إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
فرشتوں کی پیدائش
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
[فاطر: 1]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں، وہ (مخلوق کی) بناوٹ میں جو چاہتا ہے اضافہ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “
حدیث 1:
«عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خلقت الملائكة من نور ، وخلق الجآن من مارج من نار ، وخلق آدم مما وصف لكم»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: 7495
حضرت عائشہ بھی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنوں کو آگ کے شعلہ سے اور آدم (علیہ السلام ) کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتا دی گئی ہے، یعنی مٹی سے۔ “
فرشتے کا بندے کو خوشخبری دینا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾
[مريم: 64]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور ہم (فرشتے) آپ کے رب ہی کے حکم سے نازل ہوتے ہیں، اسی کے لیے ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے، اور جو کچھ اس کے درمیان ہے، اور آپ کا رب کبھی بھولنے والا نہیں۔ “
حدیث 2:
«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم: أن رجلا زار أخا له فى قرية أخرى ، فارصد الله له ، على مدرجته، ملكا، فلما أتى عليه قال: أين تريد؟ قال: أريد أخالي فى هذه القرية، قال: هل لك عليه من نعمة تربها؟ قال: لا ، غير أني أحببته فى الله عزوجل، قال: فإنى رسول الله إليك ، بأن الله قد احبك كما احببته فيه»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6549
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی (یا انتظار ) کے لیے مقرر فرما دیا۔ جب وہ شخص اس (فرشتے) کے سامنے آیا تو اس نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ اس نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر تم نے اس (بھائی) سے محبت کی ہے۔ “
فرشتے کا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہما کو سلام
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ . نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ. نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ.﴾
[فصلت: 30 تا 32]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بے حد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔ “
حدیث 3:
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه ، قال: أتى جبريل النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! هذه خديجة قد أتت معها إناء فيه إدام أو طعام أو شراب فإذا هي أتتك فاقرأ عليها السلام من ربها ومني ، وبشرها ببيت فى الجنة من قصب لا صخب فيه ولا نصب»
صحیح بخاری ، کتاب مناقب الأنصار ، رقم: 3820، صحيح مسلم، رقم: 2432/71، سنن ترمذی، رقم: 3876، مسند أحمد: 231/2
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول ! یہ حضرت خدیحہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں سالن یا کھانا یا پانی ہے۔ جب یہ آپ کے پاس آئیں تو آپ انہیں ان کے پروردگار اور میری طرف سے سلام کہیے اور انہیں بشارت دیجیے کہ ان کے لیے جنت میں ایک خولدار موتی کا محل ہے اور جس میں نہ شور و وغا ہوگا اور نہ ہی تھکاوٹ اور تکلیف ۔ “
جبریل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنا
حدیث 4:
«وعن أبى مسعود يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: نزل جبريل فأمني فصليت معه، ثم صليت معه ، ثم صليت معه، ثم صليت معه ، ثم صليت معه، يحسب بأصابعه خمس صلوات»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم: 3221
”اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد سنا، آپ فرما رہے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر (دوسرے وقت کی ) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اپنی انگلیوں پر آپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا ۔ “
حضرت جبریل علیہ السلام کی پیدائشی صورت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ . أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ . أَلَا إِنَّهُم مِّنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ . وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ . أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ. مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ . أَفَلَا تَذَكَّرُونَ.﴾
[الصافات: 149 تا 155]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پس ان سے پوچھیں کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے؟ یا ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا، جب کہ وہ حاضر تھے۔ سن لو! بے شک وہ یقیناً اپنے جھوٹ ہی سے کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد جنی اور بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ کیا اس نے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی؟ کیا ہے تمھیں، تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو؟ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ “
حدیث 5:
وعن مسروق قال: كنت متكئا عند عائشة ، فقالت: يا أبا عائشة ، ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على الله الفرية ، قلت: ما هن؟ قالت: من زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية، قال: وكنت متكنا فجلست، فقلت: يا أم المؤمنين أنظريني ولا تعجليني، ألم يقل الله عز وجل: ﴿وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾ (التكوير: 23) ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾ (النجم: 13) فقالت: أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال: إنما هو جبريل – عليه السلام – لم اره على صورته التى خلق عليها غير هاتين المرتين ، رأيته منهبطا من السماء ، سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض ، فقالت: أولم تسمع أن الله يقول: ﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ (الانعام: 103) أولم تسمع أن الله يقول: ﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾ (الشورى: 51) قالت: ومن زعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتم شيئا من كتاب الله فقد أعظم على الله الفرية ، والله يقول: ﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾ (المائدة: 67) قالت: ومن زعم أنه يخبر بما يكون فى غد فقد أعظم على الله الفرية ، والله يقول: ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ﴾ (النمل: 65)
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 439
اور مسروق کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا: اے ابو عائشہ (مسروق کی کنیت ہے) تین چیزیں ہیں، جو کوئی ان میں سے کسی کا قائل ہوا، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا، میں نے پوچھا وہ باتیں کونسی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ بولا، مسروق کہتے ہیں، میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اور میں نے کہا، اے مومنوں کی ماں! مجھے بات کرنے کا موقعہ دیجئے ! مجھ سے جلدی نہ کیجئے ، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ہے: ”بے شک انہوں نے اسے روشن، کنارے پر دیکھا۔“ (التکویر: 23) ”اور انہوں نے اسے دوبار دیکھا۔“ (النجم: 13) تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، اس امت میں سب سے پہلے میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا، وہ تو جبریل ہیں، میں نے ان کو، ان دو دفعہ کے علاوہ ان کی اصل صورت میں، جس میں وہ پیدا کیے گئے ہیں، نہیں دیکھا، میں نے انہیں ایک دفعہ آسمان سے اترتے دیکھا، ان کی جسامت کی بڑائی نے آسمان وزمین کا درمیان بھر دیا تھا ، پھر ام المومنین نے فرمایا، کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا: ”آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کر سکتا (آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ آنکھوں کو پا سکتا ہے ) اور وہ باریک بین خبر دار ہیں۔ “ (الانعام: 103) اور تو نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا: ”اور کسی بشر میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ، یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی رسول فرشتے کو بھیجے ، جو اللہ کی مرضی سے جو وہ چاہے، وحی کرے بلا شبہ وہ بلند اور حکیم ہے۔“ (الشوریٰ: 51) ام المومنین نے فرمایا: جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اے رسول! تیرے رب کی طرف سے تجھ پر جو کچھ اتارا گیا ہے، پہنچا دیجئے اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا، تو آپ نے فریضہ رسالت ادا نہیں کیا۔“ (المائدہ: 67) اور انہوں نے فرمایا: اور جو شخص یہ کہے: آپ کل کو ہونے والی بات کی خبر دیتے تھے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”فرما دیجئے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کے سوا وہ غیب نہیں جانتا۔“ (النمل: 65)
حضرت جبریل علیہ السلام کے چھ سو پر
حدیث 6:
وعن عبد الله قال: ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ﴾ (النجم: 11) قال: رأى جبريل عليه السلام له ست مائة جناح
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 433
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو جب ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے۔“
فرشتوں کا بندوں کے لیے رحمت کی دعا کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ﴾
[غافر: 7]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے، تو ان لوگوں کو بخش دے جنھوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے
عذاب سے بچا۔ “
حدیث 7:
«وعن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، عن أبيه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما من مسلم يصلى على إلا صلت عليه الملائكة ما صلى علي، فليقل العبد من ذلك أو ليكثر»
سنن ابن ماجه ، باب الصلاة على النبي ، رقم: 907 ، مسند احمد: 445/3- محدث البانی نے اسے ”حسن“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے لیے فرشتے اس وقت تک رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے۔ لہذا کوئی شخص مجھے پر تھوڑا درود بھیجے یا زیادہ ۔ “ (اب یہ اس کی اپنی مرضی ہے )
ستر ہزار فرشتوں کا بیت المعمور میں نماز پڑھنا
حدیث 8:
