مسجد میں قبر ہونے کی صورت میں نماز کا حکم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ موضع رنگھاٹ میں تقریباً پچاس برس سے ایک جامع مسجد قائم ہے۔ اب مسجد تنگ ہونے کی وجہ سے کچھ جگہ بڑھائی گئی اور مسجد بھی بن گئی ہے اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کی بڑھائی ہوئی جگہ جو ہے اس کے اندر بہت دنوں قریب تیس (۳۰) برس سے یوسف ملا کی قبر ہے اور عدد کثیر لوگ کہتے ہیں، کہ یوسف ملا مذکور کی قبر مسجد سے باہر ہے حتی کہ یوسف ملا کا بھائی یعنی یمانی ملا بھی کہتا ہے، کہ میرے بھائی کی قبر مسجد سے باہر ہے۔
اب علمائے کرام کی خدمت میں دریافت کرنا یہ ہے کہ اقوال مذکورہ مختلفہ فیہا کی بنا پر جامع مسجد مذکور کو پختہ تعمیر شدہ ازروئے شرع نماز پڑھی درست ہو گی یا نہیں؟ واضح رہے کہ قبر کی کوئی نشانی باقی نہیں ہے۔ بينوا توجروا

الجواب

صورت مسئولہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تعداد منکرین قبر کی ہے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ وہاں قبر تھی، کثرت کے مقابلے میں قلت کا خیال نہ کیا جائے گا، علاوہ ازیں مان بھی لیا جائے کہ کسی زمانے میں وہاں قبر تھی، درازگی زمانہ کے باعث اس کے نشانات باقی نہ رہے اور نہ تعمیر مسجد کے زمانے میں کسی کو خیال رہا، ایسی صورت میں اگر میت کی تعظیم اور تکریم مقصود نہ ہو اور عدم معلومات کی بنا پر مسجد بنائی گئی ہو تو حرج نہیں ہے اور اس میں نماز درست ہے، کیوں کہ بخاری شریف میں ہے: باب بناء المسجد عليٰ القبر (تحت باب حسب ذیل حدیث مذکور ہے)
«أولئك إذا مات فيهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجد اثم صوروا فيه تلك الصور» الحديث
یہاں مراد قصداً اور تعظیماً کی ممانعت ہے۔ کیوں کہ ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کی عبار ت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام بیت اللہ کے ارد گرد ستر (۷۰) یا پچاس (۵۰) انبیاء علیہم السلام کی قبور پائی جاتی ہیں، اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مسجد حرام کے حطیم میں واقع ہے، پھر بھی نماز پڑھی جاتی ہے تحفۃ الاحوذی کے ص ۲۶۵ ج۱ میں حسب ذیل عبارت ہے:
وأمّا من اتخذ مسجدا فى جوار صالح أو صلى فى مقبرة قاصداً به الاستظهار بروحه أو رسول اثر من آثار عبادته إليه التوجه نحوه والتعظيم له فلا حرج فيه إلا يرى أن مرقد إسماعيل عليه السلام فى الحجر فى المسجد الحرام والصارة فيه أفضل
عبارت مذکورہ سے صاف عیاں ہے کہ اگر قبر کی تکریم اور تعظیم مقصود نہ ہو تو نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اگر قبر کی تعظیم اور تکریم یا تحقیر مقصود نہ ہو تو پائخانہ پیشاب کے علاوہ نشت و برخاست بھی قبر پر جائز ہوسکتی ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
قال خارجة بن زيد رأيتني ونحن شبان فى زمان عثمان رضى الله عنه وان أشد ناوثبة الذى يثب قبر عثمان بن مظعون حتي يجاوزه وقال عثمان بن حكيم أخذ. بيدي خارجة فاجلسني على قبر واخبرني عن عمه يزيد بن ثابت قال إنما كره ذلك لمن أحدث عليه وقال نافع كان ابن عمر يجلس على القبور
’’خارج بن زید کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہم لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جوان تھے اور ہم سب عثمان بن مظلوم کی قبر پر کودا کروا کرتے تھے، حتی کہ اوس سے بھی تجاوز کر جاتے تھے اور عثمان بن حکیم نے کہا کہ خارجہ نے میر اہاتھ پکڑ کر مجھے قبر پر بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے خبر دی کہ یہ قبر پر بیٹھنے کو جو ناپسند کرتے تھے، اس شخص کے لیے جو اس پر حدث کرے، اور نافع کا بیان ہے، کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قبر پر بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
اسی طرح موطا امام مالک میں ہے۔
كان على يتوسد القبر ويضطجع عليها
’’یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ قبروں پر ٹیک لگایا کرتے تھے، اور لیٹتے بھی تھے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ بستی مذکور کے نمازی لوگوں کے پشی نظر نہ تعظیم میت اور نہ تحقیر میت ہے، لہٰذا اس مسجد میں نماز جائز ہو گی۔ والله أعلم بالصواب وعلمه أتم
(المجیب ابو نعیم محمد عبد الحکیم المدرس والناظم مدرسہ عربیہ مظہر العلوم پٹنہ)

ھو الموفق:

… صورت مسئولہ میں نفس سوال کا جواب جو فاظل مجیب نے تحریر فرمایا ہے صحیح ہے، یعنی جامع مسجد مذکور فی السوال میں نماز پڑھنی ازروئے شرع جائز او ر اور درست ہے، لیکن قبر سے متعلق دو دیگر باتیں جن کے متعلق فاضل مجیب نے اپنے خیال کا اظہار فرمایا ہے، ان کے جواز کے متعلق مجھے کلام ہے۔
بلاشبہ تمام علماء کا تفاق ہے کہ پیشاب اور پائخانہ کے لیے قبر پر بیٹھنا حرام اور ممنوع ہے اور اگر یہ نہ ہو تو قبر پر بیٹھنا، ٹیک لگانا وغیرہ مختلف فیہ ہے، حنابلہ اور ظاہریہ اس کو بھی ناجائز اور ممنوع کہتے ہیں اور یہی مذہب حق اور راجح ہے، اس لیے کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے جو احادیث مروی ہیں، ان سے بلا قید و شرط قبر پر بیٹھنا وغیرہ ناجائز او رممنوع ثابت ہوتا ہے۔
عن أبى هريرة قال قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: «لان يقعد أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص إلى جلده خير له من أن يجلس على قبر (رواہ مسلم ص ۳۱۲، جد ۱)
’’یعنی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے اور اس پر بیٹھنے اور مکان بنانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
عن أبى هريرة قال قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: لأن يقعد أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص الى جلده خير له من أن يجلس على قبر (رواہ مسلم ص ۳۱۲، جلد ۱)
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا آگ کے انگارہ پر بیٹھنا کہ اس جگہ کا کپڑا جلا کر چمڑہ بھی جلا دے بہتر ہے، قبر پر بیٹھنے سے۔‘‘
عن أبى مرثد الغنوي قال قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: «لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها» (رواہ مسلم ص ۳۱۲، جلد ۱)
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کو سامنے کر کے نماز پڑھو‘‘
اسی طرح مسند احمد میں عمر بن حزم انصاری کی حدیث میں بھی قبر پر بیٹھنے کی ممانعت صراحتہً موجود ہے، اور عمارہ بن حزم کی حدیث:
رأني رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم وانا متك على قبر فقال: «لا تؤلوا صاحب القبر»
سے بھی قبر پر ٹیک لگانا، بیٹھنا، روندنا ممنوع ثابت ہوتا ہے۔
قال الحافظ اسناده صحيح وهود ال عليٰ أن المراد بالجلوس القعودة على حقيقة
’’ یعنی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث ابو ہریرہ کی اسناد صحیح ہیں اور حدیث میں لفظ جلوس سے حقیقی معنی میں بیٹھنا مراد ہے۔‘‘
علی هذا القیاس مسند ابو یعلیٰ میں ابو سعید کی حدیث سے جو رجال ثقات سے مروی ہے بہ فھی ان یبنی علی القبور او یقعد علیھا او یصلی علیھا اور طبرانی کبیر میں واثلہ کی حدیث جس کی سند متکلم فیہ ہے قال نھانا ان نصلی علی القبور او نجلس علیھا سے قبروں پر مکان بنانا، بیٹھنا، نماز پڑھنا وغیرہ ممنوع ثابت ہوتا ہے، اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آثار سے بھی قبروں پر اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، گھر بنانا ناجائز پڑھنا ناجائز اور منہی عنہ ثابت ہے۔
قال النووي فى هذا الحديث تحريم القعود والمراد بالقعود الجلوس عليه هذا مذهب الشافعي رحمة اللّٰه عليه و جمهور العلماء وقال مالك فى المؤطا والمراد بالقعود الحدث وهذا تاويل ضعيف او بالطل والصواب أن المراد بالقعود والجلوس كما فى الرواية الأخري (مسلم ص ۳۱۲، جلد ۱)
’’امام نووی فرماتے ہیں کہ اس جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قبروں پر بیٹھنے کی حرمت موجود ہے۔ یہی مذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور تقریباً سارے علماء کا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موطا میں قعود سے حدث (پائخانہ پیشاب کرنا) مراد لینا ایک باطل اور لغو تاویل ہے، صحیح وہی ہے جو بیٹھنے سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘
ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لفظ الخبر مانع من ذلك قطعاً لقوله عليه السلام لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص إلى جلده خير له من اأن يجلس على قبر وابالضرورة يدري كل ذي حس سليم أن القعود للغائط لا يكون هكذا البتة وما مهدنا ناقط أحداً يقعد على ثيابه للغائط إلا من صحة لا ماغه
’’یعنی یہ بالکل واضح ہے جسے ہر سمجھ دار جانتا ہے کہ احادیث عامہ میں جس ممنوع جلوس (بیٹھنا) کا ذکر ہے وہ جلوس متعارف ہے ، جس پر فتحرق ثیابہ فختلص الی جلد شاہد عدل ہے، بخلاف اس جلوس کے کو بوقت قضاء حاجت ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت کپڑا مقعد سے ہٹایا اور ہٹا لیا جاتا ہے۔‘‘
اور لکھتے ہیں:
ان الرواية هذا الخبر لم يتعدوا به وجهه من الجلوس المعهود وما علمنا فى اللغة جلس فلان بمعني تغوط انتهيٰ (محلی ص ۱۳۶، جلد ۵)
’’رواۃ حدیث میں سے کسی نے بھی جلوس مذکور فی الحدیث سے جلوس متعارف کے علاوہ کوئی دوسرا معنی نہیں بتایا ہے اور نہ ہی کسی لغت میں ہے کہ جب کہا جائے کہ فلاں شخص بیٹھا تو سننے والا سمجھے کہ پائخانہ کیا۔‘‘
حنفیہ کے نزدیک قبر پر بیٹھنا وغیرہ مکروہ تنزیہی ہے، اور مالکیہ کے نزدیک اگر قبر مسلم ہو اور راستہ قبر سے الگ ہو اور یہ بھی گمان ہو کہ شاید میت کا کچھ حصہ قبر میں موجود ہو تو ایسی صورت میں قبر پر بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگر ان مین سے کوئی قید منتضی ہو جائے تو قبر پر بیٹھنا بلا کراہت جائز ہے، اور بعض مالکیہ قبر پر بیٹھنے کو بلا کراہت جائز کہتے ہیں بعض شافعہ بھی مکروہ تنزیہی کے قائل ہیں، لیکن اکثر شافعیہ، حنابلہ اور ظاہریہ کی طرح مکروہ تحریمی کی قائل ہیں۔
مکروہ تنزیہی کہنے والے اولا تو مذکورہ احادیث ہی کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلوس سے مراد صرف پائخانہ پیشاب کے لیے بیٹھنا مراد ہے وبس حالانکہ ان کی یہ تاویل قطعاً اور لغو اور بعید از عقل و عرف بھی ہے، جیسا کہ ابھی ابھی اوپر عرض کیا جا چکا ہے اور ثانیہ مندرجہ ذیل حدیث و آثار سے استدلال کرتے ہیں۔
(۱) عن زيد بن ثابت أن النبى صلى الله عليه وسلم فهي عن الجلوس على القبور لحدث غالط أو بول (رواه الطحاوي برجال ثقات)
’’یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کی غرض سے قبروں پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
(۲) اثر عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ (۳) اثر علی رضی اللہ عنہ (۴) اثر خارجہ بن زید تابعی رضی اللہ عنہ (۵) اثر یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ جنہیں فاضل مجیب نے بخاری اور موطاء سے نقل کیا ہے۔
اس استدلال کا مختصر جواب یہ ہے کہ زیت بن ثابت کی حدیث ہمارے مدعا کے خلاف نہیں ہے، کیوں کہ مطلقاً جلوس علی القبر جبکہ ممنوع اور منہی عنہ ہے تو یہ صورت بدرجہا اولیٰ حرام اور ناجائز ہو گی، اس لیے کہ جلوس کے تمام اقسام سے یہ قسم قبیح ہے۔
رہے آثار جنہیں فاضل مجیب نے تحریر فرمایا ہے تو شاید اس وجہ سے ہیں کہ ان صحابہ رضی اللہ عنہ کو احادیث نہی مذکورہ نہیں پہنچی تھیں اور انہوں نے اپنے فہم سے کام لیا ہے، پس احادیث مرفوعہ صحیحہ کے ہوتے ہوئے ان آثار سے استدلال کرنا اصول حدیث کے قطعاً خلاف اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر کا یہ اثر ان کے اس اثر کے خلاف ہے جو ابن شبیہ میں باسناد مروی ہے۔
قال ابن عمر لا اعلي ارضف أحب إلٰي مِن اَنْ اَطِأ على قبر
اس پر تو سخت تعجب تھا ہی کہ فاضل مجیب اہل حدیث مولانا و بالفضل اولانا ہیں، اس کے باوجود احادیث صحیحہ مرفوعہ کے ہوتے ہوئے آثار صحابہ سے استدلال کرتے ہیں، جو محدثین یا اہل حدیثوں رحمہم اللہ کے نزدیک قطعاً جائز نہیں، لیکن ہمارے تعجب کی انتہا نہ رہی جب کہ ہماری نظر مجیب موصوف کی اس عبارت پر پڑی، آپ فرماتے ہیں کہ ترمذی کی شرع تحفۃ الاحوذی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام بیت اللہ کے ارد گر ستر یا پچاس انبیاء علیہم السلام کی قبور پائی جاتی ہیں، اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مسجد حرام کے حطیم میں واقع ہے پھر بھی نماز پڑھی جاتی ہے، اور آپ نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں تحفہ سے وہ عبارت نقل کی ہے جو لمعات کی ہے جسے صاحب تحفہ بغرض تردید ان کتابوں سے نقل کیا ہے۔ اور زاں بعد شیخ مبارکپوری مرحوم نے الدین الخالص کی عبارت نقل فرما کر اس کی تردید کی ہے، چنانچہ فرماتے ہيں۔
قلت ذكر صاحب الدين الخالص عبارة اللمعات هذه كلها ثم قال ردا عليها ما لفظه ما ابرد هذا التحرير ولاستدلال عليه بذلك التقرير لان كون قبر إسماعيل عليه السلام وغيره من الانبياء سواء كانوا سبعين أو أقل أو أكثر من فعل هذه الأمة المحمدية ولا هود هم دفنوا لهذا الغرض هناك ولا نبه على ذلك رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم ولا علامات بقبور هم منذ عهمد النبى صلى الله عليه وسلم ولا تحري نبينا عليه الصلوٰة والسلام قبرا من تلك القبور على قصد المجاورة بهذه إلا رواح المباركة ولا أمر به أحد أو لا تلبس بذلك أحد من هذه الا متوائمة بل الذى ارشدنا إليه وحثنا عليه أن لا نتخذ قبور الأنبياء مساجد كما اتخذت اليهود والنصاريٰ وقد لعنهم على هذا لا تخاذ فالحديث برهان قاطع لمواد النزاع وحجة نيرة على كون هذه الأفعال حالبة اللحن واللعن امارة الكبيرة المحرمة اشد التحرير انتهيٰ (تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی ۲۶۶، ج۱ ومن ارادہ البسط التفصیل فعلیہ النظر فی الدین الخالص ص۳۰۹ جلد ۲)
ذرا نصاف کیجئے! صاحب تحفہ تو صاف طور پر لکھ رہے ہیں کہ یہ عبارت جس کو میں ذکر کر رہا ہوں ’’لمعات‘‘ کی ہے، ’’حسبی الدین الخالص‘‘ کے مصنف نے نقل فرما کر سخت تردید کی ہے۔
اسی طرح فاضل مجیب آگے چل کر تحریرفرماتے ہیں، کہ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ کے ص۲۶۵ میں حسب ذیل عبارت ہے، وأما من اتخذ مسجداً فی جوار صالح أو صلی فی مقبرة (الی) عبارت مذکور سے صاف ظاہر ہے، کہ توجہ الی المیت اور تعظیم پیش نظر نہ ہو تو نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
بے شک تحفۃ الاحوذی کے صفحہ مذکورہ میں یہ عبارت ہے۔ لیکن صاحب الاحوذی کی نہیں ہے، بلکہ مجمع البحار کی عبارت ہے جسے صاحب تحفۃ الاحوذی مجمع البحار سے نقل کر کے تردید کرنا چاہتے ہیں، صاحب تحفہ موٹے خط میں لفظ ’’تنبیہ‘‘ لکھ کر قال فی مجمع البحار لکھتے ہیں پھر عبارت مذکورہ نقل کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں مجمع البحار کی عبارت سے فاضل مجیب کا استدلال بھی لغو اور غیر صحیح ہے اس لیے کہ مجمع البحار کی عبارت کوئی دلیل شرعی نہیں ہے اور نہ کسی دلیل شرعی سے ماخوذ ہے کیوں کہ کسی صحیح حدیث سے حطیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر کا ہونا یا بیت اللہ شریف کے ارد گرد انبیاء علیہم السلام کی قبروں کا ہونا ہو گز ثابت نہیں ہوتا، البتہ مسند الفردوس دیلمی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جو سخت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے، پس تاوقتیکہ کسی حدیث صحیح سے یہ ثابت نہ ہو جائے، اس سے استدلال کی بنیاد محض ہوا پر ہو گی۔
حقیقت یہ ہے کہ مجمع البحار کی اس عبارت سے شرک کی بور آ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب تحفۃ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نقل کر کے الدین الخالص کی عبارت کے ذریعے تردید کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
فمن اتخذ مسجدا فى جوار صالح رجاء بركته فى العبأرة مجارة و روح ذلك الميّت فقد شمله الحديث شمولا واضحا كشمس النهار ومن توجه إليه واستمد منه فلا شك اند أشرك بااللّٰه وخالف امر رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم فى هذا الحديث وما ورد فى سفأه ولم يشرع الزيادة فى ملة الإسلام الا للعبرة والزهد فى الدنيا والدعاء بالمغفرة الموتي وأما هذه الا غراض التى ذكرها بعض من يغري إلى الفقه والرائ والقياس فاها ليست عليها اثارة من علم ولم يقل بها فيما علمت أحد من السلف بل السلف أكثر الناس انكاراً عن مثل هذه البدع الشركية. انتهيٰ
(تحفۃ الاحوذی صفحۃ ۲۶۶ جلد ۱)
ومن شاء البسم برا التفصيل فليرجع إلى الدين الخالص من (ص۳۰۰ ج۱ الی ۳۱۰ ج۱)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ ۱۹۲ ج۱ میں تحریر فرماتے ہیں:
والحق عندي أن القبر ومحل عبادة ولي من اولياء الله والطور كل ذلك ساء فى النهي والله اعلم
صاحب سبل السلام ارقام فرماتے ہیں،
قال البيضاوي وأمّا من اتخذ مسجداً فى جوار صالح وقصد التبرك بالقرب منه لي لتعظيم له ولا التوجه نحوه فلا يدخل فى ذلك الوعيد قلت لا لتعظيم له يقال اتخاذ المساجد بقرية وتصد التبرك به تعظيم له ثم أحاديث النهي مطلقته ولا دليل على التعليل بما ذكر والظاهر ان العلة سسا لذديعة والبعد عن التشبة بعبدة الاوثان الذين يعظمون الجسادات التى لا تسمع ولا تضرو لها فى انفاق المال فى ذلك من الحديث التبذير الخالي عن النفع بالكلية (انتھیٰ سبل السلام ص۲۳۵ ج۱)
شیخ الاسلام علامہ عبد الرحمن بن حسن النجدی فتح المجید میں اس عقیدہ باطلہ کی تردید ان لفظوں میں کرتے ہیں،
أمّا إذا قصد الرجل وان الصلوة عند القبور متبركا بالصلوٰة فى تلك البقعة فهذا عين المحادة للّٰه ورسوله والمخالفته لدينه وابتداع دين لم يأذن به الله وان الصلٰوة عند القبور منهي عنه وانه صلى الله عليه وسلم لعن اتخاذها مسجدا (انتھیٰ فتح المجید ص۱۸۷ ج۱)
ان عبارات کا ماحصل یہ کہ کسی صالح کی قبر کے پاس بقصد تبرک و استفاضہ مسجد بنانی اس صالح کی تعظیم و تکریم کو مستلزم ہے اور یہ بت پرستی سے بالکل مشابہ ہے، اس لیے کہ مذکورہ بالا احادیث نہی کے عموم میں داخل ہے لہٰذا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی لینی ہے، جو ہر شخص کے لیے قطعاً حرام ہے۔ أعاذنا اللّٰہ منه
پس معلوم ہوا کہ فاضل مجیب نے قبر سے متعلق جن خیالات واہبہ کا اظہار فرمایا ہے وہ احادیث مرفوعہ صحیحہ کے سراسرا خلاف ہے، نیز اہل حدیث اوراہل الرائے کے عقائد میں فرق ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک قبر سے استفاضہ یا حصول برکت و مدد کا خیال اور قبر کے پاس مراقبہ قطعاً درست نہیں ہے، اور اہل الرائے کے یہاں یہ سب کچھ درست ہے۔ ملاحظہ ہو حجۃ البالغہ صفحہ ۱۴۷ تا ۱۴۸ جلد ۱ اور فتح المجید صفحہ ۱۸۸ جلد۱، هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(از احقر محمد مسلم غفرلہ رحمانی ایف، ایم اخبار دہلی) (مدرس مدرسہ انجمن اصلاح المسلمین سمیل تلا ڈاکخانہ بھاؤ مالدہ، جلد ۴ نمبر ۲۳)
مسئلہ:… ایک مسجد کی چیز جب کہ اس مسجد میں ضرورت نہ ہو تو دوسری مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں، اس کو حافظ ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں ثابت کیا ہے، دوسرے جب اس فالتو چیز کا کام میں نہیں لایا جائے گا تو وہ چیز ضائع ہو جائے گی اور حدیث شریف بخاری میں آیا ہے ۔
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال الحديث
’’یعنی منع فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے ضائع کرنے سے ۔‘‘
جہاں تک ہو سکے اپنی ضروریات میں نہ لے، کسی دوسری مسجد میں دے دی جائے، یا اس کا معاوضہ واجبی دے کر کام میں لے لے، اور اس کی قیمت اس مسجد میں اور کسی ضروریات تعمیر وغیرہ میں صرف کر دے، وقف مال کو بلاوجہ اپنے استعمال میں لینا درست نہیں، اس میں بہت سے لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں، اور مسجد کی وقف شدہ چیز کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں وہ ظالم ہیں، هذا ما عندي من الجواب واللّٰه أعلم بالصواب. (الاعتصام جلد نمبر۲، ش نمبر۸)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے