تمہید
مستشرقین کے حوالے سے مختلف سوالات اور اعتراضات اکثر سامنے آتے ہیں، جن میں ان کے مقاصد، کام، اور اسلام سے تعلق پر بحث کی جاتی ہے۔
اس مضمون میں ان اعتراضات کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے تاکہ قارئین کے ذہنوں میں موجود شبہات دور کیے جا سکیں۔
اعتراض 1: مستشرقین کا ذکر ملاّئی سازش کیوں سمجھا جاتا ہے؟
بعض لوگ مستشرقین کے ذکر کو اسلامی دشمنی اور ملاّئی ذہنیت کی پیداوار قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی اتنا فارغ نہیں کہ اسلام کے خلاف سازشوں میں اپنی زندگی لگا دے۔
جواب:
یہ اعتراض لاعلمی کی بنیاد پر ہے۔ مستشرقین کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی کا انکار کرنا۔ یہ لوگ خود
"Orientalists”
کہلانے پر فخر کرتے ہیں، اور ان کے کام، کتابیں، اور تحقیقاتی ادارے اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔ اگر کسی کو اس حوالے سے شک ہے تو وہ ایڈورڈ سعید کی کتاب
"Orientalism”
یا نورمن ڈینیئل کی
"Islam and the West: The Making of an Image”
کو دیکھ سکتا ہے۔
مزید یہ کہ یہ کہنا کہ "کوئی اتنا ویلا نہیں کہ اسلام کے خلاف سازش کرے” دراصل اسلام اور علماء سے حسد اور جہالت کی عکاسی کرتا ہے۔
مستشرقین کے اسلام پر لکھے گئے کام اور ان کی کتابیں آج بھی موجود ہیں اور ان کا انکار ممکن نہیں۔
اعتراض 2: کیا مستشرقین اسلام دشمنی کے جذبات رکھتے تھے؟
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ مستشرقین کو اسلام سے نفرت کیوں تھی؟ کیا ان کے ساتھ کوئی ظلم ہوا تھا؟ یا یہ سب ایک فرضی کردار ہیں؟
جواب:
مستشرقین کا اسلام پر تحقیق کرنا بے مقصد نہیں تھا۔ ان کا کام دراصل استعمار (Colonialism) کے مفادات، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے،
اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔ ان میں زیادہ تر عیسائیت کے مبلغین تھے، اور ان کے مقاصد میں شامل تھا:
- اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا۔
- مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا۔
- استعمار کے لیے راہ ہموار کرنا۔
مثال کے طور پر، یہ چند مستشرقین کے نام ہیں جو عیسائی مبلغین اور کلیسا کے عہدے دار تھے:
- پادری الیانو (1589ء)
- پادری ریلو (1848ء)
- پادری مارٹن (1880ء)
- پادری لامنس (1938ء)
- پادری ڈیورنڈ (1928ء)
یہ سب افراد کلیسا کی تنخواہ پر کام کرتے تھے اور ان کے تحقیقی کام کے پیچھے مذہبی اور سیاسی مقاصد تھے، نہ کہ محض علم کی جستجو۔
مستشرقین کا کام: مثبت پہلو اور اعتراضات
مثبت پہلو:
- بعض مستشرقین نے اسلامی کتب کی فہرست سازی، نایاب کتابوں کی اشاعت، اور اشاریہ نویسی میں اہم کام کیا۔
- ان کی محنت سے کئی قدیم کتب عام مسلمانوں کے لیے قابلِ حصول ہوئیں۔
اعتراضات:
تاہم، ان کے ترجمے اور تشریحاتی کام اکثر دانستہ یا نادانستہ طور پر غلطیوں سے بھرپور ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر:
مشہور مستشرق "فلوگل” نے قرآن مجید کے الفاظ کی فہرست مرتب کی لیکن 39 الفاظ کے عربی مادے غلط لکھے، جن سے معانی بدل گئے۔ چند مثالیں:
- "اثرن”
کا مادہ غلط طور پر
"ا-ث-ر”
لکھا گیا، حالانکہ یہ
"ث-و-ر”
ہے۔ - "استبقوا”
کا مادہ
"ب-ق-ی”
قرار دیا، حالانکہ یہ
"س-ب-ق”
ہے۔
قرآن مجید اور دیگر اعتراضات
قرآن پر اعتراض:
مستشرق گولڈ زیہر نے دعویٰ کیا کہ قرآن مجید کے الفاظ قابلِ اعتماد نہیں کیونکہ ابتدا میں اس پر نقطے موجود نہیں تھے۔
جواب:
یہ اعتراض نہایت بے بنیاد ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے براہِ راست حاصل کی۔ یہ محض کتابی الفاظ تک محدود نہیں بلکہ حفظ اور روایت کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔ قرآن کی قراءت، تلفظ، اور تجوید آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جیسے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھی۔
عجیب و غریب اعتراضات کی مثال
مستشرقین کی طرف سے کئی غیر معقول اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ مثلاً:
- لوئی ونڈر مین نے کہا کہ حضرت خدیجہؓ کے گھر حضرت زبیرؓ آتے تھے اور کبھی وہیں سو بھی جاتے تھے، حالانکہ اسلام میں غیر مرد سے اس طرح کا تعلق جائز نہیں۔
جب انہیں بتایا گیا کہ حضرت زبیرؓ، حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے، تو انہوں نے معصومیت سے کہا: "اچھا، یہی بات ہوگی۔”
مستشرقین کے مقاصد
مستشرقین کی تحقیقات اسلامی کا اصل مقصد:
- اسلامی عقائد، قرآن مجید، سیرت النبی ﷺ، اور اسلامی تاریخ میں شکوک پیدا کرنا۔
- مسلمانوں میں فرقہ واریت اور اختلافات کو ہوا دینا۔
- استعمار کے سیاسی اور مذہبی ایجنڈے کی تکمیل۔
نتیجہ
مستشرقین کی محنت اور تحقیقی کام بعض پہلوؤں میں قابلِ تعریف ضرور ہے، لیکن ان کے مقاصد زیادہ تر اسلام کے خلاف رہے۔ ان کے اعتراضات اور دلائل اکثر ناقص معلومات یا جانبداری پر مبنی ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اعتراضات کو سمجھیں، ان کا رد کریں، اور اسلام کے حقیقی علم کو فروغ دیں۔