سلطان محمد تغلق
ایک ہندو شخص نے سلطان محمد تغلق کے خلاف عدالت میں دعویٰ کیا کہ سلطان نے اس کے بھائی کو بلاوجہ قتل کیا۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کیا، اور سلطان بغیر کسی تکبر کے قاضی کے سامنے ملزم کی حیثیت سے پیش ہوا۔ قاضی نے حکم دیا کہ مدعی کو راضی کیا جائے، ورنہ قصاص ہوگا۔ سلطان نے مدعی کو راضی کیا، اور یوں اپنی جان بچائی۔ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے غیرمسلموں کے حقوق کا احترام کیا اور ان کے ساتھ انصاف کا برتاؤ رکھا۔
شہاب الدین غوری
سلطان شہاب الدین غوری کے دور میں بھی غیرمسلموں کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا۔ انہلواڑہ کی شکست کے بعد جب سلطان غزنیں میں مقیم تھا، کسی نے تجویز دی کہ انہلواڑہ کے ایک تاجر "وسالہ ابہر” کا مال ضبط کر لیا جائے۔ سلطان نے جواب دیا:
"اگر یہ مال انہلواڑہ میں ہوتا، تو قبضہ کرنا جائز تھا، لیکن غزنیں میں یہ مال ہماری پناہ میں ہے، اس پر قبضہ کرنا حرام ہے۔”
(جامع الحکایات ولامع الروایات، ص: ۴۷، بحوالہ "مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری”، ص: ۷۲)
غیاث الدین بلبن
غیاث الدین بلبن کے دورِ حکومت (۱۲۶۵-۱۲۸۶) میں بھی ہندو مسلم تعلقات خوشگوار تھے۔ سنسکرت کے ایک کتبہ میں بلبن کو دنیا کا بوجھ اٹھانے والا اور عدل و انصاف کا علمبردار کہا گیا ہے۔
(ہندوستان کے معاشرتی حالات ازمنہٴ وسطی میں، از عبداللہ یوسف علی، ص: ۹۸)
علاء الدین خلجی
علاء الدین خلجی کو عام طور پر متعصب سمجھا جاتا ہے، لیکن اس نے ہندو مذہبی پیشواؤں کی عزت کی۔ مشہور ہندو رہنما "رام چندر سوری” اور دیگر پیشواؤں کو سلطان کے دربار میں عزت دی جاتی تھی۔
(اسلام امن وآشتی کا علمبردار، ص: ۷۴، حیدرآباد)
سلطان سکندر لودھی
سلطان سکندر لودھی نے ہندو رعایا کا خصوصی خیال رکھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ہندو فارسی زبان نہیں جانتے، تو اس نے برہمنوں کو فارسی سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ سرکاری عہدے حاصل کر سکیں۔ سکندر لودھی کے فیصلے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عمدہ مثال ہیں۔
(ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۲۰، ص: ۴۶-۴۷)
ظہیرالدین بابر
بابر نے ہندوستان میں مذہبی رواداری کی مثال قائم کی۔ وہ ہمیشہ ہندو رعایا کے حقوق کا خیال رکھتا اور تمام مذاہب کے ساتھ انصاف کرتا تھا۔ بیماری کے وقت، اس نے اپنے بیٹے ہمایوں کو نصیحت کی کہ مذہبی تعصبات کو ختم کر کے سب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
(مغل امپائر آف انڈیا، ص: ۵۵، پروفیسر شری رام شرن شرما)
ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان نے بھی غیرمسلموں کے ساتھ مثالی سلوک کیا۔ اس کے وزیراعظم اور فوجی سپہ سالار برہمن تھے۔ اس نے مندروں کو مالی امداد دی اور تمام مذاہب کے لوگوں کو حکومتی عہدوں پر فائز کیا۔
(مذہبی رواداری، ج: ۳، ص: ۳۱۷)
دکن کا اسلامی عہد
دکن کے مسلم حکمرانوں نے ہندو مسلم بھائی چارے کو فروغ دیا۔ ابراہیم قطب شاہ نے گولکنڈہ میں محبت اور ہم آہنگی قائم کی، جبکہ سلطان ابوالحسن تاناشاہ نے غیرمسلموں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔
(تاریخ حیدرآباد، ص: ۸)
جلال الدین اکبر
اکبر کے دور میں ہندو رعایا کے ساتھ نہایت فیاضی کا برتاؤ کیا گیا۔ ہندوؤں کو اہم فوجی اور سرکاری عہدے دیے گئے اور انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔
(مقالات شبلی، ج: ۱، ص: ۲۲۲)
اورنگزیب عالمگیر
اورنگزیب پر غیرمسلموں کے ساتھ سختی کے الزامات لگائے جاتے ہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس نے غیرمسلم رعایا کے ساتھ بھی انصاف کیا۔ اس نے مندروں کو جاگیریں عطا کیں اور ہندو سرداروں کو اعلیٰ عہدے دیے۔ بنگالی مورخ سرجادوناتھ سرکار لکھتے ہیں:
"اورنگزیب نے کبھی کسی ہندو کو جبراً مسلمان نہیں بنایا اور نہ ہی امن کی حالت میں کسی ہندو کو قتل کیا۔”
(تاریخ اورنگزیب، بحوالہ "غلط فہمیاں وضاحتیں”، ص: ۱۶)