مسئلہ ظفر (کوئی چیز پا لینا)
ایک چوکیدار جو ایک بلڈنگ کے مالک کے ہاں کام کرتا ہے، کہتا ہے: بلڈنگ کا مالک مجھے میری تنخواہ نہیں دیتا، اس نے اس عمارت کے مالک کے تین سو ریال کہیں پائے اور رکھ لیے، کیا اس کے لیے وہ ریال لینا جائز ہے کہ نہیں؟
اس مسئلے کو اہل علم ”مسئلہ ظفر“ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، یہ راجح قول کے مطابق جائز نہیں، کسی انسان کا کسی پر کوئی حق تھا، اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا، کیا اس کے لیے، اگر وہ طاقت رکھتا ہو تو اس کے مال سے اپنے حق کے مطابق لے لینا جائز ہے کہ نہیں؟
ہم کہتے ہیں: صحیح یہ ہے کہ یہ جائز نہیں لیکن اگر حق کا سبب ظاہر تو پھر جائز ہے، مثلاً اگر وہ حق، جو اس کے ذمے واجب الادا ہے، خرچہ ہے، اگر خاوند بیوی کا واجب خرچہ ادا نہیں کرتا تو وہ اپنے خاوند کے مال سے لے لے، اسی طرح اگر کوئی کسی کا رشتے دار ہو اور اس کا خرچہ اس کے ذمے ہو لیکن وہ اس میں کوتاہی کرے تو وہ اس کے مال سے اپنا خرچہ لے سکتا ہے، ایسے ہی مہمان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر میزبان اس کی مہمان نوازی نہ کرے تو وہ اس کے مال سے لے سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ فتنے، عداوت، دشمنی اور جھگڑے کا سبب نہ بنے، لیکن سائل کا جو سوال ہے اس میں وہ اپنا خاص حق مانگتا ہے جس کا سبب ظاہر نہیں، لہٰذا اس کے لیے وہ درہم لینا جائز نہیں جو وہ اس کے مال سے لینے پر قادر ہوا ہے، بلکہ اس پر یہی واجب ہے کہ وہ اس مال سے ہاتھ کھینچ لے جو اسے ملا ہے۔ پھر اپنے مالک سے جھگڑا اور مطالبہ کرے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 7/234]