوق کے لیے نہیں بلکہ خود سیالوی صاحب کے ترجمہ کے مطابق بھی ”اللہ کے علاوہ “ کے لئے ہیں، اور اس بات سے تو سیالوی صاحب بھی انکار نہیں کر سکتے کہ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہی ہیں ،مخلوق میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جسے اللہ کہا جاسکے۔
باقی جواب آئندہ مغالطہ کے جواب میں عرض کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

تیرہواں سیالوی مغالطہ :

لکھتے ہیں:
انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ﴾
(3-آل عمران:81)
”یاد کرو اس وقت کو جب اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس وہ رسول تشریف لائیں جو تصدیق کرنے والے ہوں ہر اُس چیز کی جو تمہارے پاس ہے تمہیں ان پر ایمان بھی لا نا ہوگا اور مدد بھی کرنا ہوگی۔ “
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ من دون الله میں انبیاء علیہم السلام شامل نہیں، اگر انبیاء علیہم السلام من دون اللہ میں شامل ہوتے تو پھر ان کو مدد کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔
(ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص: 185)

جواب :

بلاشبہ اس آیت میں ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ تصدیق بھی کریں ، گے اور نصرت بھی۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ من دون الله یعنی اللہ کے علاوہ نہیں (نعوذ باللہ ) اگر مدد کرنے کی طاقت سے سیالوی صاحب کا یہ استدلال ہے جیسا کہ ہے بھی چونکہ لکھا ہے: ”اگر انبیاء علیہم السلام من دون اللہ میں شامل ہوتے تو پھر ان کو مدد کرنے کی طاقت نہ ہوتی تو مولوی صاحب کو چاہیے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی تمام اہل ایمان امتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ وہ من دون اللہ میں شامل نہیں (نعوذ باللہ ) کیوں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلَمَّا اَحَسَّ عيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللَّهِ اٰمَنَّا بِاللهِ وَ اشْهَدُ بِانَّا مُسْلِمُونَ﴾
”پھر جب عیسی نے ان سے کفر محسوس کیا تو کہا اللہ کی طرف میرے کون مددگار ہیں ، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے(راستہ میں ) مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں گے ہم مسلمان ہیں۔ “
( ترجمہ از سعیدی صاحب ، تبیان القرآن 2/ 178)
بریلویہ کے علامہ و مفسر سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
حضرت عیسی علیہ السلام کے اصحاب کو حواری کہتے ہیں۔
(تبیان 179/2)
”اس آیت سے ثابت ہوا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے اصحاب سب کے سب اُن کے حواری اور مددگار بنے تھے ۔ “
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَ اتَّبَعُوا النَّوْرَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَه أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
”پس جولوگ ایمان لائے اس ( نبی امی ) پر اور تعظیم کی آپ کی اور امداد کی آپ کی اور پیروی کی اُس نور کی جوا تارا گیا آپ کے ساتھ وہی (خوش نصیب) کامیاب و کامران ہیں۔ “
(ترجمه از بھیروی صاحب، ضیاء القرآن 92/2)
اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان آپ کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت پر فوزو فلاح کی خوشخبری دی۔ اس آیت کے مطابق آپ کی نصرت کا حکم جمیع اہل ایمان کے لیے ہے، اور امتیوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من نبي بعثه الله فى أمة قبلي إلا كان له من أمته حواريون و أصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره
” مجھ سے پہلے جو نبی بھی اللہ نے کسی امت میں بھیجا تو ان کی امت میں ان کے حواری و اصحاب ہوتے تھے جو اُن کی سنت اختیار کرتے اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔“
(صحیح مسلم:50)
اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ کوئی بھی نبی علیہ السلام ان کی امت اگر ہوئی تو وہ ان کے حواری یعنی مخلص و مددگار بنے۔ بعض احادیث میں ہے کہ کسی نبی علیہ السلام پر کوئی بھی ایمان نہیں لایا تو وہ مستثنیٰ ہیں۔ بہر حال ہر وہ نبی علیہ السلام جن کے امتی ہوئے تو وہ اپنے نبی کے مددگار بنے۔
اب سیالوی صاحب جس طرح کے انوکھے استدلال کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ کہیں تمام امتوں کے لوگ جو کسی نہ کسی درجہ میں اپنے نبی علیہ السلام کے مددگار ہوئے وہ سب کے سب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تمام اہل ایمان امتنی ”من دون الله“ میں شامل نہیں ہیں، اللہ کے علاوہ نہیں ہیں۔ نعوذ باللہ
پھر بات یہاں پر ختم تو نہیں ہوتی کفار بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ، اولیاء الشیاطین بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں مولوی سیالوی صاحب کے اس استدلال کے مطابق کفار بھی من دون الله میں شامل نہ ہوئے نعوذ باللہ اُن پر بھی من دون الله مطلب اللہ کے علاوہ “ کا اطلاق نہیں ہو گا چونکہ اُن میں بھی مدد کرنے کی طاقت تو ہے (استغفر الله )
سیالوی صاحب اگر مسلکی تعصب سے بالاتر ہوکر انصاف سے غور کریں تو مختلف نصوص قرآنی پر غور کرنے سے اُن پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ (سورہ تو بہ 116) میں جس مدد کی نفی ہے وہ سبب سے بالا تر مدد ہے، نہ کہ اس مدد کی نفی ہے جو اسباب کے ماتحت ہے۔
چونکہ پورے قرآن مجید میں غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد کا ثبوت نہیں ملتا اور ماتحت الاسباب مدد کا ثبوت ملتا ہے۔ الغرض سیالوی صاحب کی اس دلیل سے بھی اُنکا مدعی ثابت نہیں ہوتا۔

چودہواں سیالوی مغالطہ :

