مسلمانوں کی علمی میراث اور مغربی خیانت
تحریر محمد محمود مصطفی

مغربی اثرات اور تعلیمی نصاب کی جانبداری

مسلمان ممالک میں تعلیمی اداروں کا حال افسوسناک حد تک مغرب زدہ ہے۔ درسی کتب میں علوم و ایجادات کے تمام سرچشمے یورپ سے منسوب کیے جاتے ہیں، اور مسلمانوں کے سائنسی کارناموں کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ درسی مواد مرتب کرنے والے ماہرین کی علمی بددیانتی کو ظاہر کرتا ہے۔

  • زمین کے بیضوی ہونے کا انکشاف فرڈی نینڈ میگلون (Ferdinand Magellan) سے منسوب کیا جاتا ہے۔
  • خطوطِ عرض و طول کے موجد کے طور پر مرکٹور گوھارڈوی اور انگلستانی موولیم بیر کے نام لیے جاتے ہیں۔
  • کششِ ثقل کے قانون کا سہرا نیوٹن (Isaac Newton) کے سر باندھا جاتا ہے۔

امام ابن تیمیہ کا نظریہ اور زمین کی کروی شکل

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے سائنس، خاص طور پر ارضیات اور فلکیات پر جو گفتگو کی ہے، وہ ان ماہرین نصاب کے لیے ایک چشم کشا سبق ہے۔
فتاویٰ (جلد 5، صفحہ 150) میں وہ لکھتے ہیں:

"علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زمین کی شکل کروی ہے اور اسے پانی نے گھیر رکھا ہے۔ زمین کا بڑا حصہ سمندروں پر مشتمل ہے، جبکہ خشکی محض چھٹا حصہ ہے۔”

  • زمین کا مرکز ثقل: یہ زمین کے وسط میں واقع ہے، جہاں ہر شے کشش کے باعث ٹھہر جاتی ہے۔
  • فلک کا دائروی ہونا: قرآن مجید کی آیت
    "وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ”
    "اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔”
    (یٰس:40)
    میں "فلک” کا مطلب دائروی حرکت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فلک چرخے کی طرح دائروی ہے۔

وقت اور مقام کی تقسیم

امام ابن تیمیہ نے زمین کے نصف دائروں کو 180 درجے میں تقسیم کرتے ہوئے وقت کے تعین کے اصول بھی بیان کیے:

  • مشرق سے مغرب تک: 15 درجے ایک اوسط گھنٹے کے برابر ہیں۔
  • سورج کی روشنی کا پھیلاؤ: سورج اپنے سامنے اور پیچھے 90 درجے تک روشنی پھیلاتا ہے، جس سے دن اور رات بنتے ہیں۔
  • زمین کی حرکت: قطبین پر زمین کی حرکت چکی کے پاٹ کی مانند اور خط استوا پر پہیے کی طرح ہوتی ہے۔

کششِ ثقل کی وضاحت

شیخ الاسلام نے کششِ ثقل کو سادہ انداز میں سمجھایا ہے:

  • زمین کے وسط میں کھودی گئی سرنگ میں چھوڑا گیا پتھر مرکزِ ثقل پر جا کر ٹھہر جائے گا۔
  • زمین کے دوسری طرف بھی یہی اصول لاگو ہوگا، اور دونوں پتھر مرکزِ ثقل کے اوپر ہوں گے، نہ کہ ایک دوسرے کے نیچے۔

مسلمانوں کا سائنسی شعور

امام ابن تیمیہ کے نظریات واضح کرتے ہیں کہ مسلمان علومِ ارضیات اور فلکیات سے نہ صرف بخوبی آگاہ تھے بلکہ ان کے سائنسی نظریات قرآن و سنت کے عین مطابق تھے۔

  • نماز اور وقت کا تعین: مسلمانوں کی عبادات، جیسے نماز، روزہ، اور حج، سائنسی معلومات، فلکیات، اور اوقات کے گہرے علم پر مبنی ہیں۔
  • قبلہ کا تعین: فلکیاتی علوم کے ذریعے ہی قبلہ اور مساجد کی سمت متعین کی گئی۔

مغرب کی علمی خیانت

یورپ نے ہمیشہ سائنسی ایجادات کو اپنا کارنامہ قرار دے کر مسلمانوں کی میراث کو چھپایا۔ ان کا طرز عمل علمی خیانت اور سرقہ پر مبنی رہا ہے۔

  • مسلمانوں کی تاریخ اور کارناموں کو نصاب سے نکال کر، یورپ کو علوم و فنون کا بانی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
  • یہودی اور عیسائیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں صرف سیاسی اور فوجی نہیں، بلکہ نفسیاتی اور ثقافتی میدان میں بھی جاری ہیں۔

سادگی اور وضاحت

مسلمان علماء نے ہمیشہ علم کو آسان اور قابل فہم بنایا۔ پیچیدہ اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے کششِ ثقل جیسے اصولوں کو آسان مثالوں سے سمجھایا، تاکہ عام شخص بھی ان حقائق کو سمجھ سکے۔

خلاصہ

مغربی نصاب کے ذریعے مسلمانوں کی علمی میراث کو چھپانا اور ان کے سائنسی کارناموں کو پس پشت ڈالنا ایک شعوری سازش ہے۔
امام ابن تیمیہ اور دیگر مسلم علماء نے جو سائنسی نظریات پیش کیے، وہ جدید سائنسی انکشافات سے کہیں پہلے تھے۔ ان کی تحقیقات اور تشریحات نہ صرف سائنسی، بلکہ دینی اہمیت بھی رکھتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1