اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور مستشرقین کے اعترافات
فرانسیسی مستشرق موسیوسیڈلیٹ کا اعتراف
فرانسیسی مستشرق موسیوسیڈلیٹ نے اپنی کتاب
"خلاصہٴ تاریخ عرب”
میں اسلامی تعلیمات کی تعریف کرتے ہوئے لکھا:
"جو لوگ اسلام کو وحشیانہ مذہب کہتے ہیں، وہ اپنی فطرت میں تعصب رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں کہ قرآن نے عربوں کی تمام بری عادتوں جیسے انتقام، خاندانی عداوت، کینہ پروری، جورو ظلم، اور دختر کشی کو ختم کر دیا۔ یہ سب خرابیاں اُس وقت یورپ میں بھی موجود تھیں اور اب بھی ہیں۔”
(خلاصہٴ تاریخ عرب، اردو ترجمہ عبدالغفار، نفیس اکیڈمی کراچی، 1986، ص: 34)
کرن آرمسٹرانگ کی گواہی
برطانوی مصنفہ کرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب
"Muhammad: A Western Attempt to Understanding Islam”
میں اسلام کے متعلق مغربی افسانوں کی تردید کرتے ہوئے لکھا:
"محمد ﷺ نے ایک ایسے مذہب اور تہذیب کی بنیاد رکھی، جو تلوار پر مبنی نہ تھی، باوجود اس کے کہ مغرب میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ اسلام کا نام ہی امن اور صلح کی علامت ہے۔”
(Karren Armstrong: Muhammad a Western Attempt to Understanding Islam, London, 1992, p. 266)
ارتھر گلیمن کی تحسین
یورپ کے مشہور دانشور ارتھر گلیمن نے فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کی عام معافی اور رواداری کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا:
"فتح مکہ کے موقع پر، جب اہل مکہ کے ظالمانہ ماضی کو دیکھتے ہوئے انتقام لینا قدرتی ہوتا، نبی اکرم ﷺ نے اپنے سپاہیوں کو ہر قسم کے خون خرابے سے روک دیا اور صرف اللہ کی بندگی و اطاعت کا مظاہرہ کیا۔
یہ عمل دیگر فاتحین کے برعکس انتہائی شرافت اور انسانیت کی نشانی ہے۔ مثلاً صلیبی جنگوں کے دوران 1099ء میں فتح یروشلم کے وقت عیسائیوں نے 70 ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ یا 1874ء میں انگریزوں نے افریقہ کے ایک شہر کو جلا دیا۔
نبی اکرم ﷺ کی فتح اصل میں دنیا کی اخلاقی فتح تھی، جس میں انہوں نے قریش کے متکبر سرداروں کو معاف کر دیا اور اعلان کیا: ‘جاؤ، تم سب آزاد ہو۔'”
(Arthur Gillman: The Saracens, London, p. 184-185)
تھامس کارلائل کا ردِ مغرب
تھامس کارلائل، جو مغربی فلسفیوں میں نبی اکرم ﷺ کے متعلق تعصب کے خلاف کھڑے ہوئے، نے اپنی کتاب
"Heroes and Hero Worship”
میں مغربی الزامات کی سختی سے تردید کی۔ وہ لکھتے ہیں:
"یہ قیاس کہ محمد ﷺ دھوکہ باز تھے اور ان کا مذہب فریب کا مجموعہ ہے، سراسر غلط ہے۔ یہ الزام خود مغرب کے لیے باعث شرم ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی زبان سے نکلے الفاظ 1200 سال سے کروڑوں انسانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ یہ سب دھوکہ تھا؟ نہیں، میں تو ایسے قیاس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہو، تو یہ دنیا ہی بے معنی ہو جائے گی۔”
(Heroes and Hero Worship، اردو ترجمہ: محمد اعظم خاں، ص: 23-25، مطبوعہ کاروانِ ادب کراچی، 1951)
تھامس کارلائل نے 1840ء کے اپنے خطبے میں مزید کہا:
"جو لوگ محمد ﷺ کے کردار پر اعتراض کرتے ہیں، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے اعتراضات جھوٹے قصے کہانیوں پر مبنی ہیں، جو کئی صدیوں بعد حسد کی بنیاد پر گھڑی گئیں۔
محمد ﷺ اتنے عظیم انسان تھے کہ اگر انہوں نے غلطی بھی کی ہوتی، تو وہ بھی دنیا کے لیے خوبی کا معیار بن جاتی۔ ان کی عظمت کو پوری طرح سمجھنا شاید کسی کے بس میں نہیں، کیونکہ وہ صحرا کے بیٹے تھے، جنہوں نے دنیا کو گلزار بنانے کا سبق دیا۔”
(ششماہی مجلہ السیرۃ، شمارہ 17، مارچ 2007، ص: 366)
خلاصہ
یہ مستشرقین کے اعترافات ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات محض کسی قوم یا مذہب کے لیے نہیں تھیں، بلکہ یہ انسانیت کی بھلائی اور عالمی امن کے لیے تھیں۔ ان کے اقوال اسلامی اخلاقیات کی سچائی اور نبی اکرم ﷺ کی بے مثال قیادت کو عیاں کرتے ہیں۔