لکھا ہے: ارشادِ باری تعالی ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ﴾
(22-الحج:73)
”جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ کبھی بھی پیدا نہیں کر سکتے اور اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس سے کوئی چیز چھڑا نہیں سکتے ۔ “
جبکہ اللہ تعالیٰ کے ولی کی شان قرآن بیان کرتا ہے کہ
﴿قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ﴾
(27-النمل:40)
” کہا اس آدمی نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے تخت آپ کے پاس پیش کرتا ہوں۔ “
”پتہ چلا من دون اللہ کا مقام یہ ہے کہ وہ کبھی سے کوئی چیز چھین نہیں سکتے اور اللہ کے ولیوں کا مقام یہ ہے کہ وہ پلک جھپکنے کے اندر پندرہ سو میل دور پڑے ہوئے تخت کو لا کر پیش کر سکتے ہیں۔ “
(ندائے یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ص 187)

جواب:

(سورۃحج کی آیت: 73) میں کون کون شامل ہیں ، یہ تو سیالوی صاحب کے لکھے ترجمے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ جناب نے من دون الله کا ترجمہ اللہ کے علاوہ لکھا ہے۔ اردو جاننے اور سمجھنے والے کسی فرد کے لیے بھی یہ سمجھنا قطعاً مشکل نہیں کہ ہر وہ ذات و ہستی خواہ وہ عظمتوں اور فضائل کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوں لیکن اسے ہم اللہ نہیں کہہ سکتے تو وہ اللہ کے علاوہ ہے۔ اور کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ کسی عظیم تر مخلوق کو بھی اللہ کہنے کی جسارت و گستاخی نہیں کرے گا۔ اور مولوی سیالوی صاحب کا مقصد تو یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام من دون الله میں داخل نہیں، تو کیا وہ صاف لفظوں میں یہ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء اللہ کے علاوہ نہیں بلکہ اللہ ہیں؟؟ (نعوذ باللہ ) اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اپنے استدلال پر غور کریں کہ اس سے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آیت کی تفسیر میں ان کے ”علامہ سعیدی صاحب نے لکھا:
”جن صورتوں کی یہ تعظیم اور پرستش کرتے تھے یعنی ستارے، سیارے، فرشتے ، انبیاء اور صالحین ، ان میں سے ستارے اور سیارے تو مطلقا کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے ہیں اور اگران سے کوئی چیز چھین لی جائے تو اس کو واپس نہیں لے سکتے ، رہے فرشتے ، انبیاء اور صالحین تو وہ بھی اپنی ذاتی قدرت سے کوئی چیز پیدا کر سکتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی چیز میں کوئی تصرف کر سکتے ہیں، ہر چند کہ حضرت عیسی نے بعض پرندے تخلیق کئے اور بعض مردے زندہ کئے لیکن اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت سے اور اس کی اجازت سے، اسی طرح فرشتے ، انبیاء اور صالحن کا ئنات میں تصرف کرتے ہیں مگر اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کی اجازت سے اور اس کی عطا اور اس کی اجازت کے بغیر نہ یہ بت کچھ بنا سکتے ہیں نہ کچھ تصرف کر سکتے ہیں اور جن ہستیوں کی صورتوں میں یہ بت تراشے گئے ہیں وہ بھی اس کی عطا اور اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز پیدا کر سکتے ہیں اور نہ کسی چیز میں کوئی تصرف کر سکتے ہیں۔ “
( تبیان القرآن 801/7)
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر من دون الله میں انبیاء علیہ السلام اور اولیاء کرام داخل ہی نہیں تو سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کیوں لکھا کہ ”فرشتے ، انبیاء اور صالحین تو وہ بھی اپنی ذاتی قدرت سے کوئی چیز پیدا کر سکتے ہیں اور نہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی چیز میں تصرف کر سکتے ہیں“؟؟؟
سعیدی صاحب کی اس تفسیر سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت ان تمام لوگوں کے رد میں بھی ہے جو اللہ کے علاوہ اللہ کے نیک بندوں کی عبادت کرتے ہیں ، جیسے نصاریٰ سید نا عیسی علیہ السلام اور اور یہود سیدنا عزیر علیہ السلام اور اسی طرح یہ دونوں اپنے اپنے نیک صالح افراد کی عبادت کرتے ہیں، اسی طرح مشرکین مکہ سیدنا ابراہیم وسید نا اسماعیل علیہ اہم اور بعض دیگر نیک لوگوں کے بت بنا کر اُن کی پرستش کرتے تھے۔ اور یہ باتیں خود ان کے مولویوں کو بھی معلوم ہیں تو نعوذ باللہ کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان باتوں سے بے خبر ہے؟ نہیں اور قطعا نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس اور اس جیسی دیگر آیات میں نیک صالحین کا استثناء کیوں بیان نہیں فرمایا؟ اگران آیات بینات سے (نعوذ باللہ ) نیک صالحین و مقربین الہی کی اہانت ہوتی تو استثناء ضرور بیان ہوتا جیسا کہ ہم ابتدا میں (سورۃ انبیاء کی آیات 98 تا 101) نقل کر آئے ہیں، ان میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صالحین و مقربین کا استثناء بیان فرمایا۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر سیالوی صاحب یا ان کا کوئی ہم مسلک و ہم خیال یہ سمجھتا ہے کہ اولیاء کرام اللہ کی دی ہوئی قدرت و طاقت سے صفتِ تخلیق کے حامل تھے یا ہیں اور بہت سی چیزوں کے خالق بھی ہیں تو صاف الفاظ میں اس کا اعتراف کریں اور ان آیات پر بھی غور کریں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
1:اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ‎ ﴿٦٢﴾
(39-الزمر:62)
”اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے “
( ترجمه از بھیروی صاحب ضیاء القرآن 28/4)
جب ہر ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو سیالوی صاحب بتائیں اولیاء کرام کس چیز کے خالق ہیں؟ انہوں نے کیا کیا چیز پیدا فرمائی؟
اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے تذکرہ کے بعد فرمایا:
2: هَٰذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ ﴿١١﴾ ‏
(31-لقمان:11)
”یہ تو ہے اللہ کی تخلیق (اے مشرکو!) اب ذرا دکھا مجھ کوکیا بنایا ہے اوروں نے اس کے سوا؟ ( کچھ بھی نہیں) مگر یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں “
( ترجمه از بهيروي صاحب، ضياء القرآن 604/3)
اس آیت کی تفسیر میں بھیروی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے ، اس میں بھی سیالوی صاحب اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لئے نصیحت و عبرت کا وافر سامان ہے، بھیروی صاحب نے لکھا:
”آسمان کا یہ وقیع اور وسیع گنبد جسے تھامنے کے لئے کوئی ستون اور سہارے نظر نہیں آتے ، یہ کشادہ زمین اور اس میں گڑے ہوئے فلک بوس پہاڑ، یہ گونا گوں جانور، مناسب اوقات پر بارش کا برسنا، رنگارنگ فصلوں، سبزیوں، درختوں کا اُگنا، پھلنا، پھولنا اور ان کے علاوہ جو کچھ تمہیں نظر آرہا ہے اسے تو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے تخلیق فرمایا ہے۔ اور تم بھی تو اس کے انکار کی جراءت نہیں کر سکتے ۔ اب یہ بتاؤ جن جھوٹے خداؤں کی پوجا پاٹ میں تم روز وشب مشغول رہتے ہو اور انہیں اپنا خدا یقین کرتے ہو۔ انہوں نے آخر اپنی قدرت اور حکمت کا کونسا کمال دکھایا ہے کہ تم ان کو بھی خدا ماننے لگے ،شرک کے بطلان کی یہ کتنی زبر دست اور عام فہم دلیل ہے۔ “
(ضیاء القرآن 604/3)
دیکھ لیجئے سیالوی صاحب ! جو کچھ تمہیں نظر آ رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے تو اولیاء خالق کیسے ہو سکتے ہیں؟ پھر ”جھوٹے خداؤں“ کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ صالحین بچے اور نیچے بندوں کی خدائی کے جو قائل ہیں، نعوذ باللہ وہ صالحین جھوٹے ہیں، ہرگز ہر گز نہیں وہ تو بچے ہی ہیں لیکن انھیں اللہ بنانا ، خدا قرار دینا اور ان کی خدائی کا دعویٰ کرنا مشرکوں کا جھوٹ ہے، تو جو لوگ سیدنا عیسی وسید نا عزیر، سیدنا ابراہیم اور سید نا اسمعیل علیہ السلام اور صالحین کرام کی پوجا پاٹ و پرستش کے مرتکب ہوئے اُن سب سے بھی سوال ہوا:
﴿فَأَرُونِى مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِه؟﴾
” اب ذرا مجھے دکھاؤ کہ کیا بنایا ہے اللہ کے علاوہ اُن لوگوں نے ؟“
اگر مولوی صاحب انبیاء علیہم السلام کو اپنی طرف سے خالق قرار دیتے ہیں تو کیا عیسائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ لوجی عیسی علیہ السلام تو بہت سی چیزوں کے خالق ہیں، اُن کی عبادت تو حق ہوئی؟ سیالوی صاحب تو ”صالحین“ کو ”من دون الله“ میں داخل نہیں سمجھتے بتلائیے کہ ان کا جواب کیا ہوگا؟ نیز اس اشکال کا جواب کیا ہو گا کہ جب اللہ کے نیک بندے بھی ”خالق“ ہیں تو یہ آیت کیوں کہتی ہے کہ بتاؤ ان لوگوں نے کیا تخلیق کیا؟
3 : اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ‎ ﴿٣﴾ ‏
(35-فاطر:3)
”اے لوگو! تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کیا کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے، اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں سو تم کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو۔ “
(ترجمه از سعیدی صاحب تبیان القرآن 9/ 648)
کیا سیالوی صاحب اور ان کی فکر کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جی ہاں ! اولیاء کرام وہ خالق ہیں جو رزق دیتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو سعیدی صاحب سے سن لیجیے کہ اس آیت کا فائدہ کیا ہے؟ لکھا ہے:
”اس آیت کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان کو یہ کامل یقین ہو جائے گا کہ اللہ کے سوا کوئی رازق نہیں ہے تو کسی بھی چیز کو طلب کرنے کے لیے اس کا دل اللہ کے غیر کی طرف متوجہ نہیں ہوگا ، نہ وہ کسی کے سامنے جھکے گا۔ “
( تبیان القرآن: 653/9)
ایسی اور بھی کئی آیات پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ” خالق ہونا “اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس کی صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کے علاوہ جن جن کی پوجا پاٹ و پرستش ہوتی ہے، جن جن کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے وہ کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتے اور یہ تو خالق ہی کا حق ہے کہ اس سے دعا مانگی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
4: ‏ قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا ‎ ﴿٤٠﴾
(35-فاطر:40)
”آپ فرمائیے کیا تم نے دیکھے ہیں اپنے شریک جنھیں تم پکارتے ہو اللہ تعالیٰ کے سوا مجھے بھی تو دکھاؤ زمین کا وہ گوشہ جو انھوں نے بنایا ہے یا اُن کی کوئی شراکت ہو آسمانوں ( کی تخلیق ) میں یا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہو اور وہ اس کے روشن دلائل پر عمل پیرا ہوں ( کچھ بھی نہیں ) بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹے ( دلفریب) وعدے کرتے رہتے ہیں۔ “
( ترجمه از بھیروی صاحب، ضیاء القرآن 159/4)
قرآن مجید ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار ظالم مشرکوں نے اللہ کے پیارے ومحبوب نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کے شریک بنا رکھا تھا ، اس کے باوجود بلا کسی تخصیص واستثناء کے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ بتاؤ زمین کا کون سا گوشہ انھوں نے بنایا ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ ثابت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں ۔ الغرض کہ سیالوی صاحب کا یہ دعویٰ کہ من دون الله میں صالحین داخل نہیں ! بے دلیل و باطل ہے۔
اب آئیے سیالوی صاحب کے اس دعویٰ کی طرف کہ ” قرآن مجید ولی کی شان میں بیان کرتا ہے“ کیا (سورہ نمل کی آیت : 40) ”ولی“ کی شان میں ہے؟ یادر ہے کہ ہمارے ہاں ”ولی“ کسی نیک صالح غیر رسول آدمی کو کہا جاتا ہے جس نے سید نا سلیمان علیہ السلام کے ہاں یہ کہا تھا کہ پلک جھپکنے سے پہلے ملکہ سبا کا تخت حاضر کر دوں گا، اس آیت میں ہے:
﴿قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتاب﴾
” کہا اس نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ “
آیت میں الذي یعنی ”اس“ سے کون مراد ہے؟ آیا کوئی انسان؟ ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس کا مصداق کون تھا۔ علامہ سید محمود آلوسی (متوفی 1270) لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس، یزید بن رومانی، حسن بصری اور جمہور کا اتفاق ہے کہ وہ شخص آصف بن برخیا. بنی اسرائیل میں سے تھا۔( روح المعانی ) اس شخص کے متعلق دیگر اقوال یہ ہیں: علامہ علی بن محمد ماوردی (متوفی 4850 ھ) لکھتے ہیں :
(1) یہ وہ فرشتہ تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے ملک کو طاقت دی۔
(2) حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر جو جن اور انس پر مشتمل تھا یہ اس کا کوئی فرد تھا۔
(3) یہ خود سلیمان تھے اور انھوں نے عفریت من الجن سے فرمایا تھا۔ اس تخت کو تیری پلک جھپکنے سے پہلے لے آتا ہوں۔ (امام رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔)
(4) یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور انسان تھا، اور اس میں پھر پانچ قول ہیں:
① قتادہ نے کہا اس کا نام ملیخا تھا ۔
② مجاہد نے کہا اس کا نام اسطوم تھا ۔
③ ابن رومان نے کہا وہ حضرت سلیمان عالیہ السلام کا دوست تھا ، آصف بن برخیا تھا ۔
④ زبیر نے کہا اس کا نام ذوالنور تھا وہ مصری تھے۔
⑤ ابن لھیعہ نے کہا وہ خضر تھے۔
(النكت والعيون ج 4 ص 213 ، دار الكتب العلميه بیروت، تبیان القرآن 690/8 )
قرآن مجید میں یہ صراحت نہیں کہ یہ کس کا قول ہے؟ رہے مفسرین تو کتب تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کسی نے کچھ اور کسی نے کچھ کہا، چارا قوال تو سعیدی صاحب نے بھی نقل کیے ہیں، آخر سیالوی صاحب کس بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ”ولی“ ہی تھا ؟ خودسعیدی صاحب نے بھی آگے جا کر کچھ ایسا ہی لکھا ہے کہ وہ آصف بن برخیا تھا اور یہ بھی لکھا کہ:
” امام ابن ابی حاتم (متوفی 327 ھ) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شخص آصف بن برخیا تھے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے کاتب ( سیکرٹری ) تھے۔ “
(تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ص 2285 رقم الحدیث 379)
لیکن سعیدی صاحب نے یہ بتا نا پسند نہیں کیا کہ اعمش مدلس ہیں اور یہ روایت ”عن“ سے بیان کی ہے اور بریلویہ کے مناظر عباس رضوی صاحب نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا:
اس روایت میں ایک راوی امام اعمش ہیں جو کہ اگر چہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالا تفاق مردود ہوگی ۔
(واللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ، ص: 351)
اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھا:
”اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیر مقبول ہے۔ “
( مناظرے ہی مناظرے ص: 249)
اسی طرح ان کے ”اعلیٰ حضرت “احمد رضا خان صاحب نے لکھا:
”عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمد میں مرد و دونا مستند ہے۔ “
(فتاوی رضویه 5 / 245 مطبوعہ لاہور )
الغرض ! جب قرآن مجید میں صراحت نہیں کہ تخت لانے والا بنی آدم میں سے تھا اور حدیث یا قول صحابی بھی ان سے بھی ثابت نہیں۔ رہی تابعین کی تفسیر تو ان کے حکیم الامت نے اپنے علامہ گولڑوی سے نقل کرتے ہوئے لکھا:
”رہی تفسیر قرآن تابعین یا تبع تابعین کے قول سے یہ اگر روایت سے تو معتبر ور نہ غیر معتبر۔ “
(جاء الحق ص: 8 اضیاءالدین پبلی کیشنز، لاہور )
تو سیالوی یا سعیدی صاحب کا فاصلے ناپنے اور 1500 میں بتانے کا فائدہ؟ پھر ان کے صدر الفاضل، نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے تو اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
” آصف نے عرض کیا آپ نبی ابن نبی ہیں اور جو رتبہ بارگاہ الہی میں آپ کو حاصل ہے یہاں کس کو میسر ہے آپ دعا کریں تو وہ آپ کے پاس ہی ہوگا آپ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو اور دعا کی اسی وقت تخت زمین کے نیچے چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہوا۔ “
( خزائن العرفان ص :684، حافظ کمپنی ، لاہور )
ان کی اس تفسیر سے تو معلوم ہوا کہ تخت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وہاں پہنچایا چونکہ دعا قبول کرنے والی ذات اللہ ہی ہے۔ لہذا سیالوی صاحب کا اس آیت کو پیش کر کے یہ کہنا کہ ولیوں کا یہ مقام ہے کہ وہ پلک جھپکنے کے اندر پندرہ سو میل دور پڑے ہوئے تخت کو لا کر پیش کر سکتے ہیں غلط دلیل ہے۔ پھر اس سے یہ استدلال کرنا کہ اولیاء کرام من دون الله یعنی اللہ کے علاوہ نہیں باطل تر ہے۔

پندرھواں سیالوی مغالطہ:

لکھا ہے:
اور من دون الله کی شان یہ ہے کہ وہ کبھی بھی پیدا نہیں کر سکتے ۔ اور عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ﴾
(3-آل عمران:49)
”کہ میں مٹی سے ایک مورتی بناتا ہوں جو پرندے کی شکل پر ہوتی ہے، پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں پھر وہ اللہ کے اذن سے پرندہ بن جاتا ہے۔“
” ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام من دون الله میں شامل نہیں ہیں۔ “
(نداء یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص : 186)

جواب :

سیالوی صاحب اگر اس آیت کا ابتدائی حصہ ذکر کر دیتے ، ان کا مغالطہ کا فورا ہو جاتا۔ بہر حال سنیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿‏ وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ﴾
(3-آل عمران:49)
”اور ( بھیجے گا اُسے ) رسول بنا کر بنی اسرائیل کی طرف ( وہ انہیں آکر کہے گا) میں آ گیا ہوں تمہارے پاس ایک معجزہ لے کر تمہارے رب کی طرف سے ( وہ معجزہ یہ ہے کہ ) میں بنا دیتا ہوں تمہارے لیے کیچڑ سے پرندے کی سی صورت پھر پھونکتا ہوں اس بے جان صورت) میں وہ فورا ہو جاتی ہے پرندہ اللہ کے حکم سے ۔ “
( ترجمه از بھیروی صاحب،،ضیاء القرآن 231/1)
بھیروی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
”حضرت عیسی علیہ السلام جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے وہ کٹ حجتی میں اپنی مثال آپ تھی اس لیے انھیں ایسے کھلے معجزات عطا فرمائے گئے جنھیں دیکھ کر کسی عقلمند کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ قرآن کریم ان معجزات کو بڑی وضاحت سے بیان فرما رہا ہے اور ان کو لفظ آیت سے تعبیر کیا اور آیت کہتے ہیں العلامة الظاهرة جو کسی کو پہچاننے کی کھلی نشانی ہو جس کے بعد شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔ یہ معجزات پانچ قسموں پر مشتمل ہیں:
(1) مٹی سے پرندے کی تصویر بنا کر اُس میں پھونک مار کر زندہ کر دیا کرتے ۔
(2) مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے۔
(3) کوڑھی کو تندرست کر دیتے ۔
(4) اور مردہ کو از سرنو زندہ کر دیا کرتے۔
یہ چار قسمیں عملی معجزات کی تھیں اور پانچویں قسم علمی معجزہ کی تھی یعنی غیب کی خبر دینا۔“
(ضیاء القرآن 231/1 تا232)

تنبيه:

اللہ تعالیٰ نے جو کچھ وحی نازل فرمایا، اس وحی کے ذریعے سے خبر دینے کا کوئی منکر نہیں۔
نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے لکھا:
” جب حضرت عیسی علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ایک چمگادڑ پیدا کریں آپ نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔“
(خزائن العرفان ص: 101)
❀ سعید صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں ایک مقام پر لکھا:
”یہ مذکورۃ الصدر پانچ چیزیں زبر دست اور قوی ترین معجزات ہیں جو میرے دعوی نبوت کے صدق پر دلالت کرتے ہیں اور جو شخص دلیل سے کسی بات کو مانتا ہو اس پر حجت ہیں ۔ “
( تبیان القرآن 2 / 177)
بریلویہ کی ان تفاسیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمیع اہل ایمان کی طرح یہ بھی ان امور کو سیدنا عیسی علیہ السلام کے ”معجزات“ تسلیم کرتے ہیں اور معجزات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
1: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ‎ ﴿٣٨﴾
(13-الرعد:38)
” اور بے شک ہم نے بھیجے کئی رسول آپ سے پہلے اور بنائیں ان کے لیے بیویاں اور اولاد اور نہیں ممکن کسی رسول کے لیے کہ وہ لے آئے کوئی نشانی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر میعاد کے لیے ایک نوشتہ ہے۔ “
(ترجمه از بھیروی صاحب، ضیاء القرآن 494/2)
اگر معجزہ نبی کا فعل ہوتا تو ان کے لیے معجزہ پیش کرنا ممکن کیوں نہ ہوتا اور اسے اللہ تعالیٰ کے امر پر موقوف کیوں بتلایا جاتا ؟
2 : اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾
(6-الأنعام:109)
”آپ فرمائیے نشانیاں تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں اور (اے مسلمانو ! ) تمہیں کیا خبر جب یہ نشانی آجائے گی تو (تب بھی) یہ ایمان نہیں لائیں گے ۔“
(ترجمہ از بھیروی صاحب، ضیاء القرآن 591/1)

معجزات کا خالق کون؟

ایک زیر بحث آیت میں بھی یہی مذکور ہے کہ سید نا عیسی علیہ السلام کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونکتے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے پرندہ بن جاتا، جیسا کہ خود سیالوی صاحب نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا:
”پھر وہ اللہ کے اذن سے پرندہ بن جاتا ۔ “
( ندائے، ص:182)
”سیالوی صاحب اور ان کے جمیع ہم مشرب جو اس آیت سے غلط مفہوم کشید کر کے عوام الناس کو مغالطہ دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ آیت کے الفاظ پر خوب غور کریں جن سے واضح ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام تو مٹی سے صرف پرندے کی ہیئت/شکل بناتے تھے اور اس پر پھونکتے تھے۔ مٹی کا وہ پتلا اللہ کے حکم سے ہی پرندہ بنتا تھا، چونکہ یہ معاملہ سید نا عیسی علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا تھا تو یہ ان کا معجزہ تھا۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے پرندے کی تخلیق اپنی طرف منسوب نہیں کی بلکہ پرندے کی ہیئت کی تخلیق اپنی طرف منسوب کی ہے۔ كَهَيْئَة الطَّيْرِ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں ۔ نیز فَيَكُونُ طَيْرًا بِاِذْن کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ وہ مٹی کا پتلا اللہ کے اذن سے پرندہ بن جاتا۔ گویا خلق طیر کی مجازی نسبت بھی نہیں ہے۔ اہل ایمان تو ہمیشہ سے ان معجزات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں۔ جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے کسی نبی علیہ السلام کی تائید و تصدیق کے لیے ان کے ہاتھ پر ظاہر فرماتے ہیں، تا کہ ان پر ایمان نہ لانے والوں کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے: نشانیاں (معجزات ) تو صرف اللہ کے پاس ہیں۔ “
البتہ اس معاملہ میں کفار کا طریقہ و عقیدہ کچھ مختلف تھا، چنانچہ سعیدی صاحب نے (سورہ مائدہ آیت : 116) کی تفسیر میں لکھا ہے:
عیسائی یہ کہتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم کے ہاتھوں سے جو معجزات ظاہر ہوئے ان کے خالق حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ہیں۔ اس لحاظ سے ان سے یہ نقل اور حکایت کرنا صحیح ہے کہ ” کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سواد و خدا بنالو۔ “
( تبیان القرآن : 376/3)
3: بریلویہ کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا:
”عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو ان معجزات کا خالق مانتے ہیں اور حضرت مریم کو ان کی کرامات کا خالق مانتے ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ خالق الہی ہی ہوتا ہے ان وجوہ سے یہاں واقعی فرمایا گیا۔ “
(تفسیر خازن، کبیر وغیرہ، تفسیر نعیمی ج ص:192)
اگر عیسائیوں کی طرح سیالوی صاحب اور ان کا گروہ بھی سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو پرندہ بنانے کے معجزے کا خالق سمجھتے ہیں تو خود بتا ئیں کہ وہ عیسائیوں کے دوش بدوش چل پڑے کہ نہیں! اور بقول نعیمی و سعیدی بریلویان، عیسائیوں نے سید نا عیسی علیہ السلام کو ان معجزات کا خالق مانا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں اللہ کے سوا الہ بنانا قرار دیا۔ اگر بریلویہ بھی ایسا عقیدہ بنالیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ وہ سید نا عیسی علیہ السلام کو ”الہ“ مانتے ہیں اور یہ تو خود ان کے ہاں بھی صریح شرک ہے۔ اعاذنا الله منه
الغرض ! سیالوی صاحب کے اس مغالطہ میں بھی اس بات کا ثبوت مفقود ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام من دون اللہ یعنی اللہ کے علاوہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیالوی صاحب کی نام نہاد ” نفیس بحث“ کا اختتام ہوا ہے۔ آگے انھوں نے جو بحث چھیڑی ہے وہ اس مضمون کے موضوع سے خارج ہے۔ الحمد للہ صریح دلائل کے مقابلہ میں سیالوی صاحب کے مغالطات و عقلی ڈھکوسلوں کی حقیقت بخوبی ظاہر ہوگئی۔

احمد سعید کاظمی اور من دون اللہ

قارئین کرام احمد خان نعیمی و غلام نصیر الدین سیالوی صاحب نے تو علی الاطلاق یہ دعوی کر رکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام من دون الله میں شامل نہیں۔ لیکن بریلویہ کے امام اہلسنت غزالی زمان و رازی دوراں احمد سعید کاظمی ملتانی صاحب نے ان کے موقف کے برعکس کچھ مختلف نظریہ پیش کیا ہے، ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:
من دون الله کے بارے میں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی وہ سب آیات جن میں غیر اللہ کی الوہیت کی نفی اور ماسوا اللہ کی عبادت کی ممانعت و مذمت وارد ہے۔ یقیناً تمام انبیاء واولیاء علیہم السلام کی الوہیت کی نفی اور ان کی عبادت کی مذمت و ممانعت کی قطعی دلیلیں ہیں اور بے شک عقیدہ توحید اصل دین ہے۔
(البیان ص: 10)
ملتانی صاحب نے ”لیکن“ کے بعد جو لکھا وہ بھی ہم نقل کریں گے۔ ان شاء اللہ مگر پہلے یہ عرض کر دیا جاتا ہے کہ درج بالا اقتباس میں جناب نے صاف اور صریح الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف کر دیا کہ من دون الله یا غير الله یا ماسوي الله یعنی اللہ کے علاوہ کے عبادت کی ممانعت و مذمت پر مبنی جتنی آیات ہیں وہ یقیناً تمام انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی الوہیت وعبادت کی مذمت وممانعت کی قطعی دلیلیں ہیں۔
سیالوی صاحب سے سوال یہ ہے کہ ان کے نزدیک تو انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام تو من دون الله میں داخل و شامل ہے۔ پھر کاظمی صاحب نے ایسا کیوں کہا؟ الغرض کہ کاظمی صاحب کا یہ کہنا واضح کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام و اولیاء کرام کو من دون اللہ نہ سمجھنا قطعاً و یقیناً غلط ہے۔ اب کاظمی ملتانی صاحب کی مزید سنیں ،لکھا ہے:
لیکن انہیں ” من دون الله “ اور ”من دونه “ کے مفہوم میں اس اعتبار سے شامل کرنا کہ وہ مطلقاً کسی تصرف یا حکم کے اہل نہیں ، خواہ ان کا وہ تصرف اور وہ حکم باذن اللہ ہی کیوں نہ ہو ، نصوص قرآنیہ کے خلاف ہے بلکہ اس اعتبار سے غیر اللہ کے کسی فرد کو بھی ان آیات کے مفہوم میں شامل کرنا درست نہیں ہے ۔
( البیان ص: 10)
اس بات سے تو کاظمی صاحب بھی انکار نہ کر سکے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء من دون الله میں شامل نہیں یا اللہ کے علاوہ، غیر اللہ نہیں اور کوئی بھی عقل مند و منصف مزاج فرد اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اب قرآن مجید یا نصوص سنت میں جن باتوں کا اثبات ہے اس حد تک اسے تسلیم کرنا فرض ولازم ہے۔ اسی طرح قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں من دون الله کے بارے میں جن چیزوں کی نفی ہے ان تمام کی نفی کا عقیدہ رکھنا بھی فرض ولازم ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب الوہیت وعبادت کی نفی کا معاملہ ہوتو من دون الله کے تمام افراد حتی کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی اس میں شامل و داخل سمجھا جائے لیکن جب دعائیں قبول کرنے ، فریاد سننے، مشکل کشائی و حاجت روائی کی نفی ہوتو انبیاء علیہم السلام کے علاوہ اولیاء کرام کو بھی من دون الله میں داخل و شامل نہ سمجھا جائے۔ آخر اس فرق کی وجہ اور دلیل کیا ہے؟
خود اللہ رب العالمین کے نازل فرموده (خواہ وہ قرآن کی شکل میں ہو یا احادیث کی شکل ) میں ) دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی پوجا پاٹ و پرستش میں مبتلا ہونے والے اور ان سے اسباب سے ہٹ کر مشکل کشائی چاہنے والوں نے محض خیالی بتوں ہی کی پوجا پاٹ نہیں کی بلکہ مقربان الہی کی مرضی و تعلیمات کے خلاف ان کی پرستش کرنے لگے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں نیک لوگوں کے استثناء کے بجائے مِنْ دُونِ اللهِ من دونه یا غير الله جیسے عام الفاظ سے جمیع ماسوی اللہ کی نفی فرمادی۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا ‎ ﴿٥٦﴾ ‏ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ‎ ﴿٥٧﴾ ‏
(17-الإسراء:56، 57)
کاظمی ملتانی صاحب سے ہی ان آیات کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے ،لکھا ہے: آپ انہیں فرما ئیں۔
” پکارو انہیں جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو تو وہ اختیار نہیں رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے اور نہ بدل دینے کا۔ وہ (نیک بندے) جنہیں کا فر پوجتے ہیں خود ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بے شک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔ “
( البیان ص: 460)
تیسرے سیالوی مغالطہ کے رد میں یہ آیات اور بریلوی مفسر سعیدی صاحب سے ان کی تفسیر ہم نقل کر آئے ہیں، اب پیر آف بھیرہ محمد کرم شاہ از ہری صاحب سے اس کی تفسیر ملاحظہ کیجئے ، لکھا ہے:
مطلب یہ ہے کہ مشرکین جن کو خدا بنائے ہوئے ہیں اور جن کو اپنی تکالیف و مصائب میں پکارتے ہیں یہ خدا نہیں بلکہ وہ تو خود ہر لمحہ، ہر لحظہ اپنے رب کریم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔ اگر واقعی وہ خدا ہوتے جیسے مشرکین کا خیال ہے تو پھر انہیں کسی کی عبادت اور رضا جوئی کی کیا ضرورت تھی ۔
(ضیاء القرآن 2/ 1339)
اب ان آیات پر غور کیجئے ، ان آیات میں بت،ستارے، سیارے اور شیاطین کی عبادت اور انہیں مشکل کشا و فریا در سا سمجھنے کا تذکرہ نہیں بلکہ نیک صالح اور پارسا لوگوں کو پکارنے کا ذکر ہے۔ جنھیں وہ مشرک مشکل کشا، حاجت روا، بگڑیاں بنانے والے اور بیڑے تارنے والے سمجھ بیٹھے ہیں، بلاشبہ وہ اللہ کے پیارے اور محبوب بندے تھے، جیسا کہ قرآن نے گواہی دی۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، اپنا حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہوا نہیں پکارو ﴿فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ﴾ وہ تم سے تکلیف دور کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ، تکلیف ٹالنا تو دور وہ اس تکلیف کو پھیر بھی نہیں سکتے ۔ پھر آگے ، ان کی نیکی تقوی ، عبادت ، خوف وخشیت کے افعال محمودہ کا تذکرہ بھی فرمایا۔
جب معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے تصرف واختیار کی نفی فرما کر انہیں پکارنے کی مذمت بیان کی اور جمیع من دونہ سے نفی کی تو قرآنی تعلیمات کو نظر انداز کر کے کاظمی ملتانی خود ساختہ تاویل کس طرح اور کیوں اپنائی جائے ؟

المختصر :

کاظمی صاحب کا تصرف واختیار کے معاملہ میں یہ کہنا کہ اس اعتبار سے غیر اللہ کے کسی فرد کو بھی ان آیات کے مفہوم میں شامل کرنا درست نہیں ہے ۔ غلط اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔ کاظمی صاحب نے بزعم خود دلیل پیش کرتے ہوئے لکھا:
ایسی تمام آیات میں من دون الله سے بغير اذن الله مراد ہے۔ مثلاً آیت: ﴿وَلَا يَتَخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ الله﴾ میں من دون الله کے تحت تفسیر مظہری میں فرمایا: ” أى بغير اذن من الله یعنی اللہ کی جانب سے اذن کے بغیر ( ج 2 ص : 63) یعنی کسی کو ذاتی تصرف یا ذاتی حکم کا اہل مانا اور بغیر اذن الہی کے اُس کے حکم کو واجب العمل قرار دینا، گویا اُسے اپنا رب بنا لینا ۔
( البیان ص: 10)
اس تاویل سے بھی بریلویہ کی مشکل آسان نہیں ہوتی ، چونکہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں کہیں بھی غیر اللہ سے دعا مانگنے کا حکم واذن نہیں، بلکہ اللہ ہی سے دعا مانگنے کا حکم ہے۔ اگر بات ذاتی و عطائی کی ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آیات یا احادیث پیش کی جائیں جن سے اس بات کا ثبوت ملتا ہو کہ انبیاء علیہم السلام اور صالحین کرام عطائی طور پر دعا اور فریاد قبول کر سکتے ہیں، لہذا ان سے دعائیں مانگی جائیں انہیں پکارا جائے۔ اگر آیت یا حدیث نہیں ملتی اور یقینا نہیں ملتی تو اللہ کی جانب سے اذن کا ثبوت نہیں۔
مزید مثال نقل کرتے ہوئے کاظمی صاحب نے لکھا:
اور کسی حکم یا تصرف باذن اللہ ہو تو وہ من دون الله کے مفہوم میں شامل نہیں۔ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا مقولہ قرآن مجید میں وارد ہے:
﴿أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ﴾
(3-آل عمران:49)
”کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے جیسی صورت بناتا ہوں پھر میں اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اڑنے والی ہو جاتی ہے باذن اللہ ، یعنی اللہ کے حکم سے اور میں شفایاب کرتا ہوں مادر زاد اندھے اور برص والے کو اور میں جلاتا ہوں مردے باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم سے۔ “
”معلوم ہوا اپنی طرف سے تصرف کرنے یا ذاتی حکم کا کوئی اہل نہیں بلکہ بغیر اذن اللہ ایک تنکا بھی متحرک نہیں ہو سکتا اور باذن الله اللہ کے محبوبوں کے تصرف سے بے جان جسم میں جان بھی پڑ سکتی ہے اور اذن الہی سے وہ مردوں کو بھی جلا سکتے ہیں ۔ “
( البیان ص: 11،10)
تعجب ہے ان کے ”غزالي زمان“ و” امام اهلسنت“ کہاں کی بات کہاں جوڑ بیٹھے! آیت جو پیش کی اُس میں سید نا عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے، جیسا کہ اس آیت کے آغاز میں اس کی صراحت ہے۔ لیکن سیالوی صاحب کی طرح کاظمی صاحب نے بھی آیت کے اُس حصہ کو پیش کرنا مناسب نہ سمجھا کہ اس طرح بات بنانا کچھ مشکل ہو جاتا ہے۔ بہر حال عیسی علیہ السلام کے اس ” مقولہ“ میں سب سے پہلے اس بات کی صراحت ہے کہ ﴿أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔“ اور ہم عرض کر آئے ہیں کہ ”نشانی معجزہ“ ہے، جو اللہ کا فعل ہے اور کسی نبی علیہ السلام کے ہاتھوں ظاہر ہوا۔ اسے اُس نبی علیہ السلام کا تصرف قرار دینا نصاری کے اس ذہن کی غمازی ہے کہ معجزات کے خالق عیسی علیہ السلام تھے (نعوذ باللہ ) پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آیت میں خاص سید نا عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے، لیکن بریلویہ کے رازی دوران و امام اہلسنت اپنی منطق کی کھینچا تانی سے اسے عام کرتے ہوئے لکھ گئے کہ معلوم ہوا . اللہ کے محبوبوں کے تصرف سے بے جان جسم میں جان پڑ سکتی ہے۔ یقیناً یہ نظریہ ضرورت کار فرمائی ہے، چونکہ ان کا یہی عقیدہ ہے تو اس کے ثبوت کے لیے سید نا عیسی علیہ السلام کے معجزہ والی آیت نقل کر کے محبوبوں کا استدلال کر دیا، تا کہ اپنے اس عقیدہ کا ثبوت بنا ئیں کہ اولیاء کرام بھی بیماری سے شفا دے سکتے ہیں، اندھوں کو انکھیارا کر سکتے ہیں۔ مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں باذن اللہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مزید تفصیل کے لیے سیالوی صاحب کا مغالطہ اور اس کا جواب دیکھ لیجیے۔
کاظمی صاحب نے مزید لکھا:
”یعنی من دون الله کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور باذن الله بندہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے جس کے ساتھ اللہ کا اذن متعلق ہو جائے ۔ “
(البیان ص: 11)
گویا اللہ تعالیٰ نے من دون الله یعنی اللہ کے علاوہ فرما کر تمام لوگوں کے جن جن قوتوں کی نفی فرمائی۔ کاظمی صاحب نے اپنی اس منطق سے اُن تمام کا اثبات کر دیا۔ اگر ان کی یہ تاویل باطل نہیں تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نفی کیوں فرمائی جبکہ من دون الله کہنے سے جمیع ماسوی اللہ کی نفی ہوتی ہے۔
پھر کاظمی صاحب نے یہ بھی کہا کہ باذن الله بندہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے جس کے ساتھ اللہ کا اذن متعلق ہو جائے، آئیے دیکھتے ہیں جسے یہ لوگ ”ولي“ قرار دیتے ہیں وہ کیا کچھ کر سکتا ہے؟
قارئین کرام آپ نے بھی ایسے کئی ایک قصے سنے ہوں گے، ان قصوں کا بیان تو کافی طوالت کا باعث بنے گا۔ ان کے ایک ”علامہ و مفتی “محمد اکمل عطا قادری عطاری صاحب نے انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنے کے بارے میں بزعم خود دلائل دیتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے ”غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا؟“ یہ کتاب ” مکتبہ اعلیٰ حضرت، سرائے مغل جنازہ گاہ مزنگ لاہور“ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے (صفحہ 50 )پر ایک ہائیڈ نگ دی گئی ہے اولیاء کرام کے مددفرمانے کے واقعات، پھر مختلف عنوانات قائم کیے ہر عنوان کے تحت مدد کا قصہ بھی نقل کیا، اس کے عنوانات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے اولیاء کے لیے کسی تصرف کے قائل ہیں، چند عنوانات ملاحظہ کیجیے:
(1) ” گمشدہ اونٹ واپس دلوادیے؟“ (ص : 50)
(2) ”منہ مانگی نعمتیں عطا فرمادی“ (ص : 51)
(3) ”دریا کو بڑھنے سے روک دیا“ (ص : 58)
(4) ”شفا عطا فرمادی“ (ص:61)
(5)” آنکھ ٹھیک کردی“ (ص: 63)
(6)” فالج زدہ کو ٹھیک کر دیا “(ص: 66)
(7) ” بیٹا عطا فرمادیا “ (ص: 72 )
(8) ”اللہ کے حکم سے موت کو ٹال دیا “(ص: 81)
(9) ”لاٹھی کو انسان بنادیا“ (ص:82)
(10)” بیمار کوتندرست کر دیا “(ص:93)
کاظمی صاحب کے معتقدین بتائیں کہ اولیاء کے ان تصرفات کا اللہ کے اذن سے ہو جانے کی دلیل کیا ہے، قرآن و حدیث کی کون سی نص ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء کرام ان تمام تصرفات پر باذن الله یا اللہ کی عطا سے عطائی قدرت رکھتے ہیں؟ خلاصہ بحث یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور اسی طرح احادیث میں جہاں کہیں من دون الله کے الفاظ وارد ہوئے یا اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بعد من دونه کے الفاظ آئے وہاں ان الفاظ سے ہر وہ ذات مراد ہے جو اللہ کے علاوہ ہے۔ اولیاء اور محبو بانِ الہی کو ان سے خارج قرار دینا درست نہیں۔ سر دست اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ بشرط زندگی کسی دوسری فرصت میں طاہر القادری صاحب کے دلائل کا جائزہ لیں گے، و باللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1