«وعن مالك بن صعصعة رضي الله عنهما قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: بينا أنا عند البيت بين النائم واليقطان وذكر يعني رجلا بين الرجلين، فأتيت بطست من ذهب ملان حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن، ثم غسل البطن بماء زمزم ، ثم ملى ء حكمة وإيمانا ، وأتيت بدابة أبيض دون البغل وفوق الحمار البراق ، فانطلقت مع جبريل حتى أتينا السماء الدنيا قيل: من هذا؟ قال . جبريل . قيل؟ من معك؟ قال: محمد ، قيل: وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قيل: مرحبا به ، ولنعم المجيء جاء ، فأتيت على آدم فسلمت عليه فقال: مرحبا بك من ابن ونبي . فأتينا السماء الثانية ، قيل: من هذا؟ قال: جبريل قيل: من معك؟ قال محمد . قيل: أرسل إليه؟ قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء ، فأتيت على عيسى ويحيى فقالا: مرحبا بك من أح ونبي . فأتينا السماء الثالثة، قيل: من هذا؟ قيل: جبريل قيل من معك؟ قيل: محمد قيل: وقد أرسل إليه؟ قال: نعم . قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء ، فأتيت على يوسف فسلمت عليه ، قال: مرحبا بك من أح ونبي، فأتينا السماء الرابعة ، قيل: من هذا؟ قال جبريل: قيل: من معك؟ قيل: محمد . قيل: وقد أرسل إليه؟ قيل: نعم . قيل مرحبا به ولنعم المجيء جاء ، فأتيت على إدريس فسلمت عليه ، فقال مرحبا بك من أح ونبي . فأتينا السماء الخامسة ، قيل: من هذا؟ قال جبريل قيل: ومن معك قيل محمد قيل: وقد أرسل إليه؟ قال نعم . قيل: مرحبا به ، ولنعم المجيء جاء . فأتينا على هارون فسلمت عليه فقال: مرحبا بك من أخ ونبي . فأتينا على السماء السادسة، قيل: من هذا قيل: جبريل قيل: من معك؟ قيل: محمد . قيل: وقد أرسل إليه؟ مرحبابه ، ولنعم المجيء جاء . فأتيت على موسى، فسلمت عليه فقال: مرحبا بك من أح ونبي ، فلما جاوزت بكى . فقيل: ما أبكاك؟ قال: يا رب، هذا الغلام الذى بعث بعدى يدخل الجنة من أمته أفضل مما يدخل من أمتي . فأتينا السماء السابعة قيل: من هذا قيل: جبريل قيل: من معك قيل: محمد . قيل وقد أرسل إليه؟ مرحبا به ، ولنعم المجيء جاء . فأتيت على إبراهيم، فسلمت عليه فقال: مرحبا بك من ابن ونبي، فرفع لى البيت المعمور ، فسألت جبريل: فقال هذا البيت المعمور، يصلى فيه كل يوم سبعون ألف ملك، إذا خرجوا لم يعودوا إليه آخر ما عليهم، ورفعت لي سدرة المنتهى فإذا نبقها كأنه قلال هجر، وورقها كأنه آذان الفيول، فى أصلها أربعة أنهار: نهران باطنان ونهران ظاهران ، فسألت جبريل فقال: أما الباطنان ففي الجنة ، وأما الظاهران النيل والفرات ، ثم فرضت على خمسون صلاة، فأقبلت حتى جئت موسى، فقال ما صنعت؟ قلت: فرضت على خمسون صلاة . قال: أنا أعلم بالناس منك ، عالجت بني إسرائيل أشد المعالجة ، وإن أمتك لا تطيق ، فارجع إلى ربك فسله فرجعت فسألته ، فجعلها أربعين ثم مثله ثم ثلاثين ثم مثله فجعل عشرين ثم مثله . فجعل عشرا، فأتيت موسى فقال مثله فجعلها خمسا ، فأتيت موسى فقال ما صنعت؟ قلت جعلها خمسا فقال مثله ، قلت: سلمت، بخير فنودي إني قد أمضيت فريضتي وخففت عن عبادي ، وأجزي الحسنة»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق ، باب ذكر الملائكة، رقم: 3207، صحيح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 162
”اور حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق۔ میں اس پر سوار ہو کر جبریل علیہ السلام کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبریل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں! پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی ۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا کہ جبریل سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔ سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ اس کے بعد میں عیسی اور یحیی علیہم السلام سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبریل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔ سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں۔ اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے ، آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں میرے بھائی اور نبی ، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبریل۔ سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں۔ پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے، کیا ہی اچھے آنے والے ہیں! یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبریل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا، کیا انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک، میرے بھائی اور نبی، آپ اچھی کشادہ جگہ آئے! یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبریل۔ پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے! جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا، بزرگوار! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے ، یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبریل۔ سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا، کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں! اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا اور مجھے سدرۃ المنتہی بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے بڑا تجربہ ہوچکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو۔ میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کردیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیسں وقت کی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا تو اب بیسں وقت کی اللہ تعالیٰ نے کر دیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں۔ اب میں موسی علیہ السلام سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ تعالیٰ کے سپرد کر چکا۔ پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ “
انسانی شکل میں فرشتے کا کوڑھی اندھے اور گنجے سے ملاقات کرنا
حدیث 9:
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه حدثه، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” إن ثلاثة فى بني إسرائيل ابرص واقرع واعمى بدا لله عز وجل ان يبتليهم فبعث إليهم ملكا فاتى الابرص، فقال: اي شيء احب إليك، قال: لون حسن وجلد حسن قد قذرني الناس، قال: فمسحه فذهب عنه فاعطي لونا حسنا وجلدا حسنا، فقال: اي المال احب إليك، قال: الإبل او، قال: البقر هو شك فى ذلك إن الابرص والاقرع، قال: احدهما الإبل، وقال: الآخر البقر فاعطي ناقة عشراء، فقال: يبارك لك فيها واتى الاقرع، فقال: اي شيء احب إليك، قال: شعر حسن ويذهب عني هذا قد قذرني الناس، قال: فمسحه فذهب واعطي شعرا حسنا، قال: فاي المال احب إليك، قال: البقر، قال: فاعطاه بقرة حاملا، وقال: يبارك لك فيها واتى الاعمى، فقال: اي شيء احب إليك، قال: يرد الله إلى بصري فابصر به الناس، قال: فمسحه فرد الله إليه بصره، قال: فاي المال احب إليك، قال: الغنم فاعطاه شاة والدا فانتج هذان وولد هذا فكان لهذا واد من إبل ولهذا واد من بقر ولهذا واد من غنم ثم إنه اتى الابرص فى صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين تقطعت بي الحبال فى سفري فلا بلاغ اليوم إلا بالله، ثم بك اسالك بالذي اعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا اتبلغ عليه فى سفري، فقال له: إن الحقوق كثيرة، فقال له: كاني اعرفك الم تكن ابرص يقذرك الناس فقيرا فاعطاك الله، فقال: لقد ورثت لكابر عن كابر، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت واتى الاقرع فى صورته وهيئته، فقال له: مثل ما، قال: لهذا فرد عليه مثل ما رد عليه هذا، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت واتى الاعمى فى صورته، فقال: رجل مسكين وابن سبيل وتقطعت بي الحبال فى سفري فلا بلاغ اليوم إلا بالله ثم بك اسالك بالذي رد عليك بصرك شاة اتبلغ بها فى سفري، فقال: قد كنت اعمى فرد الله بصري وفقيرا فقد اغناني فخذ ما شئت فوالله لا اجهدك اليوم بشيء اخذته لله، فقال: امسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي الله عنك وسخط على صاحبيك»
صحیح بخاری ، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 3464، صحیح مسلم، رقم: 2964
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد سنا، آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبد اللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے، کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آگئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دے دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان واسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتے نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے، اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر ومحتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم! جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔“
خیر کی تعلیم دینے والوں کے لیے فرشتوں کا رحمت کی دعا کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ . يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ .﴾
[الأنبياء: 19، 20]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اسی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت کرنے سے تکبر نہیں کرتے اور نہ وہ تھکتے (اکتاتے) ہیں۔ وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں، ست نہیں پڑتے۔ “
حدیث 10:
«وعن أبى أمامة الباهلي ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان أحدهما عابد والآخر عالم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فضل العالم على العابد كفضلى على أدناكم ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله وملائكته وأهل السموات والأرضين حتى النملة فى جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير»
سنن ترمذی ، کتاب العلم، رقم: 2685 ، المشكاة، رقم: 213- محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ کے تمام فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمین والے حتی کہ چیونٹی اپنی بل میں اور مچھلی (پانی میں ) ان لوگوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ بھی ان پر اپنی رحمت نچھاور کرتے ہیں۔ “
گناہ گاروں پر فرشتوں کا لعنت بھیجنا
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.﴾
[البقرة: 161]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر ہی تھے تو وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ “
حدیث 11:
«وعن على قال: ما كتبنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا القرآن وما فى هذه الصحيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المدينة حرام ما بين عائر إلى ثور ، فمن أحدث حدثا أو آوى محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ، لا يقبل منه عدل ولا صرف، وذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم ، فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ، لا يقبل منه عدل ولا صرف، ومن والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ، لا يقبل منه عدل ولا صرف»
سنن أبوداؤد، كتاب الديات، رقم: 4530، سنن نسائی، رقم: 4734۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر مشتمل ایک صحیفہ تھا جس میں یہ حدیث بھی تھی: مدینہ کی حرمت غیر سے لے کر ثور پہاڑ تک ہے۔ پس جس نے اس میں کوئی بدعت ایجاد کی یا بدعتی کو جگہ دی اس پر اللہ تعالیٰ، تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اُس سے نوافل اور فرائض قبول نہیں کیے جائیں گے۔ اور تمام مسلمان ایک ہی قانون میں ہوں گے جس کے دائرہ میں اُن کا ادنی بھی چلے گا۔ پس جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کیا اُس پر اللہ تعالی ، تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اُس سے نوافل اور فرائض قبول نہیں کیے جائیں گے۔ اور جو کسی قوم کا خود والی بنے گا پس اُس پر بھی اللہ تعالیٰ ، تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اُس سے نوافل اور فرائض قبول نہیں کیے جائیں گے۔ “
آب زم زم اور فرشتہ
حدیث 12:
وعن ابن عباس قال: اول ما اتخذ النساء المنطق من قبل ام إسماعيل اتخذت منطقا لتعفي اثرها على سارة، ثم جاء بها إبراهيم وبابنها إسماعيل وهى ترضعه حتى وضعهما عند البيت عند دوحة فوق زمزم فى اعلى المسجد وليس بمكة يومئذ احد وليس بها ماء فوضعهما هنالك ووضع عندهما جرابا فيه تمر وسقاء فيه ماء، ثم قفى إبراهيم منطلقا فتبعته ام إسماعيل، فقالت: يا إبراهيم اين تذهب وتتركنا بهذا الوادي الذى ليس فيه إنس ولا شيء، فقالت له: ذلك مرارا وجعل لا يلتفت إليها، فقالت له: آلله الذى امرك بهذا، قال: نعم، قالت: إذا لا يضيعنا ثم رجعت فانطلق إبراهيم حتى إذا كان عند الثنية حيث لا يرونه استقبل بوجهه البيت ثم دعا بهؤلاء الكلمات ورفع يديه، فقال: ﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ﴾ حتى بلغ ﴿يَشْكُرُونَ﴾ (إبراهيم 37) وجعلت ام إسماعيل ترضع إسماعيل وتشرب من ذلك الماء حتى إذا نفد ما فى السقاء عطشت وعطش ابنها وجعلت تنظر إليه يتلوى او، قال: يتلبط فانطلقت كراهية ان تنظر إليه فوجدت الصفا اقرب جبل فى الارض يليها فقامت عليه، ثم استقبلت الوادي تنظر هل ترى احدا فلم تر احدا فهبطت من الصفا حتى إذا بلغت الوادي رفعت طرف درعها، ثم سعت سعي الإنسان المجهود حتى جاوزت الوادي، ثم اتت المروة فقامت عليها ونظرت هل ترى احدا فلم تر احدا ففعلت ذلك سبع مرات، قال: ابن عباس: قال النبى صلى الله عليه وسلم: ” فذلك سعي الناس بينهما فلما اشرفت على المروة سمعت صوتا فقالت صه تريد نفسها، ثم تسمعت فسمعت ايضا، فقالت: قد اسمعت إن كان عندك غواث فإذا هي بالملك عند موضع زمزم فبحث بعقبه او، قال: بجناحه حتى ظهر الماء فجعلت تحوضه وتقول بيدها هكذا وجعلت تغرف من الماء فى سقائها وهو يفور بعد ما تغرف، قال: ابن عباس، قال النبى صلى الله عليه وسلم: يرحم الله ام إسماعيل لو تركت زمزم او قال: لو لم تغرف من الماء لكانت زمزم عينا معينا، قال: فشربت وارضعت ولدها، فقال لها: الملك لا تخافوا الضيعة فإن ها هنا بيت الله يبني هذا الغلام وابوه وإن الله لا يضيع اهله وكان البيت مرتفعا من الارض كالرابية تاتيه السيول فتاخذ عن يمينه وشماله فكانت كذلك حتى مرت بهم رفقة من جرهم او اهل بيت من جرهم مقبلين من طريق كداء فنزلوا فى اسفل مكة فراوا طائرا عائفا، فقالوا: إن هذا الطائر ليدور على ماء لعهدنا بهذا الوادي وما فيه ماء فارسلوا جريا او جريين فإذا هم بالماء فرجعوا فاخبروهم بالماء فاقبلوا، قال: وام إسماعيل عند الماء، فقالوا: اتاذنين لنا ان ننزل عندك، فقالت: نعم ولكن لا حق لكم فى الماء، قالوا: نعم، قال ابن عباس: قال النبى صلى الله عليه وسلم: فالفى ذلك ام إسماعيل وهى تحب الإنس فنزلوا وارسلوا إلى اهليهم فنزلوا معهم حتى إذا كان بها اهل ابيات منهم وشب الغلام وتعلم العربية منهم وانفسهم واعجبهم حين شب فلما ادرك زوجوه امراة منهم وماتت ام إسماعيل فجاء إبراهيم بعدما تزوج إسماعيل يطالع تركته فلم يجد إسماعيل فسال امراته عنه، فقالت: خرج يبتغي لنا ثم سالها عن عيشهم وهيئتهم، فقالت: نحن بشر نحن فى ضيق وشدة فشكت إليه، قال: فإذا جاء زوجك فاقرئي عليه السلام وقولي له يغير عتبة بابه فلما جاء إسماعيل كانه آنس شيئا، فقال: هل جاءكم من احد، قالت: نعم جاءنا شيخ كذا وكذا فسالنا عنك فاخبرته وسالني كيف عيشنا فاخبرته انا فى جهد وشدة، قال: فهل اوصاك بشيء، قالت: نعم امرني ان اقرا عليك السلام ويقول غير عتبة بابك، قال: ذاك ابي وقد امرني ان افارقك الحقي باهلك فطلقها وتزوج منهم اخرى فلبث عنهم إبراهيم ما شاء الله، ثم اتاهم بعد فلم يجده فدخل على امراته فسالها عنه، فقالت: خرج يبتغي لنا، قال: كيف انتم وسالها عن عيشهم وهيئتهم، فقالت: نحن بخير وسعة واثنت على الله، فقال: ما طعامكم، قالت: اللحم، قال: فما شرابكم، قالت: الماء، قال: اللهم بارك لهم فى اللحم والماء، قال: النبى صلى الله عليه وسلم: ولم يكن لهم يومئذ حب ولو كان لهم دعا لهم فيه، قال: فهما لا يخلو عليهما احد بغير مكة إلا لم يوافقاه، قال: فإذا جاء زوجك فاقرئي عليه السلام ومريه يثبت عتبة بابه فلما جاء إسماعيل، قال: هل اتاكم من احد؟ ، قالت: نعم اتانا شيخ حسن الهيئة واثنت عليه فسالني عنك فاخبرته فسالني كيف عيشنا فاخبرته انا بخير، قال: فاوصاك بشيء، قالت: نعم هو يقرا عليك السلام ويامرك ان تثبت عتبة بابك، قال: ذاك ابي وانت العتبة امرني ان امسكك ثم لبث عنهم ما شاء الله، ثم جاء بعد ذلك وإسماعيل يبري نبلا له تحت دوحة قريبا من زمزم فلما رآه قام إليه فصنعا كما يصنع الوالد بالولد والولد بالوالد، ثم قال: يا إسماعيل إن الله امرني بامر، قال: فاصنع ما امرك ربك، قال: وتعينني، قال: واعينك، قال: فإن الله امرني ان ابني ها هنا بيتا واشار إلى اكمة مرتفعة على ما حولها، قال: فعند ذلك رفعا القواعد من البيت فجعل إسماعيل ياتي بالحجارة وإبراهيم يبني حتى إذا ارتفع البناء جاء بهذا الحجر فوضعه له فقام عليه وهو يبني وإسماعيل يناوله الحجارة وهما، يقولان: ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ (البقرة 127) ، قال: فجعلا يبنيان حتى يدورا حول البيت وهما يقولان ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾
صحیح بخاری ، کتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 3364
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہ السلام ) سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہ السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ابراہیم علیہ السلام ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پانی بھی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چھڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے ) روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ علیہ السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں، اس پر ہاجرہ علیھا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر آئے تھے ) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بے آب و دانہ میدان میں ٹھہرایا ہے (سورۃ ابراہیم ) يَشْكُرُونَ تک ۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا (پیاس کی شدت سے ) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا (کہا کہ ) زمین پر لوٹ رہا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں ) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تا کہ دوڑتے وقت نہ الجھیں) وہ کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صفا اور مروہ کے درمیان ) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا۔ (ساتویں مرتبہ ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے کہا، خاموش! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دیئے۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑھی سے زمین میں گڑھا کر دیا ، یا یہ کہا کہ اپنے پر سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے ) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس بھی انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ ام اسماعیل علیھا السلام پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہا السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہوگا، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا (قریب ہی) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوالیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آکر آباد ہو گئے اور بچہ (اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں ) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ ) کا انتقال ہو گیا۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں ) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جاسکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے، بڑی فراخی ہے، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف وثنا کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت! آپ نے دریافت فرمایا کہ پیتے کیا ہو؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے (جاتے ہوئے ) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آجائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ، بڑی اچھی شکل وصورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے ) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گئے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا، اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کرونگا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے، اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت تو قبول کر، بے شک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک تو بڑا سننے والا، بہت جاننے والا ہے۔
نماز اور فرشتہ
حدیث 13:
«وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا قام أحدكم إلى الصلاة فلا يبصق أمامه ، فإنما يناجي الله ما دام فى مصلاه، ولا عن يمينه ، فإن عن يمينه ملكا، وليبصق عن يساره أو تحت قدمه ، فيدفنها»
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم: 416
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو سامنے نہ تھوکے کیونکہ وہ جب تک اپنی نماز کی جگہ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اور دائیں طرف بھی نہ تھوکے کیونکہ اس طرف فرشتہ ہوتا ہے، ہاں بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لے اور اسے مٹی میں چھپا دے۔ “
مسلمان بھائی پر اسلحہ تاننے پر فرشتوں کی لعنت
حدیث 14:
«وعن أبى هريرة يقول قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم: من أشار إلى أخيه بحديدة فإن الملائكة تلعنه حتى يدعه وإن كان أخاه لابيه وأمه»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2616
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: جس نے اپنے بھائی کی طرف تیز دھار آلہ سے اشارہ کیا، (اس کو ڈرانے یا خوف زدہ کرنے کے لیے ) تو فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے، حتی کہ اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ “
قاتل سے قصاص لینے پر رکاوٹ پیدا کرنے والے پر فرشتوں کی لعنت
حدیث 15:
«وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ومن قتل عمدا فهو قود، ومن حال بينه وبينه ، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا»
سنن نسائی، کتاب القسامة، رقم: 4789، 4790 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عمداً قتل کیا جائے تو اس کے قاتل سے قصاص لیا جائے گا اور جو شخص اس قاتل اور قصاص کے درمیان رکاوٹ پیدا کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور ایسے شخص کے نہ فرائض قبول ہیں اور نہ نوافل ۔ “
فرشتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک درود و سلام پہنچانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ. يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.﴾
[النحل: 49 ، 50]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور آسمانوں اور زمین کے تمام جاندار اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور تمام فرشتے بھی، اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔ وہ اپنے اوپر سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور وہی کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ “
حدیث 16:
«و عن ابن مسعود رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لله ملائكة سياحين فى الأرض يبلغونى من أمتي السلام»
سنن نسائی، باب السلام على النبي ﷺ، رقم: 1282 ، سنن دارمی: 409/2، رقم: 2774، مسند أحمد: 452/1، مشكاة المصابيح: 924۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے ہیں اور میری امت کی طرف سے درود و سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ “
آسمانوں و زمین میں ہر جگہ فرشتے سجدہ ریز ہیں
حدیث 17:
«وعن أبى ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني أرى ما لا ترون، وأسمع ما لا تسمعون، أطت السماء وحق لها أن تيط، ما فيها موضع أربع أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله»
سنن ترمذی، کتاب الزهد، رقم: 2312 ، سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، رقم: 4190، مسند احمد: 173/5 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 1722
’’اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جن چیزوں کو میں دیکھ رہا ہوں اسے تم نہیں دیکھ رہے اور جس بات کو میں سن رہا ہوں اسے تم نہیں سن رہے۔ آسمان سے آواز نکلتی ہے (جیسے سواری پر سوار ہوتے وقت پالان سے چرچراہٹ کی آواز آتی ہے ) اور اس سے آواز نکلنا بجا ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آسمانوں میں کہیں چار انگلیاں جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔ “
فرشتوں کا صف بندی کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالصَّافَّاتِ صَفًّا﴾
[الصافات: 1]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”قسم ہے ان (فرشتوں) کی جوصف باندھنے والے ہیں ! خوب صف باندھنا۔ “
حدیث 18:
«وعن جابر بن سمرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا فى الصلوة. قال: ثم خرج علينا فرآنا حلقا، فقال: مالي أراكم عزين؟ قال: ثم خرج علينا فقال: ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها؟ فقلنا يا رسول الله وكيف تصف الملائكة عند ربها؟ قال: يتمون الصفوف الأول ويتراصون فى الصف»
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: 968
”اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا، کیا وجہ ہے میں تمہیں نماز میں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ نماز میں سکون اختیار کیا کرو، (نماز سکون کے ساتھ پڑھا کرو) پھر ایک اور مرتبہ تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھے دیکھا تو فرمایا، کیا وجہ ہے میں تمہیں مختلف حلقوں میں بیٹھا دیکھ رہا ہوں؟ پھر ایک اور مرتبہ تشریف لائے تو ارشاد فرمایا: تم اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے ، جس طرح بارگاہ الہی میں فرشتے صف بستہ ہوتے ہیں؟ ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ “
فرشتے اللہ کے بندوں سے محبت کرتے ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا﴾
[الأحزاب: 43]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”وہی ہے جو تم پر صلوۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے، تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ ایمان والوں پر ہمیشہ سے نہایت مہربان ہے۔ “
حدیث 19:
«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أحب الله العبد نادى جبريل: إن الله يحب فلانا فأحببه ، فيحبه جبريل ، فينادى جبريل فى أهل السماء ، إن الله يحب فلانا فأحبوه، فيحبه أهل السماء ، ثم يوضع له القبول فى الأرض»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم: 3209 ، ورقم: 6040 و7485، صحيح مسلم، رقم: 2637.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبریل علیہ السلام تمام اہلِ آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔ “
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو فرشتوں کا پکڑنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ . نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ .﴾
[العلق: 15، 16]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ہر گز نہیں، یقیناً اگر وہ باز نہ آیا تو ہم ضرور اسے پیشانی کے بالوں کے ساتھ گھسیٹیں گے۔ پیشانی کے ان بالوں کے ساتھ جو جھوٹے ہیں، خطا کار ہیں۔ “
حدیث 20:
«وعن ابن عباس ، قال أبو جهل: لئن رأيت محمدا يصلى عند الكعبة لأطأن على عنقه فبلغ النبى صلى الله عليه وسلم فقال: لو فعله لأخذته الملائكة»
صحیح بخاری، کتاب التفسير ، رقم: 4958
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، ابوجہل نے کہا تھا کہ اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن کچل دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اسے فرشتے پکڑلیں گے۔ “
معرکہ بدر میں دشمنان اسلام کے خلاف فرشتوں کی شرکت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ . إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ .﴾
[آل عمران: 123، 124]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اللہ نے بدر میں عین اس وقت تمھاری مدد کی جب تم کمزور تھے۔ پس تم اللہ سے ڈرو تاکہ تمھیں شکر ادا کرنے کی توفیق ہو۔ (اے نبی!) جب آپ مومنوں سے کہہ رہے تھے: کیا تمھارے لیے کافی نہ ہوگا کہ اللہ آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کر تمھاری مدد کرے؟ “
حدیث 21:
«وعن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم قال يوم بدر: هذا جبريل آخد برأس فرسه عليه أداة الحرب»
صحیح بخاری، کتاب المغازي، رقم: 3995
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں ارشاد فرمایا تھا: یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے۔“
فرشتوں کا جمعۃ المبارک کے وعظ کو سننا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾
[الأنعام: 61]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر محافظ (فرشتے) بھیجتا ہے حتی کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اسے فوت کرتے ہیں، اور وہ اس میں کوتاہی نہیں کرتے ۔ “
حدیث 22:
«وعن أبى هريرة، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول ، ومثل المهجر كمثل الذى يهدي بدنة، ثم كالذي يهدى بقرة، ثم كبشا، ثم دجاجة، ثم بيضة ، فإذا خرج الإمام طووا صحفهم ويستمعون الذكر»
صحیح بخاری ، کتاب الجمعة، رقم: 929 ، صحیح مسلم، رقم: 850
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے، اس کے بعد مرغی کا ، اس کے بعد انڈے کا لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ “
جنت کا دربان فرشتہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ.﴾
[الحج: 75]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ فرشتوں میں سے کچھ پیغام رساں چن لیتا ہے اور لوگوں میں سے (بھی)، یقیناً اللہ بہت سننے والا ، خوب دیکھنے والا ہے۔ “
حدیث 23:
«وعن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتي باب الجنة يوم القيامة ، فأستفتح فيقول الخازن: من أنت؟ فأقول: محمد ، فيقول: بك أمرت لا أفتح لأحد قبلك»
صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 486
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اور اس کے کھول دینے کا مطالبہ کروں گا (یا اس پر دستک دوں گا) تو دربان کہے گا: آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ اس پر نگران کہے گا کہ مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی جنت کا دروازہ کھولوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی اور کے لیے دورازہ نہ کھولوں ۔ “
جہنم کا دربان مالک نامی فرشتہ
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ﴾
[غافر: 49]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور وہ لوگ جو آگ میں ہوں گے جہنم کے نگرانوں سے کہیں گے اپنے رب سے دعا کرو، وہ ہم سے ایک دن کچھ عذاب ہلکا کر دے۔ “
حدیث 24:
«وعن سمرة قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: رأيت الليلة رجلين أتياني ، قالا: الذى يوقد النار مالك خازن النار، وأنا جبريل ، وهذا ميكائيل»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم: 3236
”اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے آج رات (خواب میں) دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے۔ ان دونوں نے مجھے بتایا کہ وہ جو آگ جلا رہا ہے۔ وہ جہنم کا داروغہ مالک نامی فرشتہ ہے۔ میں جبریل ہوں اور یہ میکائیل ہیں۔ “
فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾
[التحريم: 6]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔ “
حدیث 25:
«وعن ابي هريرة، يبلغ به النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا قضى الله الامر فى السماء، ضربت الملائكة باجنحتها خضعانا، لقوله: كالسلسلة على صفوان، قال علي: وقال غيره: صفوان ينفذهم ذلك، فإذا ﴿فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ﴾ قالوا: للذي قال ﴿الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ فيسمعها مسترقو السمع، ومسترقو السمع هكذا واحد فوق آخر، ووصف سفيان بيده وفرج بين اصابع يده اليمنى نصبها بعضها فوق بعض، فربما ادرك الشهاب المستمع قبل ان يرمي بها إلى صاحبه فيحرقه، وربما لم يدركه حتى يرمي بها إلى الذى يليه إلى الذى هو اسفل منه حتى يلقوها إلى الارض، وربما قال سفيان: حتى تنتهي إلى الارض، فتلقى على فم الساحر فيكذب معها مائة كذبة، فيصدق، فيقولون: الم يخبرنا يوم كذا، وكذا يكون كذا، وكذا، فوجدناه حقا للكلمة التى سمعت من السماء»
صحیح بخاری ، کتاب التفسير ، رقم: 4701
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسماں میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملائکہ عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے (مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے ) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے صفوان کے بعد ﴿يَنْفُدُهُمْ ذالِكَ﴾ (جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے) کے الفاظ کہے ہیں۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں۔ بجا ارشاد فرمایا، اور وہ اونچا ہے بڑا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں (ایک پر ایک) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے (کبھی سفیان نے یوں کہا) پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہوگا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی ۔ “
روز قیامت فرشتے جہنم کو لگامیں ڈال کر لائیں گے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ. وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ .﴾
[المدثر: 30، 31]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس پر انیس (مقرر ) ہیں۔ اور ہم نے جہنم کے محافظ فرشتوں کے سوا نہیں بنائے اور ان کی تعداد ان لوگوں کی آزمائش ہی کے لیے بنائی ہے جنھوں نے کفر کیا، تاکہ وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی ہے، اچھی طرح یقین کر لیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ایمان میں زیادہ ہو جائیں اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی ہے اور ایمان والے شک نہ کریں اور تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو کفر کرنے والے ہیں کہیں اللہ نے اس کے ساتھ مثال دینے سے کیا ارادہ کیا ہے؟ اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ باتیں بشر کی نصیحت ہی کے لیے ہیں۔“
حدیث 26:
«وعن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يؤتى بجهنم يومئذ لها سبعون ألف زمام مع كل زمام سبعون ألف ملك يجرونها»
صحيح مسلم، كتاب الجنة ونعيمها، رقم: 2842
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنم کو لایا جائے گا، اس دن، اس کی ستر (70) لگامیں ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر (70) ہزار فرشتے ہوں گے، جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔“
اللہ عزوجل کے عرش کو فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے
قَالَ الله تَعَالَى: ﴿وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ﴾
[الحاقة: 17]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ “
حدیث 27:
«وعن العباس بن عبد المطلب قال: كنت فى البطحاء فى عصابة، فيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فمرت بهم سحابة ، فنظر إليها فقال: ما تسمون هذه؟ قالوا: السحاب، قال: والمزن؟ قالوا: والمزن، قال: والعنان؟ قالوا والعنان، قال أبو داود: لم أتقن العنان جيدا قال: هل تدرون ما بعد ما بين السماء والأرض؟ قالوا: لا ندري، قال: إن بعد ما بينهما إما واحدة ، أو اثنتان ، أو ثلاث وسبعون سنة، ثم السماء فوقها كذلك ، حتى عد سبع سماوات ، ثم فوق السابعة بحر بين أسفله وأعلاه مثل ما بين سماء ، إلى سماء ثم فوق ذلك ثمانية ، أو عال بين أظلافهم وركبهم مثل ما بين سماء إلى سماء ، ثم على ظهورهم العرش ما بين أسفله وأعلاه مثل ما بين سماء ، إلى سماء ثم الله تبارك وتعالى فوق ذلك»
سنن أبو داؤد، كتاب السنة، رقم: 4723، سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، رقم: 3320، سنن ابن ماجه، المقدمة، رقم: 193
”اور حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جماعت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک بادل کو گزرتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ اس کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا: سحاب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور اسے مزن بھی کہتے ہیں؟ کہا ہاں! فرمایا: "عنان بھی؟ عرض کیا ہاں۔ پوچھا جانتے ہو، آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے؟ صحابہ نے کہا نہیں، فرمایا: اکہتر یا تہتر سال کا راستہ۔ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر، اسی طرح ساتوں آسمان۔ ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے۔ پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے گھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے۔ ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے۔ پھر اس کے اوپر الہبی تبارک و تعالیٰ ہے۔ “
فرشتے نیک بندوں کے لیے خیر و بھلائی کی دعا کرتے ہیں
حدیث 28:
«وعن صفوان وهو ابن عبد الله بن صفوان وكانت تحته الدرداء قال: قدمت الشام فأتيت أبا الدرداء فى منزله فلم اجده، ووجدت أم الدرداء فقالت: أتريد الحج العام؟ فقلت: نعم قالت فادع الله لنا بخير فإن النبى صلى الله عليه وسلم كان يقول: دعوة المرء المسلم لأخيه بظهر الغيب مستجابة ، عند رأسه ملك موكل كلما دعا لأخيه بخير»
صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء رقم: 2733 ، سنن ابن ماجه، رقم: 2430
”اور صفوان یعنی عبد اللہ بن صفوان کے بیٹے، درداء جن کی بیوی تھی، کہتے ہیں، میں شام (اپنے سسرال ) آیا، چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گیا، وہ نہ ملے اور مجھے ام درداء رحمہ اللہ مل گئیں، انہوں نے پوچھا، اس سال تمہارا حج کرنے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، انہوں نے کہا، ہمارے لیے بھی اللہ سے خیر مانگنا، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: انسان کی اپنے بھائی کے لیے پس پشت دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سرہانے ایک فرشتہ مقرر ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر مانگتا ہے، اس پر مقرر فرشتہ کہتا ہے، آمین اور تجھے بھی اس کے مثل حاصل ہو۔ “
فرشتے کا ناقوس منہ میں لے کر انتظار کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾
[الزمر: 68]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور صور میں پھونکا جائے گا تو جولوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہوں گے، مرکر گر جائیں گے مگر جسے اللہ نے چاہا، پھر اس میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔ “
حدیث 29:
«وعن أبى سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف أنعم وقد التقم صاحب القرن القرن وحنى جبهته وأصغى سمعه ينتظر أن يؤمر أن ينفخ فينفخ»
سنن ترمذی ، کتاب تفسیر القرآن، رقم: 4243، سلسلة الصحيحة، رقم: 1079، 1078
”اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں کیسے بے پروا ہو سکتا ہوں جب کہ صور والے فرشتے نے ناد اپنے منہ میں لیا ہوا ہے اور اپنی پیشانی کو جھکایا ہوا ہے اور وہ اپنا کان لگائے انتظار کر رہا ہے کہ کب اسے (اس میں پھونکنے کا) حکم ملے اور وہ اس میں پھونک دیں۔ “
جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا
حدیث 30:
«وعن أبى سعيد ، أن جبريل أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد اشتكيت؟ قال: نعم، قال: باسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك ، من شر كل نفس وعين حاسد باسم الله أرقيك ، والله يشفيك»
سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 894، سنن ابن ماجه ، رقم: 3523- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل آئے اور کہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! تو انہوں نے یہ دم کیا: اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیزس جو آپ کو تکلیف دیتی ہے اور ہر نفس کے شر سے اور ہر حاسد کی نظر بد سے، اللہ تعالیٰ آپ کو شفا عطا کرے، اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں۔ “
جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾
[البقرة: 97]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کہہ دیجیے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے اسے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سراسر ہدایت اور خوش خبری ہے۔ “
حدیث 31:
«وعن ابن عباس رضى الله عنهما قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير ، وأجود ما يكون فى شهر رمضان ، لأن جبريل كان يلقاه فى كل ليلة فى شهر رمضان حتى ينسلخ ، يعرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم القرآن فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة»
صحیح بخاری ، کتاب فضائل القرآن، رقم: 4997
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھی اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی کیونکہ رمضان کے مہینوں میں حضرت جبریل علیہ السلام آپ سے آکر ہر رات ملتے تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا وہ ان راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ سے ملتے تو اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہو جاتے تھے۔ “
حدیث 32:
«وعن أبى هريرة قال: كان يعرض على النبى صلى الله عليه وسلم القرآن كل عام مرة فعرض عليه مرتين فى العام الذى قبض فيه، وكان يعتكف كل عام عشرا ، فاعتكف عشرين فى العام الذى قبض فيه»
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، رقم: 4998
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ صلى الله عليه وسلم نے بیسں دن کا اعتکاف کیا۔ “
حدیث 33:
«وعن انس رضي الله عنه، قال: بلغ عبد الله بن سلام مقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة فاتاه، فقال: إني سائلك عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي، قال: ما اول اشراط الساعة وما اول طعام ياكله اهل الجنة ومن اي شيء ينزع الولد إلى ابيه ومن اي شيء ينزع إلى اخواله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” خبرني بهن آنفا جبريل قال فقال عبد الله ذاك عدو اليهود من الملائكة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما اول اشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلى المغرب واما اول طعام ياكله اهل الجنة فزيادة كبد حوت واما الشبه فى الولد، فإن الرجل إذا غشي المراة فسبقها ماؤه كان الشبه له وإذا سبق ماؤها كان الشبه لها، قال: اشهد انك رسول الله، ثم قال: يا رسول الله إن اليهود قوم بهت إن علموا بإسلامي قبل ان تسالهم بهتوني عندك فجاءت اليهود ودخل عبد الله البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي رجل فيكم عبد الله بن سلام، قالوا: اعلمنا وابن اعلمنا واخبرنا وابن اخيرنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افرايتم إن اسلم عبد الله، قالوا: اعاذه الله من ذلك فخرج عبد الله إليهم، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا رسول الله، فقالوا: شرنا وابن شرنا ووقعوا فيه»
