موجودہ صورتحال: دیندار طبقے کی بے بسی
مغربی تصورات کی وجہ سے پیدا ہونے والے فتنہ ارتداد کا دیندار طبقے کی جانب سے مختلف ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن ان میں مؤثر اور کامیاب اقدامات کی کمی واضح ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بے عملی بلکہ دینی غیرت اور جوش و جذبے کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے، جو ماضی میں دیگر مذاہب کے فتنوں کے خلاف ہمارے ردِعمل کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
دیندار طبقے کی مختلف کیفیات
1. جہالت
- بہت سے افراد کو اس فتنے کا علم ہی نہیں۔
- وہ مقامی مسجد میں عبادات تک محدود ہیں اور دوسرے مسلمانوں کی گمراہی کو "بے دینی” سمجھ کر صرف اس پر غصہ کرتے ہیں۔
- انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسے لوگ نماز یا دیگر دینی اعمال کیسے کرسکتے ہیں، جب ان کا اسلامی عقائد پر ایمان ہی باقی نہیں رہا۔
2. بے اعتنائی
- کچھ لوگ فتنہ ارتداد سے آگاہ ہیں، لیکن اسے غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں۔
- وہ مغربی تصورات کا مدلل جواب دینے کی بجائے اسلام کی برتری کے بے بنیاد دعووں پر اکتفا کرتے ہیں۔
- بعض کو مسئلے کی شدت اور اس کے تیزی سے پھیلنے کا ادراک نہیں ہوتا۔
3. سہل گیری اور خوش اعتقادی
- کچھ افراد مسئلے کی شدت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اپنی بے بسی کی وجہ سے خاموش ہیں۔
- وہ خدا کے کسی معجزے پر بھروسہ کر لیتے ہیں، حالانکہ قرآن کہتا ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ
[الرعد: 11]
"اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔”
4. ناکام اور غلط تردید
- کچھ افراد نے مغربی تصورات کی تردید کی کوشش کی، لیکن یہ کوششیں مؤثر ثابت نہیں ہوئیں۔
- ان کی دلیلوں میں گہرائی اور شواہد کی کمی تھی۔
- مخاطب ہمیشہ اپنے ہم خیال لوگ رہے، نہ کہ وہ لوگ جو ان نظریات کے قائل ہیں۔
- کئی بار اسلامی اور غیر اسلامی تصورات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے غلطیاں ہوئیں۔
- بعض اوقات غیر اسلامی نظریات کو اسلامی سمجھا گیا، اور کبھی اسلامی نظریات کو غیر اسلامی سمجھ کر مسترد کر دیا گیا۔
5. غیروں کے طعنے
- غیر مسلم اور مغرب کے حامی افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ان کے فلسفوں اور اعتراضات کا معقول جواب نہیں دیا۔
- امریکی مصنف پروفیسر سمتھ کے مطابق، آج کے مسلمان علمی اعتراضات سے لا تعلق ہیں اور کسی زمانے کے علمی مباحث کی طرح جدید اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہیں۔
مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی کمی
- جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کی نقالی تو خوب کرتا ہے لیکن مغربی فلسفے اور تہذیب کی گہرائی اور تنقید کو سمجھنے میں ناکام ہے۔
- مغربی مفکرین کے نظریات کو جاننے اور ان کے اثرات کو سمجھنے میں عدم دلچسپی عام ہے۔
چند مثالیں
- جان سٹیورٹ مل کو آزادی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے نظریات ایشیائی اور افریقی عوام کو آزادی سے محروم کر دیتے ہیں۔
- مارکس عملی طور پر مزدور طبقے کے لیے تضحیک آمیز رویہ رکھتا تھا۔
- ٹامس جیفرسن کو عظیم مصلح سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے غلاموں پر تشدد کا ذکر غائب ہے۔
- استاذ احمد جاوید کا قول: "مغرب کو نہ سمجھنا سب سے بڑا جرم ہے، اور اس جرم کے سب سے بڑے مجرم علما نہیں بلکہ مغربی تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔”
نتیجہ
یہ فتنہ ارتداد صرف مغربی تصورات کی ترویج کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری علمی، فکری، اور عملی کمزوریوں کا آئینہ دار بھی ہے۔ دینی طبقے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر علمی اور منطقی بنیادوں پر اس فتنے کا سامنا کرنا ہوگا۔