تسمیات اور اصطلاحات کی طاقت
اصطلاحات اور تسمیات کا استعمال ہمیشہ سیاسی اور سماجی جنگوں میں ایک اہم ہتھیار رہا ہے۔
مثال کے طور پر، "دہشت گردی” جیسے الفاظ میڈیا کے ذریعے استعمال ہو کر مخالفین کی شبیہ خراب کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
جس کے پاس میڈیا کی طاقت ہوتی ہے، وہ آسانی سے اپنی مرضی کی اصطلاحات ایجاد کرکے دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
جاہلی نظام نے اصطلاحات کو اپنا ہتھیار بنایا ہے، جہاں "فرقہ واریت” جیسی اصطلاحات اصلاحی تحریکوں کو دبانے میں استعمال ہوتی ہیں۔
جاہلیت اور اصطلاحات کا ہتھیار
جاہلی قوتیں میڈیا اور اصطلاحات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں، جسے "تاریخ کا بدترین فاشزم” کہا جا سکتا ہے۔
نئے الفاظ اور پراسرار اصطلاحات کے ذریعے دینی تحریکوں کو مشکوک بنایا جاتا ہے، جیسا کہ ماضی میں "وہابیت” کے لیبل نے کئی تحریکوں کو نقصان پہنچایا۔
نت نئی دعوتوں اور تحریکوں کا ظہور
◈ اسلام کے نام پر بعض اوقات گمراہی یا انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
◈ ایسے نظریات جو معروف اہل علم کی سرپرستی میں نہیں، وہ نوجوانوں کو جذباتیت اور شدت پسندی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
◈ وقت کے مستند علمائے سنت کی رہنمائی کے بغیر نئے افکار و نظریات کو اپنانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
گمنام لکھاریوں اور غیر مستند لٹریچر سے خبردار
◈ ایسے گمنام لکھاری جو علمائے وقت پر تنقید کرتے ہیں اور خود کو نوجوانوں کا رہنما ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔
◈ وقت کے علمائے سنت سے وابستگی نوجوانوں کو گمراہی سے بچا سکتی ہے اور ان کے دینی و فکری تحفظ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
شدت پسند بیانیہ اور تکفیر کی وبا
◈ شدت پسندی اور "تکفیر” کا رجحان زیادہ تر ان طبقوں میں پروان چڑھتا ہے جو دینی جوش و جذبے میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔
◈ شدت پسند بیانیے کے ذریعے علماء کی مرکزی دھارے (mainstream) کو "مرجئہ” قرار دے کر نوجوانوں کو ان سے دور کیا جاتا ہے۔
◈ یہ بیانیہ نہ صرف علماء کو بدنام کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو غیر مستند رہنماؤں کی طرف لے جاتا ہے، جو مزید تقسیم اور گمراہی کا باعث بنتا ہے۔
علماء کی اہمیت اور ان سے وابستگی
◈ علماء دین کے اصولوں کو سمجھنے اور نوجوانوں کو رہنمائی فراہم کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
◈ علماء کے بغیر دینی تحریکوں کو غلط سمت میں لے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے، کیونکہ جذباتیت اور شدت پسندی نوجوانوں کو آسانی سے بہکاتی ہے۔
◈ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ نئی تحریکوں اور نظریات کو علمائے سنت کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کی حقیقی حیثیت کا تعین ہو سکے۔
برصغیر میں شدت پسندی کے بڑھتے خطرات
◈ برصغیر کی موجودہ صورتحال، جہاں "ردِ تقلید” کا رجحان پہلے سے موجود ہے، غیر مستند تحریکوں کے لیے سازگار ثابت ہو سکتی ہے۔
◈ ایسے رجحانات جو علماء کو بائی پاس کرکے شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں، ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔
◈ علماء سے وابستگی اور ان کی رہنمائی پر عمل ہی نوجوانوں کو اس خطرناک صورتحال سے بچا سکتا ہے۔
خلاصہ
مفہومات کی جنگ ایک فکری اور دینی چیلنج ہے جو میڈیا، اصطلاحات، اور شدت پسند بیانیے کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔
◈ نوجوانوں کو ان رجحانات سے بچانے کے لیے علمائے سنت کی رہنمائی اور ان سے وابستگی لازمی ہے۔
◈ ورنہ یہ جنگ دینی تحریکوں اور امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