مستشرقین کا نظریہ
مستشرقین نے ہمیشہ حضور اکرم ﷺ کے علم کے ذرائع پر سوالات اٹھائے ہیں۔ چونکہ وہ آپ ﷺ کو نبی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے وحی کو بھی نہیں مانتے۔ انہوں نے آپ ﷺ کے علم کے لیے عیسائی راہبوں، یہودی علماء، یا آپ کے ساتھیوں کو ذریعہ قرار دیا ہے۔
اہم اعتراضات
- مستشرقین نے کہا کہ شام کے تجارتی سفر کے دوران عیسائی راہب بحیرا نے آپ ﷺ کو تعلیم دی۔
- بعض نے ورقہ بن نوفل کو آپ ﷺ کا معلم قرار دیا۔
- دیگر نے کہا کہ آپ کے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ، اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا جیسے افراد سے آپ نے عیسائیت اور یہودیت کا علم حاصل کیا۔
مثالیں
ڈریپر، فلیپ ایرلنگی اور دیگر مستشرقین کے مطابق آپ ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے علم حاصل کیا اور یہی علم نبوت کی بنیاد تھا۔ مثلاً، ڈریپر نے کہا:
"بحیرا راہب نے بصری کی خانقاہ میں آپ کو نسطوری عقائد سکھائے۔”
(شبلی نعمانی، سیرة النبی، ج: 1، ص: 126)
مکہ میں علم حاصل کرنے کے امکانات
قریش مکہ اپنی زبانی مہارت پر فخر کرتے تھے، مگر لکھنے پڑھنے سے بے نیاز تھے۔ اس وقت کے معاشرتی حالات میں تعلیم کے ذرائع موجود نہ تھے، خاص طور پر ایک یتیم بچے کے لیے۔ حضرت ابوطالب کی محدود مالی حیثیت کے باعث آپ ﷺ کو رسمی تعلیم دینا ممکن نہ تھا۔
قرآن اور روایات بھی یہ ثابت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ "امی” تھے:
’’وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ‘‘
"اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لکھتے تھے، (اگر ایسا ہوتا) تو اس وقت باطل والے ضرور شک کرتے۔”
(العنکبوت: 48)
شام کے تجارتی سفر اور راہب بحیرا
واقعے کا پس منظر
آپ ﷺ نے پہلا تجارتی سفر 12 سال کی عمر میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ کیا۔ بحیرا راہب نے آپ ﷺ میں غیرمعمولی صفات دیکھ کر کہا کہ یہ بچہ عظیم مقام پر فائز ہوگا۔ تاہم، اس ملاقات کو نبوت سے جوڑنا درست نہیں۔
اہم نکات
- بحیرا نے آپ ﷺ کو تعلیم دینے کی بات نہیں کی بلکہ ابوطالب کو ان کی حفاظت کا مشورہ دیا۔
- مستشرقین کا یہ دعویٰ کہ چند منٹ کی ملاقات میں ایک کمسن بچے نے اتنا علم حاصل کر لیا، عقل اور منطق کے خلاف ہے۔
(محمد بن اسحاق، سیرت ابن اسحاق، ص: 86)
دوسری ملاقات: نسطورا راہب
آپ ﷺ کی 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کے ساتھ شام کے سفر کے دوران بصری میں نسطورا راہب سے ملاقات ہوئی۔
اس نے آپ ﷺ کی صفات کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آپ نبی آخرالزماں ہو سکتے ہیں، لیکن اس ملاقات کا بھی کوئی تعلیمی پہلو ثابت نہیں ہوتا۔
کفار مکہ کے اعتراضات
مکہ کے کفار نے بھی آپ ﷺ کی تعلیم کو لے کر سوال اٹھائے، مگر کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آپ نے عیسائی یا یہودی علماء سے علم حاصل کیا۔ ان کے اعتراضات یہ تھے:
- آپ ﷺ غیر عرب غلاموں سے علم لیتے ہیں۔
- سابقہ انبیاء کے قصے کہاں سے سیکھے؟
وحی کے ذریعے علم
آپ ﷺ کی "امیت” اور تعلیم کا واحد ذریعہ وحی تھی، جسے فرشتہ جبرئیل لے کر آتا تھا۔ نبوت کے آغاز پر جب جبرئیل نے کہا
"اقرأ”، تو آپ ﷺ نے جواب دیا:
"میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔”
(صحیح البخاری، کتاب الوحی)
یہی بات ثابت کرتی ہے کہ آپ ﷺ نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ پڑھنا، اور آپ ﷺ کا تمام علم وحی الٰہی کا نتیجہ تھا۔
مستشرقین کے اعتراضات کی تردید
علمی استناد
مستشرقین کا دعویٰ کہ آپ نے بحیرا یا نسطورا سے تعلیم حاصل کی، تاریخی شواہد اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔
ترمذی اور دیگر کتب احادیث میں بحیرا کے متعلق جو روایات ہیں، وہ ضعیف اور غیرمستند ہیں۔
منطقی دلائل
- اگر حضور ﷺ نے بحیرا سے علم حاصل کیا تو یہ علم عیسائی کیوں نہیں مانتے؟
- اگر یہ بات درست ہوتی تو کفار مکہ اس بات کو حضور ﷺ کے خلاف ضرور استعمال کرتے۔
خلاصہ
آپ ﷺ کا علم وحی کے ذریعے تھا، اور مستشرقین کے اعتراضات محض تعصب اور مفروضات پر مبنی ہیں۔
اللہ نے آپ ﷺ کی "امیت” کے ذریعے ثابت کیا کہ آپ ﷺ کا علم انسانوں کی تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ الٰہی وحی کا معجزہ ہے۔