مساجد کے نام رکھنا
احکام و آدابِ مساجد کے ضمن میں ہی ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ سلف صالحین میں سے بعض حضرات اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ مساجد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے۔ مثلاً یہ کہا جائے جامع مسجد غوثیہ، جامع مسجد قادریہ، جامع مسجد چشتیہ، جامع مسجد سہروردیہ، جامع مسجد حنفیہ، ایسے ہی مختلف ناموں کی طرف منسوب کرتے ہوئے جامع مسجد فلاں اور جامع مسجد فلاں۔ اور مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے مطابق یہ مسلک ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہل علم سے منقول ہے۔
فتح الباری 515/1 – اعلام الساجد ص 384
کہ وہ مساجد کی کسی غیر اللہ کی طرف نسبت کو مکروہ و ناپسندیدہ سمجھتے تھے۔ اور ان کا استدلال قرآن کریم سورہ الجن آیت 18 میں وارد اس ارشاد الٰہی سے ہے:
﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ) یہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں۔ اور ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔
اس آیت میں مساجد کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔ ایسے ہی سورہ البقرہ آیت 114، اور سورہ التوبہ آیت 17، 18 میں بھی تینوں جگہوں پر مساجد اللہ کا لفظ آیا ہے۔ اور مساجد کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔
لہٰذا ان کے نزدیک کسی غیر اللہ کی طرف کسی مسجد کی نسبت مکروہ و ممنوع ہے۔ لہٰذا مساجد کو جو کہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں. مختلف مسالک و مشارب یا شخصیات و قبائل کے ناموں کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ امام نخعی رحمہ اللہ اور ان کے بعض موافقین کا مسلک ہے۔
مشہور مسلک:
اور اس سلسلے میں جمہور اہل علم کا مشہور مسلک یہ ہے کہ کسی کی طرف منسوب کرنا جائز ہے۔ اور اس آیت سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ یہ نسبت یا اضافت برائے ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ یہ تو امتیاز و فرق اور تعارف و پہچان کے طور پر ہوتی ہے تا کہ ذکر و تذکرے کے وقت ایسی اضافت و نسبت کی وجہ سے مسجد مقصود کو پہچاننے میں آسانی رہے۔ اور ایسی اضافت جو ملکیت کے لیے نہیں، بلکہ محض فرق و تمیز کے لیے ہو یہ ممنوع نہیں ہوتی۔ کیونکہ آیت میں اضافت ملکیت ہے، جیسا کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اعلام الساجد ص 384،385 میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری 515/1 میں لکھا ہے۔ اور اس بات کی دلیل کتب حدیث سے بھی ملتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، نسائی و داری اور موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التى اضمرت من الحيفاء وامدها نبية الوداع وسابق بين الخيل التى لم تضمر من النبية اليٰ مسجد بني زريق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تضمیر و تربیت یافتہ گھوڑوں کی دوڑ کروائی جن کے لیے حیفاء نامی جگہ سے لے کر ثنیہ الوداع نامی مقام تک کی مسافت طے پائی۔ اور غیر تضمیر و تربیت یافتہ گھوڑوں کی دوڑ کروائی، جن کے لیے طے شدہ مسافت ثنیہ الوداع نامی جگہ سے لے کر مسجد بنی زریق تک تھی۔
بخاری مع الفتح 515/1 – مختصر مسلم للمنذری 1108 – صحیح ابی داؤد 2245 – صحیح ترمذی ح 1389 – صحیح نسائی 335/1 – ابن ماجہ 2877 – موطا امام مالک 468/2، باب فی الخیل والمسابقة بینھا
اس سلسلے میں گھوڑ دوڑ کا ذکر ہے تو خالص جہاد اسلامی کے لیے تیار کیے گئے گھوڑوں کو جانچنے پر کہنے اور مزید تربیت دینے کی گنجائش وغیرہ معلوم کرنے کے لیے تھی۔
اور تضمیر سے مراد گھوڑوں کو بھوک و پیاس کا عادی بنا کر اور کم چارہ بھوسہ دے کر ہلکے بدن اور چھوٹے پیٹ والا بنایا جاتا ہے تا کہ تیز سے تیز تر دوڑ سکے۔ یہ انداز تربیت جائز ہے۔ اور اگر کسی جانور کو بلا وجہ بھوکا پیاسا رکھا جائے اور اس سے کام برابر لیا جائے تو وہ منع ہے۔
اور ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں کی دوڑ کرانے سے کسی کے ذہن میں ریس کورس کا نقشہ ہرگز نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس دور کی یہ ریس ان پاک و مقدس مقاصد جہاد سے قطعاً عاری ہوتی ہیں۔ سٹہ و قمار یا جوا وغیرہ جیسی بیماریاں اس پر مستزاد ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اس حدیث میں محل شاہد یا مقام استشہاد صرف یہی الفاظ ہیں جن میں ایک نام مسجد بنی زریق آیا ہے۔ تو گویا کہ عہد نبوت میں بھی پہچان کے لیے بعض مساجد کی اضافت بعض قبائل وغیرہ کی طرف ہو چکی تھی۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث پر یوں تبویب کی ہے:
باب هل يقال مسجد بني فلان؟
اس بات کا بیان کہ کیا کسی مسجد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ قبیلہ فلاں کی مسجد؟
اور اس بات کو استفہام و استفسار یا سوال کے انداز میں ذکر فرمایا ہے، حکم نہیں لگایا۔ جس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ الفاظ حدیث میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ اس مسجد کا نام مسجد بنی زریق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی رکھا گیا ہو۔ اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں بھی آگئی ہو۔ اور عین امکان اس بات کا بھی ہے کہ اس مسجد کا یہ نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رکھا گیا ہو۔ اور راوی حدیث نے اس کا موجودہ نام ذکر کر دیا ہو۔
اس احتمال کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استفہامیہ انداز میں تبویب کی ہے۔ اور اپنا رجحان بھی واضح کر دیا ہے۔ جب کہ صاحب فتح الباری نے لکھا ہے کہ ان دونوں طرح کے احتمالات میں سے زیادہ ظاہر پہلا ہی ہے کہ اس مسجد کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی رکھا گیا ہو۔ اور جمہور علما امت ایسی اضافت و نسبت کو جائز قرار دیتے ہیں۔
فتح الباری 515/1، 516 – اعلام الساجد ص 384، 385 – فتاوی ثنائیہ 266/1 – فتاوی علما ءاہل حدیث 69/2
البتہ بہتر ہے کہ مسجد کو اگر کسی کی طرف منسوب کرنا ہو تو یہ اضافت محض امتیاز کے لیے ہو اس میں تعصب اور انتشار وافتراق کا داعیہ کارفرما نہ ہو، اور نہ ہی اس اضافت کو اپنے یا اپنے باپ دادا کے لیے بڑائی اور فخر وریاء کا ذریعہ بنایا جائے۔ بلکہ جب مسجد خالص رضائے الٰہی کے لیے تعمیر کریں یا کروائیں تو اس کی اضافت میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اور کسی ایسی شخصیت کی طرف اضافت و نسبت کریں جس میں ایسی کوئی بات نہ ہو۔
مثلاً مسجد ابوبکر صدیق، مسجد عمر فاروق، مسجد عثمان غنی، مسجد علی بن ابی طالب، مسجد سلمان الفارسی، مسجد صہیب الرومی رضی اللہ عنہم یا کسی بھی دوسرے صحابی کی طرف منسوب کریں جو رضی اللہ عنہم ورضو عنہ کا مقام پاگئے ہیں۔ یا پھر انہی کی تربیت یافتہ تابعین، اور ان کی روایات کے امین آئمہ حدیث اور آئمہ مجتہدین کی طرف منسوب کریں جو نور علم و ہدایت کے مینار تھے۔ اس طرح ان کی دینی خدمات کا اعتراف اور ان کی رفعتوں کو خراج تحسین پیش ہو جائے گا۔ اور مسجد کا نام بھی ہو جائے گا۔ البتہ کسی خاندان وقبیلہ اور عام شخص کی طرف یہ اضافت و انتساب بھی جائز ہے۔ لیکن اولیٰ اول ہی ہے۔