صحیح بخاری ، کتاب أحاديث الانبياء، رقم: 3329
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی جبریل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آکر اس کی خبر دی ہے۔ اس پر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی یہودیوں کے دشمن ہیں۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا لٹکا رہتا ہے وہ ہوگا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اس کی شکل وصورت پر ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی پہل کر جائے تو پھر بچہ عورت کی شکل وصورت پر ہوتا ہے۔ (یہ سن کر) حضرت عبد اللہ بن سلام نہیں رضی اللہ عنہ بول اٹھے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبد اللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: اگر عبد اللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہوگا؟ انہوں نے کہا، اللہ تعالی انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔ “
دنیا میں دن رات مسلسل فرشتوں کی آمدورفت
حدیث 34:
«وعن أبى هريرة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار، ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ، ثم يعرج الذين باتوا فيكم، فيسألهم – وهو أعلم بهم – كيف تركتم عبادى؟ فيقولون: تركناهم وهم يصلون وأتيناهم وهم يصلون»
صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلاة، رقم: 555 ، صحیح مسلم، رقم: 636
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا ۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر) کی نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ “
حضرت جبریل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرنا
حدیث 35:
«وعن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم حدثته: أنها قالت للنبي صلى الله عليه وسلم: هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أحد؟ قال: لقد لقيت من قومك ما لقيت ، وكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة، إذ عرضت نفسى على ابن عبدياليل بن عبد كلال، فلم يجبني إلى ما أردت ، فانطلقت وأنا مهموم على وجهي ، فلم أستفق إلا وأنا بقرن الشعالب، فرفعت رأسي، فإذا أنا بسحابة قد أظلتني ، فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال: إن الله قد سمع قول قومك لك وما ردوا عليك، وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم ، فناداني ملك الجبال ، فسلم على ثم قال: يا محمد! فقال: ذلك فيما شئت ، إن شئت أن أطبق عليهم الأخشبين . فقال النبى صلى الله عليه وسلم: بل أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده لا يشرك به شيئا»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق ، رقم: 3231 ، صحیح مسلم، رقم: 1795
”اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گذرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارشاد فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار ) کنانہ ابن عبدیالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جوا کیلے اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔ “
جبریل علیہ السلام کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دین سکھانا
حدیث 36:
«وعن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سلوني؟ فهابوه ان يسالوه، فجاء رجل فجلس عند ركبتيه، فقال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال: ” لا تشرك بالله شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان”، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ قال: ” ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتابه، ولقائه، ورسله، وتؤمن بالبعث، وتؤمن بالقدر كله”، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال: ” ان تخشى الله، كانك تراه، فإنك إن لا تكن تراه، فإنه يراك”، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، متى تقوم الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، وساحدثك عن اشراطها” إذا رايت المراة تلد ربها، فذاك من اشراطها، وإذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض، فذاك من اشراطها، وإذا رايت رعاء البهم يتطاولون فى البنيان، فذاك من اشراطها، فى خمس من الغيب، لا يعلمهن إلا الله”، ثم قرا ﴿إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ الی اخر السورۃ (لقمان: 34)، قال: ثم قام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” ردوه علي، فالتمس فلم يجدوه”، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” هذا جبريل، اراد ان تعلموا إذ لم تسالوا»
صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 99
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھ سے (دین کے بارے میں ) پوچھ لو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے مرعوب ہوئے کہ سوال نہ کر سکے، تب ایک آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گھٹنوں کے قریب بیٹھ گیا، پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (پھر) پوچھا: اے اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب، (قیامت کے روز ) اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاؤ اور ہر (امر کی) تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا: (پھر) کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے تو وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے صحیح ارشاد فرمایا: (پھر) پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے جواب دیا: جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ میں تمہیں اس کی علامات بتائے دیتا ہو: جب دیکھو کہ عورت اپنے آقا کو جنم دیتی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے، گونگے اور بہرے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ اس کی علامات میں سے ہے اور جب دیکھو کہ بھیڑ بکریوں کے چرواہے اونچی سے اونچی عمارات بنانے میں باہم مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ (قیامت کا وقوع ) غیب کی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ارحام (ماؤں کے پیٹوں ) میں کیا ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل میں کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ (کہاں) کس زمین میں فوت ہو گا …“ سورت کے آخر تک۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر وہ آدمی کھڑا ہو گیا (اور چلا گیا ) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انہیں (صحابہ کرام کو ) نہ ملا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ جبریل تھے، انہوں نے چاہا کہ تم نہیں پوچھ رہے تو تم (دین) سیکھ لو (انہوں نے آ کر تمہاری طرف سے سوال کیا۔ )“
قرب قیامت عیسی علیہ السلام فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر اتریں گے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا﴾
[النساء: 172]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”مسیح (عیسی ابن مریم) کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی عار نہیں اور نہ مقرب فرشتوں کو عار ہے، اور جو کوئی اللہ کی عبادت کو عار خیال کرے اور تکبر کرے، تو اللہ جلد ان سب کو اپنی طرف جمع کرے گا۔ “
حدیث 37:
«وعن النواس بن سمعان ، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال ذات غداة، فخفض فيه ورفع حتى ظنناه فى طائفة النخل، فلما رحنا إليه عرف ذلك فينا، فقال: ” ما شانكم؟ "، قلنا: يا رسول الله، ذكرت الدجال غداة، فخفضت فيه ورفعت حتى ظنناه فى طائفة النخل، فقال: ” غير الدجال اخوفني عليكم إن يخرج، وانا فيكم فانا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولست فيكم، فامرؤ حجيج نفسه والله خليفتي على كل مسلم إنه شاب قطط عينه طافئة كاني اشبهه بعبد العزى بن قطن، فمن ادركه منكم، فليقرا عليه فواتح سورة الكهف إنه خارج خلة بين الشام والعراق، فعاث يمينا وعاث شمالا، يا عباد الله فاثبتوا ” قلنا: يا رسول الله، وما لبثه فى الارض؟ ، قال: ” اربعون يوما يوم كسنة، ويوم كشهر، ويوم كجمعة وسائر ايامه كايامكم "، قلنا: يا رسول الله، فذلك اليوم الذى كسنة اتكفينا فيه صلاة يوم؟ ، قال: لا اقدروا له قدره "، قلنا: يا رسول الله، وما إسراعه فى الارض؟ ، قال: ” كالغيث استدبرته الريح، فياتي على القوم، فيدعوهم فيؤمنون به ويستجيبون له، فيامر السماء فتمطر، والارض فتنبت، فتروح عليهم سارحتهم اطول ما كانت ذرا واسبغه ضروعا، وامده خواصر ثم ياتي القوم، فيدعوهم فيردون عليه قوله فينصرف عنهم، فيصبحون ممحلين ليس بايديهم شيء من اموالهم ويمر بالخربة، فيقول: لها اخرجي كنوزك، فتتبعه كنوزها كيعاسيب النحل ثم يدعو رجلا ممتلئا شبابا، فيضربه بالسيف فيقطعه جزلتين رمية الغرض ثم يدعوه، فيقبل ويتهلل وجهه يضحك فبينما هو كذلك إذ بعث الله المسيح ابن مريم، فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مهرودتين، واضعا كفيه على اجنحة ملكين إذا طاطا راسه قطر، وإذا رفعه تحدر منه جمان كاللؤلؤ، فلا يحل لكافر يجد ريح نفسه إلا مات ونفسه ينتهي حيث ينتهي طرفه، فيطلبه حتى يدركه بباب لد، فيقتله ثم ياتي عيسى ابن مريم قوم قد عصمهم الله منه، فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم فى الجنة، فبينما هو كذلك إذ اوحى الله إلى عيسى إني قد اخرجت عبادا لي لا يدان لاحد بقتالهم، فحرز عبادي إلى الطور، ويبعث الله ياجوج وماجوج وهم من كل حدب ينسلون، فيمر اوائلهم على بحيرة طبرية، فيشربون ما فيها ويمر آخرهم، فيقولون: لقد كان بهذه مرة ماء، ويحصر نبي الله عيسى، واصحابه حتى يكون راس الثور لاحدهم خيرا من مائة دينار لاحدكم اليوم فيرغب نبي الله عيسى واصحابه فيرسل الله عليهم النغف فى رقابهم، فيصبحون فرسى كموت نفس واحدة، ثم يهبط نبي الله عيسى واصحابه إلى الارض، فلا يجدون فى الارض موضع شبر إلا ملاه زهمهم ونتنهم، فيرغب نبي الله عيسى واصحابه إلى الله، فيرسل الله طيرا كاعناق البخت، فتحملهم فتطرحهم حيث شاء الله ثم يرسل الله مطرا لا يكن منه بيت مدر، ولا وبر فيغسل الارض حتى يتركها كالزلفة، ثم يقال للارض: انبتي ثمرتك وردي بركتك، فيومئذ تاكل العصابة من الرمانة ويستظلون بقحفها، ويبارك فى الرسل حتى ان اللقحة من الإبل لتكفي الفئام من الناس، واللقحة من البقر لتكفي القبيلة من الناس، واللقحة من الغنم لتكفي الفخذ من الناس، فبينما هم كذلك إذ بعث الله ريحا طيبة، فتاخذهم تحت آباطهم، فتقبض روح كل مؤمن وكل مسلم ويبقى شرار الناس يتهارجون فيها تهارج الحمر، فعليهم تقوم الساعة»
صحیح مسلم کتاب الفتن رقم: 7373 ، مسند احمد: 248/4، سنن ابو داؤد، رقم: 4321، سنن ترمذی، رقم: 2240، سنن ابن ماجه، رقم: 4126، مستدرك حاكم: 537/4
”اور حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور اس کے معاملہ کو حقیر اور بڑا بیان کیا، حتی کہ ہم نے اسے کھجوروں کے جھنڈ میں خیال کیا، چنانچہ ہم شام کو آپ کے پاس گئے ، آپ نے ہمارے تاثر کو یا خیال کو بھانپ لیا تو ارشاد فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا تذکرہ فرمایا اور آپ نے اس کے بارے میں کبھی پست آواز میں گفتگو کی اور کبھی بلند آواز میں، یا اس کو کبھی گھٹا دیا اور کبھی بڑھایا، (یعنی اس کے فتنہ کی کبھی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا قرار دیا ) حتی کہ ہم نے اسے کھجوروں کے جھنڈ میں موجود خیال کیا، آپ نے ارشاد فرمایا: دجال سے زیادہ تمہارے بارے میں مجھے اور چیز کا اندیشہ ہے، اگر وہ میری تمہارے اندر موجودگی میں نکلا تو میں تم سے پہلے اس کا مقابلہ کروں گا، (اس پر دلیل سے غالب آؤں گا) اور اگر وہ میری غیر موجودگی میں نکلا تو ہر انسان اپنی طرف سے مقابلہ کرے گا اور ہر مسلمان پر اللہ نگہبان ہے، یا میری طرف سے محافظ ہے، وہ نوجوان گھنگھریالے بالوں والا ہو گا، اس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہے، گویا کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے مشابہت دیتا ہوں، تم میں سے جو شخص اس کو پائے تو وہ اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے، بلاشبہ وہ شام اور عراق کے درمیان راستہ سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد مچائے گا، اے اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا، ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول ! وہ زمین میں کتنی مدت ٹھہرے گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: چالیس دن، ایک دن سال بھر کا ہوگا، اور ایک دن مہینہ کا اور ایک دن ہفتہ بھر کا اور باقی دن عام دنوں کی طرح، ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول! تو وہ دن جو سال بھر کے برابر ہوگا تو کیا ہمیں اس میں ایک دن کی نمازیں کفایت کر جائیں گی؟ آپ نے ارشاد فرمایا: نہیں ، تم دن کا اندازہ کر لینا۔ ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول! زمین میں اس کی تیز رفتاری کتنی ہوگی؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس بارش کی طرح جس کو ہوا دھکیل رہی ہو، چنانچہ وہ ایک قوم کے پاس آ کر، انہیں دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی باتوں کو مان لیں گے، چنانچہ وہ بادلوں کو حکم دے گا، وہ بارش برسائیں گے، زمین اس کے حکم سے اگائے گی، شام کو ان کو چرنے والے مویشی آئیں گے تو ان کی کہانیں پہلے سے لمبی ہوں گے اور تھن بڑے اور کوکھیں دراز ہوں گی ، پھر دوسری قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا، وہ اس کی باتوں کی تردید کریں گے تو وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا تو وہ صبح قحط کا شکار ہو چکے ہوں گے، ان کے اموال میں سے کچھ بھی ان کے پاس نہیں ہوگا اور وہ ایک بنجر علاقہ سے گزرے گا تو اسے کہے گا، اپنے خزانے نکال دے تو اس کے خزانے اس کے پیچھے چلیں گے، جیسا کہ شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک بھرپور جوانی والے آدمی کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر دو ٹکڑے کر دے گا، جن کے درمیان قبر کے نشانہ کے بقدر فاصلہ ہو گا، پھر وہ اس کو بلائے گا، وہ دمکتے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا بڑھے گا، وہ انہیں حالات میں ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم علیہ السلام کو بھیج دے گا تو وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس دو زرد چادروں میں، دوفرشتوں کے پروں پر، اپنی دونوں ہتھیلیاں رکھے ہوئے اتریں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ بہے گا اور جب وہ اسے اٹھائیں گے تو اس سے موتی جیسے دانوں کی صورت میں قطرے گریں گے تو جو کافر بھی حضرت عیسی کے سانس کی خوشبو پائے گا، وہ زندہ نہیں رہ سکے گا اور ان کا سانس وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی تو حضرت عیسی، دجال کو تلاش کریں گے، حتی کہ مقامِ لد کے دروازہ پر اس کو جالیں گے اور اسے قتل کر دیں گے، پھر عیسی علیہ السلام کے پاس ایک قوم آئے گی، جسے اللہ نے دجال سے بچا لیا ہو گا، (وہ اسے متاثر نہیں ہوں گے ) تو حضرت عیسی علیہ السلام ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور انہیں جنت میں ان کے درجات بتائیں گے، انہیں حالات میں اللہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکال دیئے ہیں، کسی کو ان سے جنگ کرنے کا یارا نہیں ہے، لہذا میرے بندوں کو طور کی پناہ میں لے جائیے اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا اور وہ ہر ٹیلہ سے دوڑ رہے ہوں گے، چنانچہ ان کا پہلا گروہ بحیرہ طبریہ سے گزرے گا اور وہ اس کا سارا پانی پی جائے گا اور ان کا دوسرا گروہ آئے گا، کبھی ادھر پانی رہا ہے، اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصور ہو جائیں گے، (جبل طور میں بند ہو جائیں گے ) حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سر، آج تمہارے کسی ایک کے نزدیک سو دینار، سے بہتر ہوگا، چنانچہ اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہوں گے، (دعا کریں گے ) تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں کیڑے ڈال دے گا تو وہ ایک شخص کی طرح فوراً مر جائیں گے، پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی (طور سے ) زمین پر اتر آئیں گے تو انہیں زمین میں ایک بالشت ٹکڑا بھی ایسا نہیں ملے گا، جو ان کی چکنائی اور بد بو سے بھرا نہ ہو، چنانچہ اللہ کے نبی عیسی اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہوں گے، (دعا کریں گے ) چنانچہ اللہ تعالی بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرندے بھیجے گا، جو انہیں اٹھا ئیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا، انہیں پھینک دے گا، پھر اللہ ایسی بارش بھیجے گا، جس سے کوئی مٹی یا بالوں کا گھر نہیں بچائے گا، بارش زمین کو دھو دے گی ، حتی کہ وہ اسے شیشہ کی طرح صاف شفاف بنا کر چھوڑے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا، اپنی پیداوار اگا اور اپنی برکت لوٹا تو ان دنوں ایک انار جماعت کو سیر کرے گا اور وہ اس کے چھلکے کے سائے میں بیٹھے گی اور دودھ میں برکت ڈالی جائے گی حتی کہ انہیں دودھ دینے والی اونٹنی لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے کافی ہوگی اور دودھ دینے والی گائے لوگوں کے ایک قبیلہ کے لیے کافی ہو گی اور دودھ دینے والی بکری لوگوں کے ایک کنبہ کے لیے کافی ہوگی، انہیں حالات میں اچانک اللہ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا، جولوگوں کی بغلوں کو چھوئے گی اور وہ ہر مومن اور ہر مسلم ان کی جان قبض کر لے گی اور بدترین لوگ رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح کھلم کھلا تعلقات قائم کریں گے اور انہیں پر قیامت قائم ہوگی۔ “
انسان کی جان لینے والا فرشتہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾
[السجدة: 11]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کہہ دیجیے تمھیں موت کا فرشتہ قبض کرے گا، جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “
حدیث 38:
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: أرسل ملك الموت إلى موسى عليهما السلام فلما جائه صله فرجع إلى ربه فقال: أرسلتني إلى عبد لا يريد الموت قال: ارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة قال: أى رب ، ثم ماذا قال: ثم الموت قال: فالآن قال: فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدسة رمية بحجر قال أبو هريرة: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر»
صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 3407
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا، جب ملک الموت حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آجائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی (ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا) حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے اے رب ! پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پھر پھینکنے والا پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں، میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے، ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ “
قبر میں مومن آدمی اور بد آدمی سے فرشتوں کے سوالات
حدیث 39:
«وعن البراء بن عازب رضي الله عنه قال: خرجنا مع النبى صلى الله عليه وسلم فى جنازة رجل من الأنصار فانتهينا إلى القبر ، ولما يلحد، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلسنا حوله، وكان على رؤوسنا الطير، وفي يده عود ينكت فى الأرض ، فرفع رأسه فقال: استعيذوا بالله من عذاب القبر . مرتين أو ثلاثا ، ثم قال: إن العبد المؤمن إذا كان فى انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة، نزل إليه ملائكة من السماء بيض الوجوه كأن وجوههم الشمس معهم كفن من أكفان الجنة وحنوط من حنوط الجنة حتى يجلسوا منه مد البصر ، ثم يجيء ملك الموت عليه السلام حتى يجلس عند رأسه ، فيقول: أيتها النفس الطيبة اخرجى إلى مغفرة من الله ورضوان، قال: فتخرج تسيل كما تسيل القطرة من فى السقاء، فيأخذها ، فإذا أخذها لم يدعوها فى يده طرفة عين حتى يأخذوها فيجعلوها فى ذالك الكفن وفي ذالك الحنوط، ويخرج منها كأطيب نفحة مسك، وجدت على وجه الأرض ، قال: فيصعدون بها فلا يمرون يعني بها على ملا من الملائكة إلا قالوا: ما هذا الروح الطيب فيقولون: فلان بن فلان بأحسن أسمائه التى كانوا يسمونه بها فى الدنيا حتى ينتهوا بها إلى السماء الدنيا فيستفتحون له فيفتح لهم ، فيشيعه من كل سماء مقربوها إلى السماء التى تليها حتى ينتهى به إلى السماء السابعة فيقول الله عز وجل: اكتبوا كتاب عبدي فى عليين، وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى ، قال: فتعاد روحه فى جسده فيأتيه ملكان فيجلسانه ، فيقولون له: من ربك؟ فيقول: ربي الله ، فيقولون له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام، فيقولون له: ما هذا الرجل الذى بعث فيكم؟ فيقول: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فيقولون له: وما علمك؟ فيقول: قرأت كتاب الله ، فآمنت به وصدقت، فينادي مناد فى السماء أن صدق عبدي فأفرشوه من الجنة، والبسوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة ، قال: فيأتيه رجل حسن الوجه، حسن القياب، طيب الريح ، فيقول: أبشر بالذي يسرك، هذا يومك الذى كنت توعد، فيقول له: من أنت ، فوجهك الوجه يجيء بالخير، فيقول: أنا عملك الصالح ، فيقول: رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي ومالي، وقال: وإن العبد الكافر ، إذا كان فى انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه معهم المسوح، فيجلسون منه مد البصر ، ثم يجيء ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول: أيتها النفس الخبيثة! أخرجى إلى سخط من الله وغضب ، قال: فتفرق فى جسده، فينتزعها كما ينتزع السفود من الصوف المبلول فيأخذه، فإذا أخذها لم يدعوها فى يده طرفة عين يجعلوها فى تلك المسوح، ويخرج منها كأنتن ريح وجدت على وجه الأرض ، فيصعدون بها ، فلا يمرون بها على ما من الملائكة إلا قالوا: ما هذا الروح الخبيت؟ فيقولون: فلان بن فلان بأقبح أسمائه التى كان يسمى بها فى الدنيا، حتى ينتهى به إلى السماء الدنيا، فيستفتح له ، فلا يفتح له ، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ﴾ فيقول الله عز وجل: أكتبوا كتابه فى سجين فى الأرض السفلى فتطرح روحه طرحا ، ثم قراء: ﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ﴾ فتعاد روحه فى جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه ، لا أدري، فيقولان: ما دينك؟ فيقول: هاه هاه لا أدري ، فيقولان له: ما هذا الرجل الذى بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا أدري ، فينادي مناد من السماء أن كذب فأفرشوا له من النار وافتحوا له بابا إلى النار، فيأتيه من حرها وسمومها، ويضيق عليه قبره حتى يختلف فيه أضلاعه ، ويأتيه رجل قبيح الوجه ، قبيح الثياب، منتن الريح ، فيقول: أبشر بالذي يسوء ك ، هذا يومك الذى كنت توعد، فيقول: من أنت؟ فوجهك الوجه يجيء بالشر، فيقول: أنا عملك الخبيث، فيقول: رب لا تقم الساعة»
مسند أحمد، رقم: 18733۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازہ میں گئے ، جب قبر پر پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے ، ایسے لگتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی تھی ، اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کریدنے لگ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دو تین بار ارشاد فرمایا: عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن آدمی جب اس دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے مراحل میں ہوتا ہے تو آسمان سے سورج کی طرح کے انتہائی سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، ان کے پاس جنت کا کفن اور خوشبو ہوتی ہے، وہ آکر اس آدمی کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اتنے میں موت کا فرشتہ آکر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ روح! اللہ کی بخشش اور رضامندی کی طرف نکل۔ اس کی روح آرام سے بہتی ہوئی یوں نکل آتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکل آتا ہے۔ جنت کے فرشتے اس روح کو موت کے فرشتے کے ہاتھوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ فورا اسے وصول کر کے جنت والے کفن اور خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں، اس سے روئے زمین پر کستوری کی عمدہ ترین خوشبو جیسی مہک آتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں اور وہ فرشتوں کی جس جماعت اور گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں: یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟ اسے دنیا میں جن بہترین ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ فرشتے ان میں سے سب سے عمدہ نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک وہ اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں، ان کے کہنے پر دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس روح کو اوپر والے آسمان تک چھوڑ کر آتے ہیں، اس طرح اسے ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے (نامہ اعمال والی) کتاب علين میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ، کیونکہ میں نے اس کو اسی سے پیدا کیا ہے، اس لیے میں اس کو اسی میں لوٹاؤں گا اور پھر اس کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیا گیا تھا ، وہ کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں: یہ باتیں تمہیں کیسے معلوم ہوئیں؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی، اس کے بعد آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا ہے، اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اسے جنت کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پس اس کی طرف جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آنے لگتی ہیں اور تاحد نگاہ اس کے لیے قبر کو فراخ کر دیا جاتا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کے پاس ایک انتہائی حسین و جمیل، خوش پوش اور عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور کہتا ہے تمہیں ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تمہیں اچھی لگے، یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ تھا۔ وہ قبر والا پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ لگتا ہے، جو خیر کے ساتھ آتا ہے۔ وہ جواباً کہتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ وہ کہتا ہے: اے میرے ربّ! قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کافر آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں، وہ آکر اس کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اتنے میں موت کا فرشتہ آکر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث روح! اللہ کے غصے اور ناراضگی کی طرف نکل آ، وہ اس کے جسم میں بکھر جاتی ہے۔ پھر فرشتہ اسے یوں کھینچتا ہے جیسے کانٹے دار سلاخ کو گیلی اُون میں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔ جب فرشتہ اسے نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے اس روح کو اس کے ہاتھ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ اسے فوراً ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں، روئے زمین پر پائے جانے والی سب سے گندی بدبو اس سے آتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر کو جاتے ہیں۔ وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں: یہ خبیث روح کس کی ہے؟ اس آدمی کو دنیا میں جن برے ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ ان میں سے سب سے برا اور گندا نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک کہ فرشتے اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانے کا کہتے ہیں، لیکن اس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف: 40) یعنی: اوپر جانے کی خاطر ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں اس وقت تک نہ جاسکیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے سے نہ گزر جائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس کے (نامہ اعمال) کی کتاب زمین کی زیریں نہ سجين میں لکھ دو۔ پھر اس کی روح کو زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ﴾ (الحج: 31) یعنی: اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے، وہ گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندوں نے اچک لیا یا ہوا اسے اڑا کر دور دراز لے گئی۔ اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے اور دو فرشتے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تو نہیں جانتا۔ وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تو نہیں جانتا۔ وہ پوچھتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیا گیا تھا، وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں نہیں جانتا۔ آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، پس وہاں سے اس کی طرف جہنم کی حرارت اور بد بو آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر اس قدر تنگ کر دی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔ ایک انتہائی بدشکل، بدصورت، گندے لباس والا بد بودار آدمی اس کے پاس آ کر کہتا ہے: تجھے ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تجھے بری لگتی ہے، یہ وہی دن ہے کہ جس کا تجھ سے وعدہ کا جاتا تھا۔ وہ پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ ہے جو شر کے ساتھ آتا ہے؟ وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل ہوں۔ وہ قبر والا کہتا ہے: اے میرے رب ! قیامت قائم نہ کرنا۔ “
حدیث 40:
«وعن أبى هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا قبر الميت آتاه ملكان أسودان ازرقان يقال لا حدهما المنكر ، وللآخر: النكير فيقولان: ما كنت تقول فى هذا الرجل؟ فيقول: هو عبد الله ورسوله، أشهد أن لا إله إلا الله و أن محمدا عبده ورسوله . فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول هذا، ثم يفسح له فى قبره سبعون ذراعا فى سبعين ، ثم ينور له فيه ، ثم يقال له ، نم . فيقول: ارجع إلى أهلى فأخبرهم . فيقولان: نم كنومة العروس الذى لا يوقظه إلا أحب أهله إليه حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك . وإن كان منافقا قال: سمعت الناس يقولون قولا فقلت مثله، لا أدرى فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول ذلك ، فيقال للارض: التيمي عليه، فتلتئم عليه ، فتختلف أضلاعه ، فلا يزال فيها معذبا حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك»
سنن ترمذی ، کتاب الجنائز، رقم: 1071 ، المشكاة، رقم: 130 – محدث البانی نے اسے ”حسن“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی مردے کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے فرشتے آتے ہیں، ان کی آنکھیں نیلگوں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ وہ اس سے دریافت کریں گے، اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ وہ جواب میں کہے گا، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس پر وہ کہیں گے، ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی اقرار کرے گا۔ بعد ازاں اس کی قبر ستر ہاتھ لمبائی میں اور ستر ہاتھ چوڑائی میں کشادہ کر دی جاتی ہے۔ پھر اس کی قبر کو منور کر دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے تم محو خواب ہو جاؤ۔ وہ کہے گا، مجھے اپنے گھر واپس جانے دیں تاکہ میں انہیں (یہ حالات ) بتا سکوں ۔ وہ کہیں گے تم دلہن کی مانند محو استراحت ہو جاؤ جس کو اس کے گھر والوں میں سے صرف وہی فرد بیدار کرسکتا ہے جو اس کے ہاں سب سے زیادہ پیارا ہے (مقصود اس کا خاوند ہے ) یہاں تک کہ اللہ اس کو اس کے آرام کی جگہ سے اٹھائے گا۔ اور اگر وہ منافق ہوگا تو کہے گا، میں نے لوگوں سے جو باتیں سنیں اسی طرح کی باتیں میں نے کہیں، مجھے کچھ علم نہیں۔ دونوں فرشتے اسے کہیں گے، ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی بات کہے گا۔ چنانچہ قبر کو حکم دیا جائے گا کہ اس پر سکڑ جا، تو قبر اس پر سکڑ جائے گی، جس سے اس کی پسلیاں (اصل حالت سے) زائل ہوجائیں گی۔ چنانچہ وہ ہمیشہ عذاب قبر میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين