مسلمان قاضی کے لیے ضروری شرائط اور خصوصیات
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

وہ شرائط جن کا مسلمان قاضی (جج) میں پایا جانا ضروری ہے

یاد رہے ہر (سرکاری) ذمے داری اور عہدے داری میں دو بنیادی ارکان بلکہ اساسی شرطوں کا ہونا ضروری ہے اور وہ دونوں قوت اور امانت ہیں۔ ان دو ارکان یا شرائط کا ہر عمل میں موجود ہونا از بس لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ» [القصص: 26]
”کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقتور، امانت دار ہی ہے۔“
نیز فرمایا:
«قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ» [النمل: 39]
”جنوں میں سے ایک طاقتور شرارتی کہنے لگا میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آوں گا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقیناًً پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔“
اور قاضی میں قوت شریعت اسلامیہ کے علم اور لوگوں کے حالات، روایات اور اصطلاحات کی معرفت پر مرکوز ہوتی ہے، تاکہ وہ شریعت کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرے اور شرعی احکام کی تطبیق و تنفیذ پر قادر ہو سکے کیونکہ ہر حکم اور فیصلے کے لیے اس کے قابل محل اور جگہ کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا قاضی میں شری احکام کا عالم ہونے اور لوگوں کے حالات، رسم و رواج اور اصطلاحات سے واقفیت رکھنے کی شرط لگائی جاتی ہے اور اسی کا نام قوت ہے۔ اس کا امانتدار ہونا بھی ضروری ہے اور امانت اسی وقت وجود پذیر ہو سکتی ہے، جب قاضی اور جج مسلمان اور عادل ہو۔ غیر مسلم کا فیصلہ مسلمان پر نافذ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے فیصلے میں امین اور قابل اعتماد نہیں ہوتا، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو فاسق کی خبر کی حقیقت معلوم کرنے کا حکم دیا ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ» [الحجرات: 6]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو۔“
بلاشبہ کافر کی خبر کی حقیقت معلوم کرنا بالاولٰی ضروری ہے۔ اس لیے ضرورت کے علاوہ کافر کی گواہی بھی جائز نہیں اور وہ بھی اس صورت میں جب کوئی مسلمان حالت سفر میں مر جائے اور اس کے نزدیک کوئی مسلمان نہ ہو تو اس نے وصیت کی اور دو کافروں کو گواہ بنا دیا۔ اسی حالت میں گواہی قبول کی جائے گی اور اگر ان دونوں کی قسموں میں کوئی شک واقع ہو تو وہ دونوں قسمیں اٹھائیں گے۔
بہر کیف اہم بات یہ ہے کہ قاضی کا مسلمان ہونا ضروری ہے اور عادل بھی۔ عدل سے مراد جس کا دین بھی درست ہو اور مروت (اخلاقی بلندی) بھی۔
جو واجبات ترک کرتا ہے یا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے یا صغیرہ گناہوں پر مصر رہتا ہے تو ایسا آدمی عادل نہیں ہوتا، لہٰذا وہ حاکم اور فیصلہ کرنے والا بھی نہیں بن سکتا کیونکہ فیصلہ تین امور پر مشتمل ہوتا ہے: گواہی، بیان اور فیصلہ۔ فیصلہ کرنے والا شرعی اور قانونی حکم بیان کرتا ہے، اس کی تشریح کرتا ہے اور کسی کے حق میں فیصلہ صادر کرتا ہے اور یہ حکم تقاضا کرتا ہے کہ وہ (قاضی) گواہی دیتا ہے کہ یہ حکم فلاں کے حق میں اور فلاں کے خلاف ہے۔ اور وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے، لہٰذا اس کا عادل ہونا ضروری ہے تاکہ ہم اس کے حکم اور خبر پر اعتماد کریں۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ مرد ہو۔ عورت کا قاضی کے عہدے پر متمکن ہونا ممکن نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”وہ قوم فلاح نہیں پائے گی، جس نے عورت کو اپنا ولی امر (نگران سلطنت) بنا لیا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 4425]
یہاں اور بھی شرائط ہیں جن میں علماء کرام کا اختلاف ہے، لہٰذا انہیں ذکر کرنے کی ضرورت ہے نہ موقع و محل کا تقاضا۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل