مروجہ تکافل کے قائلین اور عدم قائلین کے دلائل
تحریر: حافظ ریاض احمد اثری

مروجہ تکافل کے قائلین اور عدم قائلین کے دلائل کا تحقیقی و تقابلی جائزہ

عصر حاضر کے معاشی مسائل میں بعض ایسے معاملات ہیں جو سراسر نا جائز وحرام ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ انشورنس (بیمہ) کا ہے۔ انشورنس کا مطلب : انسان کو مستقبل میں جو خطرات در پیش ہوتے ہیں۔ کوئی فرد یا ادارہ ضمانت لیتا ہے کہ فلاں قسم کے خطرات (Risks) کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے مالی اثرات کی میں تلافی کردوں گا ۔
(تکافل کی شرعی حیثیت، از ڈاکٹر عصمت اللہ ص: 64)

اس مروّجہ انشورنس میں سود، جوا اور دھوکا ایسے ناجائز و حرام عناصر موجود ہیں جن کی وجہ سے علمائے کرام نے انشورنس کو حرام قرار دیا ہے۔ اس بارے جدہ فقہ اکیڈمی کی قرار داد موجود ہے۔ انشورنس کا نظام سوسائٹی و مجتمع میں بڑے منظم ذریعہ سے رچ بس چکا ہے۔ اسے ناجائز قرار دینے کے باوجود معاشرے نے اسے سینہ سے لگا رکھا ہے۔ اسلامی معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے علمائے امت نے بڑی تگ و دو کی ۔ 1970ء کی دہائی میں اس مسئلہ کے حل کے لیے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ ان اجتماعات میں انشورنس کے متبادل نظام قائم کرنے پر غور وفکر ہوئی۔ لہذا 1979 ء میں سوڈان اور بحرین میں انشورنس کے متبادل کے طور پر پہلی تکافل کمپنی وجود میں آئی۔ دھیرے دھیرے دیگر اسلامی ممالک میں یہ نظام متعارف ہوا۔ دسمبر 2002ء میں جامعہ دارالعلوم کراچی میں احناف مکتبہ فکر کے علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کا ایک اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں انشورنس کے متبادل تکافل نظام کو جائز قرار دیا گیا۔
(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ، از ڈاکٹر اعجاز احمد ، ص: 144)

بعد ازاں اس مسئلہ کے جواز پر علمائے کرام نے کتب و رسائل تحریر کیے ۔ مثلاً مفتی تقی عثمانی کا رسالہ ’’تأصيل التامين التكافلی‘‘ کی شرعی حیثیت اور ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی کی کتاب ’’ تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں جب تکافل کا تصور مروجہ انشورنس کا جائزہ متبادل کے طور پر سامنے آیا تو اس کے عدم جواز پر چند علمائے کرام نے خامہ فرسائی کی جن میں مفتی عبدالواحد اور حافظ ذوالفقار علی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ہم اس مختصر مقالہ میں مروجہ تکافل کے قائلین اور عدم قائلین کے دلائل کا تحقیقی و تقابلی جائزہ اور راجح موقف قارئین کرام کے سامنے پیش کریں گے ۔ تکافل کے بارے دونوں آراء ذکر کرنے سے قبل تکافل کا معنی ومفہوم واضح کر دینا ضروری ہے۔

تکافل کا معنی ومفہوم:

راقم کی محدود معلومات کے مطابق قرآن و حدیث اور قدیم کتب لغات میں تکافل کا لفظ مستعمل نہیں ہے۔ البتہ باب تفاعل کے علاوہ اس کا مادہ مجرد اور دیگر مزید فیہ ابواب کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید میں سیدہ مریمؑ کی کفالت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ
”جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں کون مریم کی کفالت کرے گا ۔“
(آل عمران : 44)

ایک اور مقام پر یوں فرمایا:
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ
’’پھر اس کے رب نے اسے قبول کیا اچھی طرح قبول کرنا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا۔“
(آل عمران : 37)

اسی طرح حدیث میں بھی تکافل کا مادہ استعمال ہوا ہے مثلاً : رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے:
أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هُكَذَا
’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے۔“ پھر آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ملا کر اشارہ فرمایا۔
(صحيح البخاري : 6005)

ان نصوص میں تکافل کا مادہ ’’ک ف ل“ استعمال ہوا ہے۔ لغوی معانی بیان کرتے ہوئے ابن فارس لکھتے ہیں۔
الكفيل: الضامن، تقول: كفل به يكفل كفالة والكافل الذي يكفل إنساناً ،يعوله ، قال الله جل جلاله: (وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا)(آل عمران:37) وأكفلته المال: ضمنته إياه.
’’کفیل کا معنی ضامن (گارنٹی دینے والا) ہے۔ آپ کہتے ہیں: كَفُل به يكفل كفالة بمعنی ضامن ہونا، کفیل ہونا، ذمہ دار ہونا۔ اور کافل سے مراد وہ ہے جو کسی دوسرے انسان کی پرورش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا) اور زکریا کو اس (مریم) کا کفیل (ذمہ دار) بنایا۔ “ اور اکفلته المال میں نے اسے مال کا ضامن بنایا۔
(معجم مقاييس اللغة :188،187/5)

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
الكَفَالَةُ: ضمانت کو کہتے ہیں اور تَكَفَّلْتُ بِكَذَا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں اور كَفَّلْتُهُ فُلانا کے معنی ہیں: میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا۔ قرآن میں ہے: (وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا) (آل عمران:37) اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا۔ بعض نے کفـل تخفیف فا کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل ذکریاؑ ہوں گے یعنی حضرت زکریاؑ نے ان کو اپنی کفالت میں لے لیا۔
(مفردات القرآن، ص : 922)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ تکافل كفالة سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ضمانت دینے ، دیکھ بھال رکھنے اور ذمہ دار ہونے کا ہے۔ جب یہ باب تفاعل میں گیا تو اس میں باہمی مشارکت اور باہمی معاونت کا معنی پایا گیا، تو اب تکافل کا معنی یوں ہوا ’’باہم ایک دوسرے کا ضامن بننا‘‘ یا ’’باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا ۔“
لغت کی جدید کتب میں تکافل کا لفظ زیر بحث آیا ہے۔ چنانچہ معجم الطلاب میں لکھا ہے۔
تَكَافَلَ يَتَكَافَلُ ، تكافُلاَ تَضَامَنَ / تَبَادَلَ الضمانَةَ مَعَ غَيْرِهِ .
’’دوسرے کے ساتھ گارنٹی کا تبادلہ کرنا ۔“
(دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم، ازمولانا ذوالفقار علی، ص: 210)

ڈاکٹر محمد عمارہ ”تکافل“ کے بارے میں کہتے ہیں:
التكافل : هو التضامن والإعالة والرعاية، على النحو الذي يجبر القصور الحادث لدى طرف من أطراف علاقة التكافل والتكافل الاجتماعي هو النظام الذي يقيم علاقة التفاعل والتضامن والإعالة والرعاية بين أعضاء الإجتماع الإنساني في مجتمع من المجتمعات.
تکافل سے مراد باہمی ضمانت، کفالت اور نگہداشت اس طرح کرنا کہ جو تکافل سے تعلق رکھنے والے افراد میں پیدا ہونے والی کمی کو دور کر دے اور اجتماعی تکافل سے مراد ایسا نظام ہے جو معاشروں میں سے کسی بھی معاشرہ میں انسانی معاشرتی و اجتماعی افراد کے درمیان باہمی تعاون، ضمانت ، کفالت اور نگہداشت کے تعلق کو قائم رکھے ۔
(ازالة شبهات عن معانى المصطلحات، ص: 244)

اب آئیے ! ہم مروجہ تکافل کا تصور، اقسام اور اس کی بنیادیں معزز قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں اور قائلین اور عدم قائلین کے دلائل کا تحقیقی و تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں۔

مروّجہ تکافل کا مفہوم:

ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب مروّجہ تکافل کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کرتے ہیں :
’’تکافل ایک اسلامی انشورنس کا نظام ہے، جو باہمی تعاون و تناصر اور تبرع (عطیہ دینا) کے اصول پر مبنی ہے، جہاں تمام شرکاء رسک (خطرات) کو شیئر کرتے ہیں اور اس طرح باہمی تعاون و تناصر کے طریقہ سے شرکاء مقررہ اصول وضوابط کے تحت ممکنہ مالی اثرات سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔“
(تکافل کی شرعی حیثیت ، ص: 72)

اس تعریف میں اسلام کے نظام تکافل کو محدود کر دیا گیا ہے۔ مروجہ تکافل کا نظام اسلام کے پیش کردہ نظام سے کوسوں دور ہے۔ اس نظام میں صرف یہی لوگ شریک ہو سکتے ہیں جو اس نظام کے بیمہ دار ہوتے ہیں اور جو عموماً سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو غریب، نادار، بے کس اور بے سہارا ہیں وہ اپنی غربت کی وجہ سے مروجہ تکافل پالیسی نہیں خرید سکتے جب کہ اسلامی نظام تکافل میں ریاست کے تمام افراد بلا تمیز مسلم و کافر سب کی سماجی و معاشی ضروریات کی کفالت ، غیر متوقع حادثات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس نظام میں بیمہ دار بننے کے لیے مقررہ رقم دینے کی ضرورت نہیں۔

بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے تکافل کا تصور قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے، دلائل بھی دیے ہیں جو اسلام کے نظام تکافل کے ہیں۔ آخر میں موصوف لکھتے ہیں:
’’ان تمام حوالہ جات سے یہ بات بخوبی واضح ہو رہی ہے کہ تکافل کا تصور کوئی نیا یا ایجاد کردہ تصور نہیں، بلکہ یہ تصور قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے، جس کی بنیاد باہمی تعاون و تناصر اور تبرع پر ہے، لہذا اس نظام کے جائز ہونے بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شبہ نہیں، بشرطیکہ یہ اپنے صحیح اصولوں کے مطابق اور اخلاص کے ساتھ ہو۔“
(تکافل کی شرعی حیثیت ، ص : 74)

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تکافل کا تصور قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے لیکن کون سا تکافل؟ وہ تکافل جو مروجہ انشورنس کے مشابہ ہے۔ جو غدر و دھوکا (Uncertainty) پر مبنی ہے۔ ایسا تکافل جس کا مقصد دوسروں کے ساتھ تعاون کے بجائے دراصل اپنے نقصان کا ازالہ ہوتا ہے اور اسے بطور کاروبار کے اختیار کیا جاتا ہے۔ دلائل تو درست ہیں کہ تکافل کا مقصد باہمی تعاون و تناصر ہے لیکن اسے مروجہ تکافل کے دفاع میں پیش کرنا یہ علمی کارنامہ نہیں ہے۔

مروّجہ تکافل کا طریقہ کار:

ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی نے تکافل کمپنی کا طریقہ کار یوں بیان کیا ہے: اصولی طور پر تکافل کمپنی کا طریقہ کار درج ذیل مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔

➊ کمپنی کا قیام:

کنوینشل انشورنس کی طرح تکافل کے اندر بھی سب سے پہلے ایک کمپنی قائم کی جاتی ہے جو تکافل کے معاملات کو منظم کرتی ہے۔ جس کے اندر لوگوں کو تکافل پالیسی حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ عام انشورنس کی طرح تکافل میں بھی مختلف خطرات والے لوگوں کے الگ الگ گروپ بنائے جاتے ہیں، البتہ تکافل کمپنی عام انشورنس کمپنی سے اس اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کہ اس کی حیثیت ایک منیجر اور ٹرسٹی (امین) کی ہوتی ہے، عام انشورنس کمپنی کی طرح یہ پالیسی ہولڈر کے پریمیم (عطیہ) کی مالک نہیں بنتی بلکہ پالیسی ہولڈر کا پریمیم (Premium) اس کے پاس ہوتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ تکافل کمپنی میں شیئر ہولڈرز اپنے طور پر اموال منقوله (Non-Movable Proprt) یا نقود یا دونوں کو شرعی ضوابط کے مطابق وقف کرتے ہیں آج کل عام طور پر صرف نقود (Cash) کو وقف کیا جاتا ہے۔ وقف شدہ رقم کا ایک پول (Pool) بنایا جاتا ہے۔
(التعريفات للجرجاني ، ص :177)

➋ وقف ڈیڈ (Waqf Deed):

وقف پول میں حاصل شدہ ان عطیات کو وقف کے اصول وضوابط کے مطابق خرچ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک ڈیڈ (Deed) بنائی جاتی ہے، جسے وقف ڈیڈ کہا جاتا ہے۔

➌ وجود میں آنے والے عقود (Contracts):

مذکورہ بالا اصول وضوابط طے ہونے کے بعد تکافل کمپنی پالیسی ہولڈرز سے پریمیم وصول کرتی ہے اور یہ پریمیم لے کر وقف کی بنیاد پر بنائے گئے پول میں ڈال دیتی ہے.
(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ، ص: 108)

❀ تکافل کی اقسام:
تکافل کی اقسام کے بارے میں ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب لکھتے ہیں :
مروجہ انشورنس کی طرح تکافل کی بھی دو بڑی قسمیں ہیں:

❀ تکافل کی اقسام:

◈ جنرل تکافل
◈ فیملی تکافل

◈ جنرل تکافل :
جنرل تکافل میں اثاثہ جات ، یعنی جہاز ، موٹر اور مکان وغیرہ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تکافل کی رکنیت فراہم کی جاتی ہے، اگر اس اثاثہ کی جس کے لیے تکافل کی رکنیت حاصل کی گئی ، کوئی حادثہ لاحق ہو جائے تو نقصان کی تلافی ”وقف فنڈ‘‘ سے کی جاتی ہے، کمپنی اس فنڈ کو منظم کرتی ہے اور وکالہ فیس وصول کرتی ہے، نیز اس فنڈ میں موجود رقم کی انویسٹمنٹ (سرمایہ کاری) کے لیے اس کو شرعی کاروبار میں لگاتی ہے، جس کی مختلف شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں، اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے اور باقی نفع وقف فنڈ میں جاتا ہے، اور یہ نفع فنڈ کی اپنی ملکیت ہوتا ہے، تکافل رولز 2005ء میں جنرل تکافل کی درج ذیل تعریف کی گئی ہے۔
’’General Takaful means Takaful other then Family Takaful‘‘
یعنی جنرل تکافل فیملی تکافل کے علاوہ ہر قسم کے تکافل کو کہتے ہیں جیسے کہ گاڑی کا تکافل وغیرہ جنرل تکافل میں ایک ہی فنڈ ہوتا ہے، جسے پی ٹی ایف (Participant Takaful Fund) (PTF) کہتے ہیں، یہ فنڈ وقف ماڈل میں وقف ہوتا ہے، یعنی نہ کمپنی کی ملکیت میں ہوتا ہے اور نہ ممبرز کی ملکیت میں ہوتا ہے، آپر یٹر یعنی کمپنی اس کو منظم کرتی ہے اور اس کو شرعی کاروبار میں لگاتی ہے، جس کی مختلف شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں، اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے اور آپریٹر یا کمپنی مضارب ہوتی ہے، نفع کا خاص تناسب طے ہوتا ہے، اس تناسب سے کمپنی کو بحیثیت مضارب اپنا حصہ ملتا ہے اور باقی نفع فنڈ میں جاتا ہے اور مملوک فنڈ یا مملوک وقف بن جاتا ہے۔ اسی فنڈ سے شرکاء یعنی ممبرز کو حسب قواعد مقررہ کور (Cover) ملتا ہے۔

◈ فیملی تکافل یا لائف تکافل :
لائف انشورنس کو تکافل سسٹم میں فیملی کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس میں PTF کے ساتھ ساتھ PIA اور PIF یعنی Participant Investment Fund بھی ہوتے ہیں۔ یعنی وہ علیحدہ فنڈ جو ان اثاثوں پر مشتمل ہوتا ہے جو فیملی تکافل پلان کے تحت پی آئی اے یونٹس کی نمائندگی کرتا ہے۔“

ا: گروپ فیملی تکافل:
(Group Family Takaful) گروپ انشورنس کی طرح اس میں کسی ادارہ کے ملازمین (Employes) کو (Coverd) کیا جاتا ہے، اس میں ادارہ (Participant) کہلاتا ہے اور ہر ملازم کورڈ پرسن (Coverd Person) کہلاتا ہے۔ اس میں بھی عام طور پر صرف PTF ہوتا ہے، PIA نہیں ہوتا۔

ب: انفرادی فیملی تکافل :
(Individual Family Takaful) یہ عام انشورنش کی طرح ہے، جس میں فرد خود ممبر (Participant) ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اس میں اس کا ادارہ ملوث نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک فرد (Person) کی حیثیت سے یہ پالیسی اختیار کرتا ہے۔ فیملی تکافل میں انسانی زندگی کے ممکنہ خطرات سے نبٹنے کے لیے تکافل رکنیت فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں شرکاء کو تکافل کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حلال سرمایہ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں وقف فنڈ کے علاوہ ایک اور فنڈ ہوتا ہے۔ جس کا نام ”پی آئی اے (PIA)‘‘ ہے۔ یہ شریک تکافل کا سرمایہ کاری فنڈ ہوتا ہے۔ جب کہ جنرل تکافل میں شریک تکافل کا (PIA) اکاؤنٹ نہیں ہوتا۔ جس کی مرحلہ وار تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
❀ شریک تکافل کی جانب سے دی گئی رقم پہلے اس کے (Participant PIF) (investment acount) اکاؤنٹ میں آتی ہے، جہاں پر اس کی سرمایہ کاری اسلامک میوچل فنڈ کی طرز پر کی جاتی ہے اور اس رقم سے شرکاء کے لیے فنڈ میں یونٹس خرید لیے جاتے ہیں۔

❀ پھر وہاں سے ایک متعین طریقہ کار کے مطابق PTF میں رقم آتی رہتی ہے۔ وقف پول میں آنے والی رقم محض تبرع کی بنیاد پر ہوتی ہے اور تبرع کی بنیاد پر یہ رقم شریک تکافل کی عمر، صحت، ہمیشہ، اس کے طور طریقے اور رکنیت پلان کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے۔

❀ PIA میں موجود رقم سے اخراجات نکالنے کے بعد کمپنی بطور وکیل اس رقم کی شریعہ بورڈ کی نگرانی میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔

❀ کمپنی سرمایہ کاری کے لیے اپنی وکالہ فیس وصول کرتی ہے۔

❀ سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل شدہ منافع شریک تکافل کو فراہم کیا جاتا ہے۔

❀ اگر شریک تکافل کی زندگی کو کبھی کوئی حادثہ لاحق ہو جائے تو وقف فنڈ سے اس کی تلافی کی جاتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شریک تکافل کی جانب سے ادا کردہ زیرتعاون دو مقاصد میں تقسیم ہوتا ہے، رقم کا کچھ حصہ بطور تبرع وقف فنڈ میں چلا جاتا ہے اور باقی ماندہ حصہ سرمایہ کاری میں لگایا جاتا ہے۔
(تکافل کی شرعی حیثیت، ص: 10298)

معزز قارئین کرام! آپ نے مروجہ تکافل کا طریقہ کار اور اقسام ملاحظہ کیں ، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ مروجہ تکافل کا نظام، اسلام کے تکافل اجتماعی سے بالکل مختلف ہے اور اس کا طریقہ کار اور اقسام روایتی انشورنس کے قریب تر ہے۔

باقی رہا مروجہ تکافل کی بنیاد عقد معاوضہ پر ہے یا کہ عقد تبرع پر ہے۔ اس بارے میں تکافل کے قائلین کا دعوی یہ ہے کہ تکافل کی بنیاد عقد تبرع پر ہے جو کہ جائز صورت ہے۔ عدم قائلین حضرات اس کو عقد معاوضہ قرار دیتے ہیں۔ اب آئیے دونوں فریق کے دلائل کا تحقیقی و تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔

تکافل کی بنیاد :

تکافل کے قائلین نے تکافل کی بنیاد عقد تبرع قرار دی ہے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا تفصیل سے یہ فیصلہ کرنا نہایت آسان ہو گیا کہ تکافل کیوں شرعی طریقہ ہے، اور کیوں جائز ہے اور اس میں وہ خرابیاں نہیں رہیں، جو مروجہ انشورنس میں تھیں، یعنی سود، قمار اور غرر، وہ اس طرح کہ جب تکافل عقود معاوضات میں سے نہیں، بلکہ عقود تبرعات تبرعات تبرع کی جمع ہے جس کا معنی ہے کسی عوض کی خواہش کے بغیر کسی کو کوئی چیز احسان کے طور پر دینا (المنجد ، ص : 34) میں سے ہے تو اس میں سود کا تصور خود بخود ختم ہو گیا، کیوں کہ اس معاملہ پر سود کی تعریف صادق نہیں آتی ، کیوں کہ سود یا قرض میں ہوتا ہے، یا بیع میں اور تکافل کا طریقہ نہ قرض ہے، نہ بیع ، لہذا سود کا عنصر خود نکل گیا اور چوں کہ یہ عقد تبرع ہے، اس لیے اگر اس میں غرر (دھوکا) ہو، تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ غرر عقد معاوضہ میں شرعاً مضر ہے، عقد تبرع میں مضر نہیں۔“
(تکافل کی شرعی حیثیت، ص: 104)

عدم قائلین کے نزدیک یہ عقد تبرع نہیں ہے اس بارے میں مولانا ذوالفقار صاحب رقم طراز ہیں:
’’کمرشل انشورنس کو جن خرابیوں کی بنیاد پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سر فہرست سود اور غرر (Uncertainty) ہے۔ بادی النظر میں یہ دونوں خرابیاں یہاں بھی پائی جاتی ہیں وہ یوں کہ اگر پالیسی ہولڈر مدت پوری ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کو پالیسی کے تحت طے شدہ رقم دی جاتی ہے۔ جس کا ایک حصہ اس نے ادا ہی نہیں کیا ہوتا اور کمپنی قانونی طور پر اس کی پابند بھی ہوتی ہے جب کہ غرر اس طرح کہ دونوں احتمال ہیں، ممکن ہے جس نقصان کے ازالہ کے لیے پالیسی لی گئی ہے وہ پیش نہ آئے اور ادا کی ہوئی رقم رائیگاں جائے ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ پیش آجائے اور کمپنی کے ذمہ ادا ئیگی لازم ہو جائے۔

تجارتی تکافل کے حامی کہتے ہیں کہ اضافہ اور غرر تب ممنوع ہے جب عقد معاوضہ (لین دین کی وہ صورت جس میں ایک فریق دوسرے سے معاوضہ لینے کا حق رکھتا ہے) میں ہو جب کہ یہ عقد تبرع (Donation) ہے۔ لیکن یہ تو جبیہ درست نہیں۔ کیوں کہ پالیسی ہولڈر کو حاصل ہونے والے فوائد کا انحصار پالیسی مالیت کی کمی بیشی پر ہوتا ہے یعنی پریمیم (Premium) کم ہو تو فائدہ بھی کم، پریمیم زیادہ ہو تو فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ سب کچھ با قاعدہ ایک معاہدے کے تحت ہوتا ہے جس کی پابندی فریقین کے لیے لازمی ہوتی ہے اور اس کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے حتی کہ اگر کلیمز کی ادائیگی کے لیے رقم موجود نہ ہو تو (نام نہاد) وقف قرض لے کر یہ ادا ئیگی ممکن بناتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو عقد تبرع قرار دینا نا قابل فہم ہے۔ نیز اس پر تبرع کی تعریف بھی صادق نہیں آتی کیوں کہ تبرع کا معنی ہے کسی کو کوئی چیز اس طرح دی جائے کہ معاوضے کی خواہش نہ رکھی جائے جب کہ یہاں تو محرک ہی یہ ہے کہ مجھے اس کے عوض یہ فوائد حاصل ہوں گے۔
(دور حاضر کے مالی معاملات ،ص: 220، 221)

جائزہ:
فریقین کے دلائل و شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ تکافل کی بنیاد وقف یا تبرع پر نام کی حد تک تو صحیح ہے لیکن عملاً یہ عقد معاوضہ ہی ہے۔ مروجہ تکافل میں تکافل کمپنی کا طریقہ کار کمرشل انشورنس کی طرح ہے۔
اگر اس کی بنیاد عقد تبرع پر بھی ہو تو قائلین حضرات نے اس پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر صمدانی صاحب لکھتے ہیں:
وقف کا شخصی قانونی ہونا ایک ایسی خصوصیت ہے کہ اس کی وجہ سے انشورنس کا شرعی متبادل پیش کرنے میں کافی سہولتیں پیدا ہوئی ہیں۔ اسی لیے علمائے پاکستان نے وقف کی بنیاد پر تکافل کا نظام قائم کرنے کو ترجیح دی ہے کیوں کہ تبرع کے مقابلے میں وقف کے اندر وسعتیں (Flexibilites) قدرے زیادہ ہیں اور موجودہ دور میں تکافل کا جو طریقہ کار رائج ہے، اس میں تبرع والے نظام کو اختیار کرنے سے اس بات کا پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا کہ کیا یہ معاملہ عقد معاوضہ سے پوری طرح نکل چکا ہے یا نہیں۔ اس بات کا پوری طرح اطمینان کسے نہیں ہوتا۔

مزید وہ مفتی تقی عثمانی صاحب کے مقالہ کا خلاصہ لکھتے ہیں: تبرع ماڈل میں پالیسی ہولڈر جو پریمیم دیتا ہے، اس کی شرعی حیثیت محل نظر ہے جن حضرات نے تبرع ماڈل کو درست قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس کی درج ذیل توجیہات پیش کی ہیں:

➊ یہ پریمیم ”هبه بشرط العوض“ ہے، یعنی پالیسی ہولڈر یہ پریمیم کمپنی کو بطور ھبہ (عطیہ) دیتا ہے، البتہ اس میں بدلہ لینے کی شرط لگاتا ہے، گویا وہ تکافل کمپنی سے یہ کہتا ہے کہ میں آپ کو یہ رقم اس شرط پر دیتا ہوں کہ آپ اس کے بدلے میرے ممکنہ نقصان کی تلافی کریں گے۔ یہ توجیہ درست نہیں کیوں کہ ہبہ شرط العوض بیچ (خرید وفروخت) کے حکم میں ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق : 502/7، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع : 132/2) اس لیے یہ صورت عقد معاوضہ میں داخل ہوتی ہے۔

➋ ”یہ ”التزام التبرع‘‘ کی قبیل سے ہے، جس میں پالیسی ہولڈر اپنے اوپر یہ التزام کرتا ہے کہ وہ کمپنی کواتنی رقم بطور عطیہ دے گا اور کمپنی اپنے اوپر یہ التزام (Undertaking) کرتی ہے کہ جو شخص اسے اتنا پریمیم دے گا، وہ اس کے فلاں فلاں رسک کو کور کرے گا۔ یہ توجیہہ مالکیہ کے مسلک پر پیش کی گئی ہے۔
(تـحـريـر الـكـلام فـي مسائل الالتزام ، ص: 75 بحواله تكافل انشورنس کا اسلامی طریقہ، ص: 98)

لیکن یہ تو جیہہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ اس میں دونوں فریق (یعنی کمپنی اور پالیسی ہولڈر) میں سے ہر ایک اپنے اوپر تبرع کا التزام اس شرط پر کر رہا ہے کہ دوسرا بھی اس پر تبرع کرنے کا التزام کرے کیوں کہ کمپنی ایسے شخص سے تبرع کا التزام نہیں کرتی جو اس کے لیے تبرع کا التزام کر کے اس کے پاس پریمیم جمع نہ کرائے اور پالیسی ہولڈر بھی اس کمپنی کے لیے تبرع کا التزام کر رہا ہے جو اس کے نقصان کی تلافی کرنے کے لیے تبرع کا التزام کرے۔ ایسا التزام تبرع جو جانبین سے مشروط (Conditional) ہو، خود مالکیہ کے ہاں عقد معاوضہ (Commutative Contract) کے حکم میں ہے۔
(تــحــريـــر الـكـلام فــي مسائل الالتزام، ص: 75 بحوالہ تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ، ص: 200)
اس لیے یہ توجیہہ بھی قابل اعتماد نہیں۔

➌ بعض حضرات نے یہ کہا کہ تبرع محض (Absalutely Donation) ہے، یعنی شرط کے ساتھ مشروط نہیں جس کے نتیجہ پر پریمیم پالیسی ہولڈر کی ملکیت سے نکل جاتا ہے، لہذا نہ اس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے اور نہ اس رقم پر میراث کے احکام جاری ہوتے ہیں، لیکن یہ توجیہہ اس صورت میں درست قرار دی جا سکتی ہے جب تبرع کے نتیجہ میں وجود آنے والے پول کو شخصی قانونی (Legal Person) قرار دیا جائے تا کہ پہلے وہ اس کا مالک بن جائے اور پھر وہ اپنے قواعد کے مطابق پالیسی ہولڈر کے رسک کو کور کرے، جب کہ تکافل کے موجودہ نظام میں تبرع کی بنیاد پر قائم ہونے والے پول کا شخصی قانونی ہونا محل نظر ہے کیوں کہ اس کا کمپنی سے الگ کوئی وجود نہیں ہوتا۔
(تأصيل التامين التكافلي على أساس الوقف ، ص: 4، 12 ۔ بحوالہ تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ ص: 97، 98)

مفتی صاحب کا کلام نقل کرنے کے بعد صدانی صاحب لکھتے ہیں:
اس کے برعکس وقف چوں کہ خود شخصی قانونی ہے اور دیے گئے عطیات براہ راست وقف کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور وقف بعد اپنے طے کردہ ضوابط کی روشنی میں کلیمز (Claims) کی ادائیگی کرتا ہے، اس لیے وقف کا نظام زیادہ قابل اطمینان ہے ۔ (ایضاً: 100)

مفتی تقی عثمانی صاحب کی بحث سے معلوم ہوا کہ تکافل کا تبرع کی بنیاد پر موجودہ نظام قابل اطمینان نہیں ہے اور دوسرا تکافل کے نظام میں تبرع کی بنیاد پر قائم ہونے والا پول (Pool) کا شخصی قانونی ہونا بھی محل نظر ہے۔

باقی جو ’’وقف‘‘ کی بنیاد پر قائم کیا جانے والا ڈھانچہ پیش کیا گیا ہے اس نظام میں بھی وہ تمام اشکالات و خدشات موجود ہیں۔ یہاں بھی پالیسی ہولڈر پریمیم کمپنی کو جو رقم بطور وقف دیتا ہے۔ اس میں بدلہ لینے کی شرط لگاتا ہے یہ صورت عقد معاوضہ میں داخل ہو جاتی ہے اور وقف کا یہ طریقہ بھی حل نظر ہے کہ جو زیادہ عطیہ دے وہ اس شخص سے زیادہ نقصان کی تلافی کا حق دار ٹھہرتا ہے جو اس کے مقابلے میں کم عطیہ دے تو وہ کم نقصان کی تلافی کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ گویا کہ عطیہ (پریمیم) کی کمی اور زیادتی کی بنیاد پر نقصان کی تلافی میں کمی زیادہ کرنا اسے عقد معاوضہ کے قریب کر دیتا ہے۔ (ایضاً:103، 104)

پہلی صورت کو خود قائلین حضرات نے عقد معاوضہ قرار دیا ہے اور دوسری صورت میں وقف کے اپنے طے شدہ قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر اس بات کا دعویٰ کرنا کہ میں اس قواعد کی بنیاد پر وقف کی طرف سے تلافی نقصان کا حق دار ہوں یہ توجیہہ بھی کمزور ہے کیوں کہ پالیسی ہولڈر کو قواعد و ضوابط کے تحت دعوی کرنے کا حق بھی دی گئی رقم کے بدلے ہی حاصل ہوا ہے۔ باقی یہ کہنا کہ اس میں کمی زیادتی کی بنیاد پر کم یا زیادہ نقصان کی تلافی اگر پالیسی ہولڈر کا قانونی حق نہ ہو بلکہ وقف کی طرف سے صرف وعدہ ہو تو پھر یہ معاملہ بلاشبہ عقد معاوضہ میں داخل نہیں۔
(ایضاً: 104)یہ محض ایک حیلہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ ، وَإِنَّمَا لِلأَمْرِي مَا نَوَى
”اے لوگو! بے شک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور بے شک آدمی کے لیے ( وہی کچھ حاصل ہوتا ) جو اس نے نیت کی ہو۔“
(صحیح البخاري : 6953)

مولانا خلیل الرحمن جاوید رقم طراز ہیں :
”جو یہ کہا گیا ہے کہ پالیسی ہولڈر اپنے وقف فنڈ کی کمی بیشی کی بنیاد پر نقصان کی تلافی کا حق نہ رکھتا ہو بلکہ وقف کی طرف سے نقصان کی تلافی کا وعدہ ہو تب یہ عقد معاوضہ نہیں ہے۔ یہ بھی محض ایک حیلہ ہے دیگر حیل کی طرح ورنہ تکافل کمپنی بتائے کہ اس نے وعدہ کس بنیاد پر کیا ہے؟ ظاہر ہے اس فنڈ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جسے واقف نے تکافل کمپنی کے پول میں جمع کر دیا ہے اور یہ تمام معاہدات پہلے سے طے ہو جاتے ہیں اور پالیسی ہولڈر بھی ہمیشہ کمپنی کی طرف سے پیش کردہ فوائد کا بغور جائزہ لے کر پالیسی خریدتا ہے اور یہی چیز اسے عقد معاوضہ بنا دیتی ہے۔ چوں کہ پالیسی ہولڈر کے علم میں پہلے سے یہ بات ہوتی ہے کہ اگر پریمیم کی رقم اتنی ہو تو مجھے نقصان کی صورت میں اتنا ملے گا اور اگر اس سے کم ہو تو پھر اتنا ملے گا یہ قاعدہ کاروبار ہے اور تکافل کمپنی اور واقف دونوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ ایک فریق اپنی قسط ادا کرے اور دوسرا فریق اس کے نقصان کے وقت اس کی تلافی کرے یہ صریحاً عقد معاوضہ ہی ہے جو ناجائز ہے۔ چاہے پالیسی ہولڈر کو یہ عقد اپنی جمع شدہ رقم کی بنیاد پر دیا گیا ہو یا تکافل کمپنی کے وعدہ اور قواعد وضوابط کی بنیاد پر، دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اس لیے کہ قواعد وضوابط کے تحت یا وعدہ کے تحت دیا گیا حق بھی پالیسی ہولڈر کی رقم کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ لہذا یہ عقد کس طرح بھی عقد معاوضہ سے الگ نہیں ہے۔‘‘
(جانب حلال ،ص: 545، 546)

وقف النقود کا معاملہ :

یہاں یہ بحث بھی بڑی اہم ہے کہ کیا نقدی کو وقف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ تکافل کی پوری عمارت اسی پر قائم ہے۔ تمام اہل علم فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وقف میں اصل چیز کو باقی رکھ کر صرف اس کی منفعت خرچ کی جائے گی اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے:
إِنْ شِئْتَ حَبَستَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا
’’اگر تو چاہے تو اس کی اصل روک لے اور اس کی (پیداوار) کو صدقہ کردے۔‘‘
(صحیح البخاري : 2772)

یہ حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے کہ وقف وہ چیز ہو سکتی ہے جس کو باقی رکھ کر فائدہ اٹھانا ممکن ہو جب کہ روپیہ اور پیسہ اپنی اصل حیثیت میں رہتے ہوئے کوئی فائدہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ روپے پیسے اور درہم و دینار کو خرچ کیے بغیر ان سے استفادہ ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روپے پیسے کو کرایہ پر دینا درست نہیں کیوں کہ کرایہ اسی چیز کا لیا جاتا ہے جسے صرف کیے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہو جب کہ نقد میں یہ خوبی نہیں ہے اس لیے اس کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔ مروجہ تکافل کے حامی بھی اس سے متفق ہیں کہ ان کا کرایہ درست نہیں ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’لیز کے صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لیز پر دی گئی چیز کی ملکیت مؤجر (Lessor) ہی کے پاس رہے اور مستاجر (Lessee) کو صرف حق استعمال منتقل ہو، لہذا ہر ایسی چیز جسے صرف کیے بغیر استعمال نہیں کیا جا سکتا ان کی لیز بھی نہیں ہو سکتی ، اس لیے نقد رقم ، کھانے پینے کی اشیاء ایندھن اور گولہ بارود وغیرہ کی لیز ممکن نہیں ہے اس لیے کہ انھیں خرچ کیے بغیر ان کا استعمال ممکن نہیں ہے اگر اس نوعیت کی کوئی چیز لیز پر دے دی گئی ہے تو اسے ایک قرض سمجھا جائے گا اور قرض کے سارے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔ اس غیر صحیح لیز پر جو بھی کرایہ لیا جائے گا وہ قرض پر لیا جانے والا سود ہوگا ۔“
(اسلامی بینکاری کی بنیادیں ،ص: 179)

جب مروّجہ تکافل کے مؤیدین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نقدی ایک ایسی چیز ہے جس کا استعمال خرچ کیے بغیر ممکن نہیں تو پھر فقہاء کرام کی اس شرط کہ ”وقف وہی چیز ہو سکتی ہے جو باقی رہ کر قابل فائدہ ہو کو نظر انداز کر کے نقد کے وقف کے جواز کا فتویٰ سمجھ سے بالا تر ہے۔

اکثر فقہاء کرام کی رائے کے مطابق درہم و دینار کی وقف درست نہیں ہے۔ علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
’’و جملته أن مالا يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه كالدنانير والدراهم والمطعوم والمشروب والشمع وأشباهه، لايصح وقفه في قول عامة الفقهاء وأهل العلم.“
’’اور خلاصہ یہ ہے کہ جس چیز کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو جیسے درہم و دینار، کھانا ، مشروب ، شمع اور اس جیسی دیگر اشیاء، عام فقہاء اور اہل علم کے نزدیک ان کا وقف صحیح نہیں ہے۔“
(المغنی : 640/5)

علامہ ابن ہمام رقم طراز ہیں:
’’وأما وقف مالا ينتفع به إلا بالإتلاف كالذهب والفضة والمأكول والمشروب فغير جائز في قول عامة الفقهاء.“
’’رہا معاملہ اس چیز کا وقف جس کو صرف کیے بغیر اس سے استفادہ ممکن نہ ہو جیسے سونا، چاندی اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں تو عام فقہاء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔‘‘
(فتح القدير : 97/14)

علامہ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:
’’واعلم أن وقف الـمـنـقـول لا يصح على أصل المذهب وأجازه محمد فيما تعارفه الناس.“
’’جان لو! اصل (حنفی) مذہب میں اشیاء منقولہ کا وقف صحیح نہیں ہے ۔ مگر امام محمد نے ان چیزوں میں اس کی اجازت دی ہے جن میں لوگوں کا عرف ہو جائے ۔“
(فیض الباری : 614/3)

ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے لکھا ہے:
’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک منقولہ اشیاء کا وقف جائز نہیں اور جائز نہ ہونے کی علت یہی ہے کہ وقف تابید چاہتا ہے اور منقولہ اشیاء میں تابید نہیں پائی جاتی ، خواہ وہ کوئی شئی ہو۔“
(تکافل کی شرعی حیثیت ،ص: 126)

اس کے برعکس تکافل کے حامی امام زفرؒ کے شاگرد محمد بن عبداللہ انصاری کا فتویٰ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے درہم و دینار کے وقف کو جائز قرار دیا ہے۔ جس کی نص یوں ہے:
وعن الأنصاري وكان من أصحاب زفر فيمن وقف الدراهم أو الطعام أو ما يكال أو ما يوزن أيجوز ذلك؟ قال: نعم، قيل: وكيف؟ قال: يدفع الدراهم مضاربة ثم يتصدق بها في الوجه الذي وقف عليه.
’’انصاری جو کہ امام زفرؒ کے اصحاب میں سے ہیں، سے پوچھا گیا کہ جس نے دراہم یا کھانا یا مکیلی یا موزونی شی کو وقف کیا تو کیا یہ جائز ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں، جائز ہے۔ پوچھا گیا: جائز کس طرح ہے؟ فرمایا کہ پہلے وہ دراہم کو مضاربت پر دے دے اور پھر جہت وقف میں صدقہ کر دے۔‘‘
(فتح القدیر: 98/14)

لیکن یہ فتویٰ از خود تکافل کمپنیوں کے خلاف جاتا ہے کیوں کہ تکافل کمپنیوں کے مالکان اپنے قائم کیے ہوئے وقف سے کسی کو بطور مضار بہ رقم نہیں دیتے بلکہ خود ہی کاروبار کرتے ہیں اور اس کی باقاعدہ فیس وصول کرتے ہیں۔

باقی جو حضرات نقدی کو وقف کرنے کے قائل ہیں ان کے خیال میں روپے پیسے کو بھی باقی رکھ کر فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ یوں کہ ان سے کاروبار کیا جائے جو نفع ہو وہ خرچ کر دیا جائے۔
اس کے جواب میں مولانا ذوالفقار علی لکھتے ہیں. یہ دو وجہ سے درست نہیں ہے۔
ا: ایک تو اس لیے کہ یہ صورت روپے پیسے کو اس کی اصل حیثیت میں باقی رکھ کر فائدہ حاصل کرنے کی نہیں اس طرح کا فائدہ تو روپے پیسے کو کرایہ پر دے کر بھی لیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ شرعا جائز نہیں، کیوں؟ اس لیے کہ اس قسم کا فائدہ نقد کی تخلیق کا اصل مقصد نہیں ہے۔

ب: دوسرا اس لیے کہ روپے پیسے کو کاروبار میں لگانے سے فائدہ کے بجائے نقصان کا بھی اندیشہ ہے اور ممکن ہے وقف ختم ہی ہو جائے اس لیے یہ کہنا کہ وقف کی ہوئی رقم سے کاروبار کر کے اس کا نفع خرچ کیا جائے گا آپ ﷺ کے اس ارشاد کہ اصل روک کر رکھو اور اس کی پیداوار خرچ کرو کے خلاف ہے۔“
(دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم، ص: 227)

اگر فریقین کے پیش کردہ دلائل کا باہم تقابل و تجزیہ کیا جائے تو ان حضرات کا مؤقف صحیح و راجح معلوم ہوتا ہے جو نقدی کے وقف کو نا جائز قرار دیتے ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کا قول نقل کرتے ہیں جس میں انھوں نے تکافل کمپنیوں کو غیر منقول جائیداد کا وقف پول بنانے کی نصیحت کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ان کا نقطہ نظر کمزور ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’اس میں شک نہیں کہ احتیاط کا تقاضا ہر مسئلہ میں یہی ہے کہ اس قول کو لیا جائے کہ جو متفق علیہ ہو، تاکہ اس میں تمام مذاہب اور تمام مواقف کی رعایت رہے، لہذا اگر تکافل کمپنیاں وقف پول نقود کی بجائے کسی غیر منقولہ جائیداد کی شکل میں بنائے، تو اس کے بہتر ہونے میں کوئی شک نہیں۔‘‘
(تکافل کی شرعی حیثیت، ص: 130)

علاوہ ازیں تکافل کے عدم قائلین حضرات نے مروجہ اسلامی انشورنس میں ایلوکیشن اور ایڈمن فیس کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اس بارے میں مولا نا ذوالفقار علی لکھتے ہیں:
”جب نام نہاد اسلامی انشورنس نظریاتی مرحلہ میں تھی تب یہ کہا جاتا تھا کہ روایتی انشورنس میں یہ ظلم ہوتا ہے کہ پہلی قسط تقریباً پوری کی پوری ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے جب کہ تکافل میں یہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب عملی مرحلہ آیا تو نام نہاد اسلامی انشورنس نے بھی وہی راستہ اختیار کیا۔ ہمارے خیال میں یہ پالیسی ہولڈر کے ساتھ زیادتی ہے وہ اس طرح کہ اگر وہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد تکافل کمپنی کو الوداع کہتا ہے تو قواعد وضوابط کے مطابق اس کو صرف وہ رقم ملتی ہے جو انویسٹمنٹ کھاتے میں جمع ہو یا پھر اس سے حاصل ہونے والا نفع ۔ اب ستاسی فیصد تو ایلوکیشن فیس کے نام پر پہلے بھی الگ کیا جا چکا ہے باقی تیرہ فیصد بچا اس میں سے آدھا وقف میں چلا گیا جو شرعاً واپس نہیں لیا جا سکتا، جو باقی رہ گیا اس میں سے ڈیڑھ فیصد مینجمنٹ اور 65 سے لے کر ایک سو دس روپے تک ماہانہ ایڈمن فیس بھی لی جانی ہے۔ پالیسی ہولڈر کے ہاتھ میں کیا آیا؟ ایلوکیشن فیس کی اس کے علاوہ کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ یہ باطل حربوں سے مال کھانے کی بدترین شکل ہے۔“
(دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ص: 230، 231)

خلاصہ بحث یہ ہے کہ اسلام کا نظام تکافل مروجہ تکافلی نظام سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام کے نظام تکافل کا بنیادی مقصد معاشرہ کے تمام افراد باہم مل کر ضرورت مندوں، بے کسوں اور محتاجوں کی مساعدت و معاونت کرنا ہے نہ کہ اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی کرنا ہے۔ مروجہ تکافلی نظام روایتی انشورنس کی طرح سود اور غرر سے خالی نہیں ہے۔ تکافل کا رائج الوقت نظام بھی عقد معاوضہ پر مبنی ہے نہ کہ عقد تبرع پر اور اسی طرح تکافل کمپنی کی پوری بنیاد نقود پر کھڑی ہے حالاں کہ حدیث رسول علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیم کے مطابق واقف کی اصل وقف کردہ چیز برقرار رہے گی اس کی منفعت تقسیم ہو گی. اس اصول کے تحت تکافل کی بنیادیں انتہائی کمزور ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں تکافل کمپنی کا پالیسی ہولڈر سے ایلوکیشن اور ایڈمن کے نام سے فیس بٹورنا سراسر ظلم و زیادتی اور ناحق ہے۔ اس بنا پر عدم قائلین کا موقف مبنی برحق معلوم ہوتا ہے۔

مذکورہ بحث سے قارئین کرام کے ذہن میں یہ سوال یقینا پیدا ہو رہا ہوگا کہ جب مروّجہ تکافل کی صورت بھی ناجائز ہے تو پھر کیا تکافل کی کوئی جائز شکل وصورت بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مولانا خلیل الرحمن جاوید لکھتے ہیں:
”یقیناً یہ صورت پیدا ہوسکتی ہے بشرط کہ اس سے عقد معاوضہ اور اس میں پائی جانے والی دیگر خرابیوں کو دور کر دیا جائے.. .. عقد معاوضہ سے بچنے کے لیے ضروری ہوگا کہ تکافل فنڈ میں جو شخص بھی رقم جمع کرائے وہ اپنے کسی ذاتی، مالی یا مادی فائدے کے لیے نہ ہو بلکہ سراسر نیک جذبے کے ساتھ دوسروں کی فلاح اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، جس طرح کا نیک جذبہ کسی خیراتی ادارے، دینی مدرسے یا کسی ہاسپیٹل وغیرہ کو ڈونیشن (عطیہ) دیتے وقت ہوتا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ عطیات زکوۃ فنڈ پر مشتمل نہ ہوں بلکہ اس کے علاوہ فنڈ سے ہوں کیوں کہ اس فنڈ سے جو لوگ مستفید ہوں گے ضروری نہیں کہ وہ زکوۃ کے حق دار ہوں ۔ عطیہ کرنے والا ہر شخص محض احسان، تبرع اور ہدیہ کرنے کی غرض سے دے، جس سے اغنیاء بھی مستفید ہو سکتے ہیں‘‘ جیسا کہ فرمان نبوی مسلم ہے:
تَهَادُوا تَحَابُوا
آپس میں ہدیہ لیا دیا کرو اس سے باہمی محبت پیدا ہوتی ہے.
(الأدب المفرد ، ح : 594)

’’چوں کہ تکافل کی یہ شکل و صورت عقد معاوضہ نہیں ہے اس لیے تکافل فنڈ میں شریک کسی بھی شخص کو کلیم کرنے کا حق بھی نہیں ہے نہ اس بنیاد پر کہ اس نے عطیات دیے ہیں اور نہ اس بنیاد پر کہ تکافل کے رولز کے مطابق اس کا حق بنتا ہے بلکہ کسی طرح کے نقصان ہو جانے کی صورت میں دوسرے شر کاء محض احسان، تبرع اور ہدیہ کے طور پر اس کی مدد کریں۔“
(جانب حلال ص: 571، 572)

بہرحال مروجہ تکافل کی اصلاح کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس نظام کی بہتری کے لیے اسے عقد معاوضہ سے خالی کرنا ہوگا اور وقف فنڈ میں نقدی کا خاتمہ ضروری ہے اسی طرح دیگر خرابیاں دور کر دی جائیں اور اسے خالص اسلامی تکافل کے نظام پر قائم کیا جائے تا کہ اس سے سود اور غرر کا استیصال ہو جائے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
وباللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!