منکرین حدیث کے خود ساختہ معیارات کا تنقیدی جائزہ

منکرین حدیث کے معیارات

منکرین حدیث اور متجددین نے اپنے مخصوص نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ معیارات قائم کیے ہیں، جن کے تحت وہ احادیث کو پرکھتے اور مسترد کرتے ہیں۔ یہ معیارات بظاہر دلکش اور معقول نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ صرف ان کے نظریات کو تقویت دینے کا ذریعہ ہیں۔ اگر کوئی حدیث ان معیارات پر پوری نہ اترے تو اسے رد کردیا جاتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی مستند کیوں نہ ہو۔

منکرین حدیث کے معیارات

  • حدیث کا قرآن کے مطابق ہونا۔
  • نبی کریم ﷺ کی شان کے خلاف نہ ہونا۔
  • صحابہ کرام اور ازواج مطہراتؓ کی توہین نہ ہونا۔
  • علم اور مشاہدے کے خلاف نہ ہونا۔
  • عقل کے خلاف نہ ہونا۔

محدثین اور منکرین حدیث کا فرق

یہ بات درست ہے کہ محدثین نے بھی احادیث کی جانچ کے لیے اصول مقرر کیے ہیں، لیکن منکرین حدیث کے ساتھ محدثین کا بنیادی فرق یہ ہے کہ محدثین نے احادیث کو وحی اور قرآن کی روشنی میں پرکھا، جبکہ منکرین حدیث نے اپنے خود ساختہ معیارات کو عقل پر مبنی بنایا ہے۔ محدثین اپنی عقل کو وحی کے تابع رکھتے ہیں، جبکہ منکرین حدیث اپنی عقل کو حاکم بناتے ہیں۔

منکرین حدیث کے معیارات پر تفصیلی تبصرہ

1. حدیث کا قرآن کے مطابق ہونا

منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق ہو وہی قابل قبول ہے۔ مثال کے طور پر غلام احمد پرویز نے لکھا:

"ہمارے نزدیک دین کا معیار فقط کتاب اللہ ہے۔ جو عقیدہ یا تصور اس کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے اور جو اس کے مطابق نہیں، وہ غلط ہے، خواہ اس کی تائید میں ہزاروں احادیث کیوں نہ پیش کی جائیں۔”

(ماہنامہ طلوع اسلام، نومبر 1953ء، ص 37)

  • قرآن کے "خلاف” ہونے کا معیار: اگر کسی شخص کی ناقص سمجھ کے مطابق کوئی بات قرآن کے خلاف نظر آئے، تو کیا وہ واقعاً قرآن کے خلاف ہوگی؟
  • قرآن کا مفہوم: قرآن کا مفہوم خود بخود واضح نہیں ہوتا بلکہ اسے سمجھنے کے لیے نبی ﷺ کی توضیحات اور احادیث کی ضرورت ہوتی ہے۔

مثال: قرآن اور حدیث میں تطبیق

قرآن ہر مردار کو حرام قرار دیتا ہے، لیکن حدیث میں مردار مچھلی اور ٹڈی کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ تو کیا اس حدیث کو قرآن کے "خلاف” کہہ کر رد کیا جائے گا؟

قرآن کی چند آیات پر غور

  • "بے شک آپ (ﷺ) ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہیں۔” (سورۃ القصص: 56)
  • "اور بے شک آپ (ﷺ) سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔” (سورۃ الشوریٰ: 52)
  • "اللہ اس کے ذریعہ بہت سوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔” (سورۃ البقرہ: 26)
  • "جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔” (سورۃ البقرہ: 34)
  • "ابلیس جنوں میں سے تھا۔” (سورۃ الکہف: 50)

یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ اگر قرآن کی بظاہر متعارض آیات کو غور و فکر سے سمجھا جا سکتا ہے، تو احادیث کو صرف ظاہر دیکھ کر رد کرنا ناانصافی ہے۔

2. نبی کریم ﷺ کی شان کے خلاف نہ ہونا

منکرین حدیث یہ اصول پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث نبی ﷺ کی شان کے خلاف معلوم ہو، تو وہ قابل قبول نہیں۔ مثال کے طور پر:

"اس نے تیوری چڑھائی اور منہ موڑ لیا، جب کہ نابینا اس کے پاس آیا۔”

(سورۃ عبس: 1-2)

  • "تاکہ اللہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے۔” (سورۃ الفتح: 2)
  • "اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے، تو تم کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے۔” (سورۃ بنی اسرائیل: 74)

اگر یہ باتیں قرآن میں ذکر ہونے کے باوجود نبی ﷺ کی شان کے منافی نہیں سمجھی جاتیں، تو اسی اصول کو احادیث کے لیے کیوں نہیں اپنایا جاتا؟

3. صحابہ اور ازواج مطہراتؓ کی توہین

منکرین حدیث کا ایک اور معیار یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث صحابہ یا ازواج مطہراتؓ کی توہین پر مبنی ہو، تو وہ رد کردی جائے گی۔ لیکن قرآن کی درج ذیل آیات اس اصول پر کیا روشنی ڈالتی ہیں؟

  • "اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرلو، تو (یہی بہتر ہے ورنہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔” (سورۃ التحریم: 4)
  • "اور یہ لوگ جب کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں، تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔” (سورۃ الجمعہ: 11)
  • "اللہ نے معلوم کرلیا کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے، پس اللہ نے تمہاری توبہ قبول کی۔” (سورۃ البقرہ: 187)

یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ اگر قرآن میں ازواج مطہراتؓ یا صحابہ کرامؓ کے بعض معاملات کا ذکر ہوسکتا ہے، تو حدیث میں ان کے متعلق کوئی واقعہ بیان کرنے پر اعتراض کیوں؟

نتیجہ

منکرین حدیث کے پیش کردہ معیارات درحقیقت خود ساختہ اور متضاد ہیں، جو نہ قرآن پر لاگو ہوسکتے ہیں اور نہ ہی صحیح عقلی اصولوں پر۔ احادیث کا انکار ان معیارات کی بنیاد پر کرنا نہ صرف علمی خیانت ہے، بلکہ یہ دین کے اصل ماخذات کو مشکوک بنانے کی کوشش ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے