مسجد سے متعلق 10 اہم احادیث و اسلامی ہدایات

مسجد جانے کی فضیلت

فرض نماز کے لیے مسجد جانا:

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص اپنے گھر سے باوضو ہو کر فرض نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کے لیے نکلتا ہے پس اس کو حج کا احرام باندھنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔‘‘
(بخاری ۸۶۴، مسلم، الحج، استحباب دخول الکعبۃ للحاج، ۹۲۳۱)

اہم وضاحت:

یہ بات ذہن میں رہے کہ جن لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہو چکا ہو، وہ جب تک وہاں جا کر حج ادا نہ کریں، ان سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی۔ اگرچہ وہ عمر بھر باوضو ہو کر پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتے رہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اجر و ثواب کی کثرت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔

جماعت کے ساتھ نماز کی فضیلت:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب اپنے گھر یا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے (کم از کم) پچیس درجے زیادہ ہے۔ پس جب وہ اچھی طرح وضو کر کے مسجد جائے تو اس کے ہر قدم سے اس کا درجہ بلند ہوتا ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں: ’’اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ‘‘ ’’اے اللہ! اس پر اپنی رحمت اتار۔ اے اللہ اس کی توبہ قبول کر۔‘‘ جب تک وہ کسی کو ایذا نہیں دیتا یا وہ حدث نہیں کرتا فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک نمازی نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری، البیوع، باب ما ذکر فی الاسواق، ۹۱۱۲)

دور سے مسجد آنے کا اجر

دور سے آنے والوں کا بڑا اجر:

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بے شک نماز میں لوگوں میں سب سے زیادہ اجر کا مستحق وہ شخص ہے جو ان میں سب سے زیادہ دور سے اس کی طرف چل کر آتا ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان، فضل صلاۃ الفجر، ۱۵۶، مسلم: ۲۶۶)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص جس قدر دور سے مسجد آئے گا اسی قدر اس کا اجر بھی زیادہ ہو گا۔‘‘
(ابو داؤد، فضل المشی الی الصلاۃ ۶۵۵)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’مسجد نبوی کے گرد کچھ مکان خالی ہوئے، بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بنو سلمہ! اپنے (موجودہ) گھروں میں ٹھہرے رہو (مسجد کی طرف آتے وقت) تمہارے ہر قدم (کا ثواب) لکھا جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب فضل کثرت الخطا الی المساجد، ۵۶۶)

مسجد کے نمازی اور اللہ کا سایہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’سات شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن (حشر میں) اپنے سائے میں رکھے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی سایہ نہیں ہو گا:
◈ عادل حاکم
◈ وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں جوانی گزارے
◈ وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو، جو نماز کے بعد دوبارہ آنے کے لیے بے تاب رہے
◈ وہ دو شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہوں، اللہ ہی کے لیے ملتے اور جدا ہوتے ہوں
◈ وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں
◈ وہ شخص جسے کسی خوبصورت عورت نے برائی کی دعوت دی اور اس نے کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں
◈ وہ شخص جو اللہ کے نام پر کچھ دے اور اسے اس حد تک چھپائے کہ بایاں ہاتھ نہ جانے کہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کر رہا ہے۔‘‘

(بخاری، الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ وفضل المساجد، ۰۶۶، مسلم، الزکاۃ، باب فضل اخفاء الصدقۃ، ۱۳۰۱)

مساجد میں خوشبو لگانا اور صفائی کا اہتمام

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’محلوں میں مسجدیں بناؤ (یعنی جہاں نیا محلہ آباد ہو وہاں مسجد بھی بناؤ)، اور انہیں پاک صاف رکھو اور خوشبو لگاؤ۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب اتخاذ المساجد فی الدور، ۵۵۴، ابن ماجہ، المساجد، باب تطہیر المساجد و تطییبھا، ۸۵۷، ۹۵۷، امام ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا)

مسجد کے نمازیوں کے لیے بشارت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اندھیروں میں (نماز کے لیے) مسجد کی طرف چل کر آنے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی خوشخبری سنا دو۔‘‘
(ابن ماجہ، المساجد، باب المشی الی الصلاۃ، ۰۸۷، امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

’’فرشتے مسجد کے مستقل نمازیوں کے ہم نشین ہوتے ہیں، اگر وہ غیر حاضر ہوں تو انہیں تلاش کرتے ہیں۔ اگر بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر مشکل میں ہوں تو ان کی مدد کرتے ہیں۔ مسجد کا مستقل نمازی تین صفات کا حامل ہوتا ہے:
◈ فائدہ حاصل کرنے والا
◈ حکمت کی بات سیکھنے والا
◈ اللہ کی رحمت کا امیدوار‘‘

(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۰۴۳)

تحیۃ المسجد (مسجد میں داخل ہوتے وقت دو رکعت)

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (تحیۃ المسجد کے طور پر) پڑھو۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: اذا دخل المسجد فلیرکع رکعتین، ۴۴۴، مسلم: ۴۱۷)

ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میں مسجد میں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں دو رکعت پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ میں نے عرض کیا: میں نے آپ کو اور لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو میں بھی بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے نہ بیٹھے۔‘‘
(مسلم: صلاۃ المسافرین، باب استحباب تحیۃ المسجد برکعتین، ۰۷، ۴۱۷)

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’تحیۃ المسجد سنت مؤکدہ ہے جسے تمام اوقات میں، حتیٰ کہ ان اوقات میں بھی جب نفل نماز ممنوع ہے (یعنی نماز فجر سے سورج نکلنے تک اور نماز عصر سے سورج ڈوبنے تک)، علماء کے صحیح قول کے مطابق پڑھا جا سکتا ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول ۳۳۴)

قبرستان اور حمام میں نماز کی ممانعت

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام روئے زمین مسجد ہے (یعنی ہر جگہ نماز جائز ہے) سوائے قبرستان اور حمام کے۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب فی المواضع التی لا تجوز فیھا الصلاۃ، ۲۹۴، ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء ان الارض کلھا مسجد الا المقبرۃ والحمام، ۷۱۳، امام حاکم، ابن خزیمہ، ابن حبان، ذہبی اور ابن حزم نے اسے صحیح کہا)

وضاحت:

مسجد کے معنی ہیں: سجدے کی جگہ، یعنی نماز کی جگہ۔ جب قبروں پر نماز اور سجدہ منع ہوا تو وہاں مسجد بنانا بھی جائز نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے۔ تم قبروں کو مسجدیں نہ بناؤ، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘
(مسلم، المساجد، النہی عن بناء المساجد علی القبور، ۲۳۵)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1